زبان کیا ہے ؟ایک ذریعہ ہے باہم تکلم کا اور بولی
بھی۔کتاب ’’ہم اردو کیسے پڑھائیں ‘‘ کے مصنف معین الدین نے لکھا ’زبان کے
ذریعے انسان اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات کا اظہار کرتا ہے ، دوسروں کے
خیالات کو اخذ کرتا ہے ، اظہار و اخذ کایہ عمل علامتوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔
گویا زبان با معنی آوازوں اور ان کی علامتوں کا مجموعہ ہے جس کے توسط سے
انسان بول کر یا لکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور دوسروں کے خیالات
اخذ کرتا ہے ۔ اس اعتبار سے زبان کے دائرے میں تمام حروف اور تمام الفاظ یا
الفاظ کے مجموعے شامل ہیں‘۔فیروزُ اللغات فارسی اردو نے زبان کو’ بول چال
کا ذریعہ ‘ کہا ہے۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے رشید حسن خاں کی تصنیف’
اُردو کیسے لکھیں (صحیح املا) ‘ مکتبہ جامعہ نئی دھلی سے 1975 ء میں شائع
ہوئی جس میں اردو میں لکھنے کے قاعدوں کو تفصیل سے سمجھایا گیا ہے۔اسی کتاب
کو مصنف نے بعد میں توسیع دی اور یہ کتاب ’اُردو عبارت کیسے لکھیں‘کے عنوان
سے پاکستان سے بھی شائع ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اچھی عبارت وہ ہے جس میں
املا اور انشا کا کوئی عیب نہ ہو۔ جس طرح بولنے والے کولفظ کے معنی معلوم
ہونا چاہیے، اُسی طرح لکھنے والے کو لفظ کا املا معلوم ہونا چاہیے ۔ جس طرح
’قلم ‘ کی جگہ’ پنسل ‘ بولنا صحیح نہیں اُسی طرح ’قلم‘ کو ’کلم‘ لکھنا بھی
درست نہیں ‘۔ زبان یا لسانیات کی تعریف ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے
کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’لسانیات اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے زبان کی
ماہیت ،تشکیل و ارتقا ، زندگی اور موت کے متعلق آگاہی ہوتی ہے‘‘۔ مظہر حسین
گوندل کی پیش نظر کتاب ’کتاب القواعد‘ اردو زبان کی گرامر کی وضاحت کرتی ہے
۔ یہ تصنیف اردو قواعد، زبان دانی اور انشاء پردازی سیکھنے کے ھنر سہل
طریقے سے بیان کرتی ہے۔
کسی بھی زبان میں بولنے اور لکھنے کے اصول و قواعد مقرر ہیں۔ عام زندگی میں
ہم نہ تو بولنے میں اور نہ ہی لکھنے میں ان باتوں کا خیال کرتے ہیں۔ اس کی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم زبان کی گرامر سے واقف نہیں ہوتے۔ جو زبان گھر میں
بولی جارہی ہوتی ہے اسے اسی طرح بولتے ہیں، اگر لکھنے کی نوبت آگئی تو
لکھنے میں بھی زبان کے اصول و قواعد کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ زبان اپنے
قواعد کے بغیر ادھوری اور نامکمل تصور کی جاتی ہے ۔ قواعد کو اصول اور
قوانین کہا جاتا جو کسی بھی زبان کی خوبصورتی اور اس کے حسن کا باعث ہوتے
ہیں۔ زبان درست طریقے سے بولی اور لکھی جارہی ہے یا نہیں اس بات کو یہی
اصول وقواعد یقینی بناتے ہیں اور اس کی درستی کے ضامن ہوتے ہیں۔ زبان کے
انہیں قواعد کو جاننے اور سیکھنے کا عمل علم لسانیات کہلاتا ہے۔ زبان نعمتِ
خدا وندی ہے اور حضرت انسان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ اس کی قدر و منزلت لازم
ہے۔ویسے تو زبانیں اپنے ارتقائی عمل سے پروان چڑھی ہیں ، ان میں وقت کے
ساتھ تغیر و تبدیلی ، اضافہ و ترمیم ہوتی رہی ہے۔ اردو زبان کو تو لشکری
زبان کہا جاتا ہے ۔ زبان بولنے اور لکھنے میں عام لوگ غیر ارادی طور پر
توجہ نہیں دیتے، ایسانہیں کہ وہ جان بوجھ کر غلط الفاظ بولتے یا لکھتے ہیں
بلکہ لاعلمی کے باعث اور زبان کے قواعد و اصول سے واقفیت نہ ہونے کے باعث
وہ غلطی کرجاتے ہیں ۔ البتہ وہ لوگ جو پڑھے لکھے ہونے، یا لکھاریوں کی
