عالمی امن اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام

درحقیقت مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہی وہ خطرناک مافیہ ہے جس نے پوری انسانیت پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ذرائع ابلاغ پوری طرح ان کی دسترس میں ہے اس نظام نے کرپشن کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ اب اس کے جائز ہونے پرمباحثے ہو رہے ہیں۔کرپشن کا ایک عالمی نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں نواز شریف کے بیانیے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اسی گروہ کے لوگ بھارت میں بھی موجود ہیں اور باقی دنیا میں بھی سرگرم ہیں۔آج ایک عام سیاستدان سے لے کر امریکی صدر تک سب مغربی سرمایہ دار کے بروکر ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ان میں سے کسی کو غریب انسان کی فکر نہیں ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز پر یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ یہ صدی نسلِ انسانی کے لیے امن کا پیغام لے کر آئے گی اور انسان اس صدی میں خوشحالی اورامن کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گا۔گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ موجودہ صدی میں جنگ اور بارود نام کی کوئی شے نہیں ہو گی۔مگر افسوس سب اندازے اور خیال غلط ثابت ہوئے ۔یہ صدی بھی انسانوں کے لیے اپنے ساتھ خوف،ڈر اور بدامنی کا سامان لائی ہے۔اس صدی کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کی مصیبت اور تکلیف میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔انسانی ضمیر اس قدرمردہ ہو چکا ہے کہ ملک شام میں ہلاک ہونے والے بچے بھی اسے زندہ نہ کرسکے۔دنیا کو ان معصوموں کی موت پر کوئی صدمہ نہیں ہے۔کسی بھی جانب سے قاتلوں کے خلاف کوئی زور دار آواز بلند نہیں ہوئی ہے۔موثر ترین میڈیا کے اس دور میں بھی یہ معاملہ انسانی توجہ حاصل نہ کر سکا۔آخر کیا وجہ ہے کہ انسانیت کو لاحق مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کی تشخیص اور علاج کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی جا رہی ہے۔علاج کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ جہاں علامت نظر آئے اسے دیکھ کر علاج کر دیا جائے دوسرا یہ کہ سر سے پیر تک پورے جسم کو دیکھا جائے تمام علامات کا مشاہدہ کیا جائے اور مرض کو جڑ سے ختم کر دیا جائے۔موثر طریقہ علاج دوسری طرز کا ہی ہے مگر بد قسمتی سے یہاں پہلی طرز کا طریقہ علاج اختیار کیا جاتا ہے اور مرض ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔

اس وقت دشمنانِ انسانیت گھناؤنی ساشیں کر رہے ہیں اوروہ انسانوں کو آپس میں لڑانے میں مصروف ہیں۔موجودہ دور میں گلی گلی میں جو جنگ جا ری ہے اس کے پیچھے بھی کوئی مداری ہے۔پوری دنیا میں منظم منصوبہ بندی کے ساتھ انسانیت کی تباہی کی سازشیں ہو رہی ہیں۔دنیا کے وہ خطے جہاں مسلمان کثرت سے آباد ہیں زیادہ متاثر ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ صرف اسلام نہیں دنیا کا ہر مذہب ان کی زد پر ہے۔اس انسان دشمن نے صرف مذہب کو ہی نہیں بلکہ دہشت گردی سمیت ہر شے کو صنعت بنا کر رکھ دیا ہے۔آج مذہب اور دہشت گردی کو مخلوط کر دیا گیا ہے اور اس اختلاط کے بھیانک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔درحقیقت مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہی وہ خطرناک مافیہ ہے جس نے پوری انسانیت پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ذرائع ابلاغ پوری طرح ان کی دسترس میں ہے اس نظام نے کرپشن کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ اب اس کے جائز ہونے پرمباحثے ہو رہے ہیں۔کرپشن کا ایک عالمی نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں نواز شریف کے بیانیے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اسی گروہ کے لوگ بھارت میں بھی موجود ہیں اور باقی دنیا میں بھی سرگرم ہیں۔آج ایک عام سیاستدان سے لے کر امریکی صدر تک سب مغربی سرمایہ دار کے بروکر ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ان میں سے کسی کو غریب انسان کی فکر نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔یہ غربت اور بھوک کونہیں مٹا سکتے ہیں۔کرپشن کا خاتمہ ان سے ممکن نہیں ہے۔ ان کا چہرہ کچھ اور باطن میں کچھ اور ہے۔ان کی باتیں محض سخن فروشی ہے۔اس وقت المیہ یہ ہے کہ اس مغربی سرمایہ دارانہ سوچ کے مقابل کوئی مربوط بیانیہ موجود نہیں ہے۔

یہ سرمایہ دار طبقہ دنیا بھر کے وسائل پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔وہ اپنے ا س مقصد کے لیے امریکہ اور مغربی حکومتوں کو استعمال کر رہا ہے۔داعش کو انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنایا گیا۔عراق میں بظاہر امریکہ اور مغرب عراقی حکومت کے ساتھ تھے اور ہوائی جہازوں کے ذریعے جو اسلحہ عراقی فوج کے لیے پھینکنا ہوتا تھا وہ داعش کے علاقوں میں پھینک دیتے تھے اور جو بم داعش کے علاقوں پر پھینکنے ہوتے تھے وہ عراقی فوج اور ملیشیاء پر پھینک دیتے تھے۔آج سے چند سال پہلے امریکہ کہتا تھا کہ عراق اور خطے میں داعش کے خاتمے کے لیے تیس سے چالیس سال کا عرصہ درکار ہے اور وہ ا س عرصہ میں یہاں کے تیل کے کنویں پینا چاہتا تھا۔ مگر یہاں ایمان دار اور صالح قیادت موجود تھی اور خود عراقیوں نے اسے تین سال کے عرصے میں ختم کر دیا اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ وہاں کی لیڈر شپ اس مغربی سرمایہ دارنہ مافیہ کا آلہ کار نہیں بنی۔دیگر ملکوں کی قیادتوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔مغربی سرمایہ دار پوری دنیا میں انسانیت کا خون چوس رہا ہے۔اربوں انسان ایک طرف اور مٹھی بھر افراد پوری دنیا کے وسائل پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔یہ امر بھی طے ہے کہ جتنے مذاہب آئے ہیں وہ سب کے سب انسانی مسائل ختم کرنے کے لیے ہیں۔ان مذاہب پر سرمایہ دار نے قبضہ کر لیا ہے آج ضرورت ایک صالح قیادت کی ہے جو westren capitalismکے مقابل دیانت پر مبنی ایک مساویانہ نظام کے لیے جدوجہد کرے۔بھوک اور غربت سرمایہ دار کو تحفظ اور ترقی فراہم کرتی ہے ۔ان ہی کے خلاف جدوجہد درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ہے اور انسانیت کی خدمت وبھلائی اسی میں ہے کہ دنیا سے بھوک اور غربت کا خاتمہ کیا جائے۔

hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61595 views i am columnist and write on national and international issues... View More