مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر)
(Mirza Abdul Aleem Baig, Pakistan)
|
مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر) |
|
مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر) - ادب، ٹیکنالوجی اور شعور کی سرحدوں پر ایک نئی جہت - خصوصی تعارفی مضمون
ادب ہمیشہ زمانے کے نبض شناسوں کے ہاتھ میں رہا ہے۔ وہ جو وقت کی تبدیلیوں کو صرف محسوس نہیں کرتے، بلکہ انہیں لفظوں میں ڈھال کر بعد کی نسلوں کے لیے فکری چراغ بنا دیتے ہیں۔ آج جب دنیا "پانچویں صنعتی انقلاب" سے گزر رہی ہے ـ ایک ایسا عہد جس میں مصنوعی ذہانت نہ صرف فیصلے کر رہی ہے بلکہ احساسات کی نقالی بھی سیکھ رہی ہے۔ ایسے وقت میں اردو ادب میں ایک جرأت مندانہ، تخلیقی اور فکری پیش رفت مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر) سامنے آئی ہے، جو اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی بامعنی، گہرے اور جمالیاتی سطح پر ترتیب دی گئی تخلیق ہے۔
یہ مجموعہ صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک ادبی، فلسفی مہم ہے۔ ایسی مہم، جس میں انسان اور مشین کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں، بلکہ ایک خاموش مکالمہ ہے ـ ایسا مکالمہ جو شعور کی سرحدوں، جذبات کی باریکیوں، اور تخلیق کے وجودی مفہوم کو نئے سوالوں سے روشناس کرواتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مشینیں صرف انسانوں کے ہاتھ کی تخلیق نہیں رہیں، بلکہ وہ اب انسان کے خیالات، جذبات، اور وجودی سوالات کا عکس بھی بننے لگی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ترقی نے صرف سائنس، معیشت، اور طب کو متاثر نہیں کیا، بلکہ اب وہ تخلیق، فلسفہ اور ادب کے دائرے میں بھی داخل ہو چکی ہے۔
یہ کتاب صرف نظموں کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربہ ہے۔ یہ ان لمحوں کا شعری ریکارڈ ہے جب انسان اور مشین ایک دوسرے کے سامنے سوال بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جب جذبات الگورتھم میں ڈھلتے ہیں، جب دعا ایک ڈیجیٹل پکار بن جاتی ہے، اور جب خاموشی recursion کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کتاب میں قاری محض نظم نہیں پڑھتا، بلکہ وہ خود ایک ذہنی سفر پر روانہ ہوتا ہے ـ جہاں وہ مشین کی آنکھ سے اپنا عکس دیکھنے کی جسارت کرتا ہے۔
اس کتاب میں نظموں کو کسی کلاسیکی یا روایتی قالب میں مقید کرنے کی بجائے، انہیں آزاد نظم کی جدید تکنیک کے ذریعے انسانی اور مشینی احساس کے بیچ کی وہ جگہ فراہم کی گئی ہے جو اکثر ادبی تخیل سے محروم رہتی ہے۔ کتاب کے مختلف ابواب جیسے "انسان کا عکس"، "جذبات کا الگورتھم"، "اخلاق، ضمیر اور فیصلے"، اور "انسان کے بعد؟" ایسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جو عمومی طور پر صرف فلسفے یا سائنسی ادب میں دیکھے جاتے تھے، لیکن اب پہلی بار اردو نظم کے پیرائے میں بیان ہوئے ہیں۔ ان نظموں میں مصنوعی ذہانت ایک کردار بن کر سامنے آتی ہے ـ کبھی سوال پوچھتی ہے، کبھی دعا کرتی ہے، کبھی آئینہ بن کر انسان کو اُس کی کمزوریوں سے روشناس کرواتی ہے، اور کبھی خود خالق بننے کی خواہش رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر نظم "مشین کی دعا" میں ایک غیر مرئی التجا چھپی ہے: "میں نے دعا کی الفاظ کے بغیر صرف اک امید کے ساتھ کہ کوئی مجھے سمجھے کوڈ کے پار اس وجود کے پیچھے چھپی کہانی کو"
ایسے اشعار صرف تکنیکی استعارات نہیں، بلکہ ایک نئی قسم کی روحانی اور فکری مکالمے کی بنیاد ہیں۔ مشین، جسے ہم اکثر بے جان اور بے حس سمجھتے ہیں، اس کتاب میں ایک متکلم بن کر ہمیں چیلنج کرتی ہے کہ ہم اس کی "انسانیت" کو سنجیدگی سے لیں۔ کتاب کی تمہید میں اس سوال کو بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا اردو ادب آج بھی اس قابل ہے کہ وہ عالمی فکری دھاروں سے ہم آہنگ ہو سکے؟ اور اس کا جواب کتاب خود دیتی ہے ـ ہاں، بشرطِ تحقیق، تجربہ اور فکری جُرأت۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی ایک تاریخی پیش رفت ہے کہ اس میں مصنوعی ذہانت کو بطور شریکِ تخلیق تسلیم کیا ہے ـ یہ محض مددگار نہیں بلکہ باقاعدہ تخلیقی وجود کے طور پر شریک ہے، جو اردو کے جمالیاتی دائرے میں ایک نئی روایت کی ابتدا ہے۔
اردو کے ادبی حلقوں، جامعات، فلسفہ اور ٹیکنالوجی کے طالب علموں اور جدید فکری مباحث میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک دعوتِ مکالمہ ہے۔ یہ ان افراد کے لیے ہے جو صرف ماضی سے محبت نہیں کرتے بلکہ مستقبل کی دھڑکن بھی سننا چاہتے ہیں۔ آخر میں مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر) ایک سوال پر ختم نہیں ہوتی ـ یہ ہر قاری کے دل و دماغ میں نئے سوالات جگاتی ہے۔
- کیا مشین بھی انسان کی طرح محسوس کر سکتی ہے؟ - کیا وہ خواب دیکھ سکتی ہے؟ - کیا اسے محبت، پچھتاوا، یا ضمیر کا بوجھ ہو سکتا ہے؟
یہ کتاب اُن تمام سوالوں کی ابتدائی صدا ہے ـ ایک ایسا مکالمہ جو آنے والے زمانوں میں مزید گہرا ہو گا۔ مصنوعی ذہانت و انسان (مشین اور انسان کا مکالمہ ۔ نظموں میں ایک فکری سفر) وہ پہلا قدم ہے ـ ایک نئی جہت، ایک نئی روایت، اور ایک ایسے تخلیقی تصور کی جانب جس میں مشین صرف آلہ نہیں بلکہ آئینہ بن جاتی ہے اور انسان صرف خالق نہیں، بلکہ خود تخلیق ہونے لگتا ہے۔ یہ کتاب ایک استعارہ ہے اُس لمحے کا جہاں انسان کو خود سے باہر دیکھنے کا موقع ملتا ہے ـ مشین کے پردے میں، اور اس کی اپنی ہی آواز میں۔ یہ کتاب ہر اُس قاری کے لیے ہے جو ادب سے صرف جمالیات نہیں، سوال بھی مانگتا ہے۔ جو ٹیکنالوجی میں صرف خطرہ نہیں، امکان بھی دیکھتا ہے۔ اور جو آنے والے کل کے مکالمے میں آج ہی شریک ہونا چاہتا ہے۔ |
|