فہرست میں شامل ہوں انہیں زبان کے اصول و قواعد سے وقف ہونا بہت ضروری ہے۔
اردو کے اکثر ماہرین اس موضوع پر لکھنے والوں کی توجہ درست املا اور درست
ادائیگی کی جانب دلاتے رہتے ہیں۔ انہیں میں سے بعض ماہرین ایسے بھی ہیں کہ
جنہوں نے اردو زبان کے قواعد و اصولوں کو تفصیل سے لکھا اور اسے کتابی صورت
میں لوگوں کے لیے پیش کیا ان میں سے ایک مظہر حسین گوندل بھی ہیں۔ جنہوں نے
’کتاب القواعد ‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کر کے لکھنے والوں کی رہنمائی کا
اہم فریضہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب اردو قواعد ، زُبان دَانِی اور انشاء
پردازی سیکھنے کے خواہشمند وں خصوصاً طالب علموں کے لیے ایک جامع کتاب ہے۔
یہ قومی نِصاب اور تعلیمی پالیسی کے مطابق خاص طور پر جامعت ششُم ،ہَفتُم و
ھَشتُم کے لیے مرتب کی گئی ہے جس میں ایلیمنٹری سطح کے نصاب میں شامل قواعد
سے متعلقہ مشقی سوالات کا حل بھی موجود ہے۔
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ملک میں اس کے عملی نفاذ کی تاریخ کا مطالعہ
بتاتا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے اردو کو سب سے پہلے 25فروری
1948ء کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔اس موقع پر پاکستان کے اولین
وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی
پاکستان کو یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ لیاقت علی خان کی یہ فکر سچ ثابت ہوئی
۔ اگراس وقت اردو زبان کو قومی و سرکاری زبان کے طور پر رائج کردیا جاتا تو
ہو سکتا ہے کہ پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی
قانون ساز اسمبلی کی قرار داد کے حق میں ہی بات کی تھی ۔ قائد اعظم نے
ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد منعقدہ 24مارچ 1948ء کو واضح طور پر
کہا تھا کہ’ صوبے میں سرکاری زبان کے طور پر جس زبان کا چاہیں انتخاب کریں
لیکن جہاں تک صوبوں کے درمیان خط و کتابت کا تعلق ہے وہ اردو میں ہوگی۔اردو
واحد زبان ہے جو پورے ملک میں بولی و سمجھی جاتی ہے ‘۔ ہم نے 1947ء سے
2015ء تک نہ تو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی قرار داد کو اہمیت دی،
لیاقت علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح کی باتوں پر عمل کیا اور نہ
پاکستان کا دستور1973 جسے بجا طور پر متفقہ دستور کی حیثیت حاصل ہے پر عمل
کیا۔ دستور پاکستان 1973کے آرٹیکل 251(1)میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی
قومی زبان اردو ہے اسے سرکاری اور دیگر استعمال کے انتظامات 15سالوں میں
کرلیے جائیں‘‘۔ 70سال گزرجانے کے بعد یہ کام پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب
جواد ایس خواجہ نے ایک عدالتی فیصلے میں انجام دیا ہے ۔ یہ قانونی پٹیشن
ایڈووکیٹ کوکب اقبال نے دائر کی تھی جو اردو زبان کی ترقی نفاذ سے متعلق
تھی ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ جس کے سربراہ سابق چیف جسٹس جوا د ایس
خواجہ تھے حکومت کو ہدایت جاری کیں کہ وہ آرٹیکل 252 میں دی گئیں اپنی
دستوری ذمہ داریاں پوری کرے‘ ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری حکومت اور
صوبائی حکومتیں صدق دل سے، ایمانداری سے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی
بنائیں ۔ سرخ فیتے کی ریشہ دوانیوں کو آڑے نہ آنے دیں۔ اس بات میں کوئی شک
و شبہ نہیں ہمارے ملک و قوم کے زیادہ مسائل اس وجہ سے ہیں کہ ہم70سال بیت
جانے کے باوجود اب تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ اردو زبان کے سرکاری طور پر
نفاذ اور عمل درآمد سے ہی ہم پاکستانی قوم بن کر ابھر سکتے ہیں۔
پیش نظر کتاب کا کلیدی موضوع تو اردو زبان کے قواعد ہیں لیکن اس تصنیف کو
اہم تفصیلات کا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ منیر احمد قمر
نے تحریر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ’کتاب القواعد اردو سے انتہائی محبت اور
فروغِ ادب کے جنون کا منہ بلتا ثبوت ہے۔ انتہائی آسان اور مفید ترین کتاب
القواعد ، اردو کے ہر سطح کے طالب علم کے لیے یکساں مفید ہے ۔ بلاشبہ کتاب
طویل اور مسلسل محنت کا ثمر ہے ۔ علم کی آبیاری کے لیے چشمہ کی حیثیت رکھتی
ہے ‘۔ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مصنف نے اردو قواعد کو
آسانی سے سمجھانے کے لیے قواعد کا جدول یا نقشہ مرتب کیا ہے جس کی مدد سے
قواعد اردو کو سمجھنا اور یاد رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ قواعد کی تشریح کے
علاوہ صَرف و نَحو کی الگ الگ وضاحت کی گئی ہے، حُروف تہجی کیا ہیں، لفظِ
موضوع کی اقسام یعنی کلمہ اس کی اقسام، جمع اور اسم جمع میں فرق، اسم عدد
کی اقسام و صورتیں، اسم نکرہ کی اقسام، مصدر کی اقسام، اسم مشتق اور اس کی
اقسام ، فعل کی اقسام، فعل مجہول سے فعل معروف میں تبدیل کیے گئے چند جملے،
فعل معروف سے فعل مجہول میں تبدیل کئے گئے چند جملے، اعراب کی وضاحت، واحد
جمع، متضاد الفاظ، تذکیر و تانیث، متشابہ الفاظ، ذو معنی الفاظ، سابقے اور
لاحقے، مترادف الفاظ، کلام مرکب، اقسام ، مرکب نام، جملہ اسمیہ کے اجزا،
فعلیہ کے اجزا، جملہ بالواسطہ ، رموز اوقاف ، علامات، درست بولنے اور لکھنے
کے اصول، ضرب المثل، تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، تلمیح، تجنیس، ردیف ، تحت
اللفظ، متلازم الفاظ کی تفصیل کے علاوہ اصفاف ادب یعنی شاعری و نثر، اشعار
کی تشریح کے طریقے، تلخیص،نادیدہ عبارت، خط، خط کے حصے ، درخواست اور اس کے
حصے، رسید اور اس کے حصے، مکالمہ اور اس کے حصے، تہواروں کی اہمیت،
ماحولیاتی آلودگی، کہانی اور اس کے حصے، خاکے کی مدد سے کہانی لکھنا،روداد
لکھنا، مضمون اور اس کے حصے شامل ہیں اس کے علاوہ علم کی اہمیت اور فوائد،
قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محمد علی جوہر، محترمہ فاطمہ جناح،
مثالی طالب علم، اسلامی وحدت ، اتحاد بین المسلمین، سائنس کے کرشمے، سائنسی
ایجادات، وقت کی پابندی ، وطن کی محبت، کمپیوٹر کی اہمیت اور فوائد، محنت
کی عظمت، قومی پرچم ، صحت اورصفائی، کھیلوں کی اہمیت، خدمت خلق، موبائل فون
کے فوائد اور نقصانات، ورزش کی اہمیت اور فوائدموضوعات پر مختصر مضامین بھی
کتاب کا حصہ ہیں۔ کتاب کے مصنف حکومت پنجاب کی جانب سے بہترین معلم کا
ایوارڈ یافتہ ہیں۔ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے، آسان اورعام فہم
زبان میں مشکل باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اردو سیکھنے والوں کے لیے، اردو
قواعد سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے عمدہ تصنیف ہے۔ میں کتاب کے مصنف سے تو
واقف نہیں،یہ کتاب مجھے محمد کامران خالد صاحب نے بھیجی ، اس خواہش کے ساتھ
کہ میں اس پر اظہار خیال کروں۔کامران خالد صاحب سے میرے تعلق کی بنیاد میری
جنم بھومی پنجاب کا شہر ’’میلسی‘‘ ضلع وہاڑی ہے وہ برانا میلسی کے گورنمنٹ
ایلیمنٹری اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ فیس بک ان سے تعلق کی وجہ بنی،کامران
خالد صاحب کی محبت ہے ۔ کئی بار انہوں نے یاد دہانی بھی کرائی ، پھر بھی
لکھنے میں کچھ وقت لگ گیا، معزرت خواہ ہوں۔ مصنف مظہر حسین گوندل اور
کامران خالد صاحب کے لیے نیک خواہشات۔ |