ریاست سوات دور کے فیصلوں کا مکمل ریکارڈ "رواج نامہ" کی دوبارہ اشاعت

سابق ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کی سوات کے عوام کی ساتھ محبت کا عظیم کارنامہ

تین خوبصورت رنگوں کے ساتھ "رواج نامہ" کی نئی کاپیاں

”رواج نامہ سوات“
معاشرتی زندگی میں انصاف ہر دور اور معاشرے کی اہم ضرورت سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن اقوام و ادوار میں انصاف کے تقاضوںکو پوراکیا گیا تاریخ میں انہیں منفرد مقام حاصل رہا اور جنہوں نے ظلم وجبر کے ضابطے رائج کئے ان کو تاریخ کے اوراق میں کہیں بھی کوئی مقام حاصل نہ ہوسکا اور وہ گم ہو کر رہ گئے۔

”رواج نامہ سوات“ کا نام سنتے ہی سوات کی لوگوں کے سامنے ریاستی دور کے انصاف پر مبنی اس وقت کے حکمران میاں گل عبدالودود المعروف ”بادشاہ صاحب“ اور اس کے ولی عہد والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کے وہ عدالتی فیصلے یادآجاتے ہیں جو انصاف پر مبنی ہونے کی بناءپر آج کسی کو انصاف نہ ملنے پر حسرت سے یا د کئے جاتے ہیں کیونکہ اس وقت کسی بھی سنگین معاملہ کا فیصلہ بھی دنوں میں کیا جاتا تھا، انصاف کا عالم یہ تھا کہ ان فیصلوں پر آج تک کسی کو ہزار کوششوں کے باﺅجود بھی انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکا‘ حتیٰ کہ اسے ایک باقاعد ہ دستاویز کی صورت آئندہ نسلوں کی اصلاح اور عبرت کیلئے کتابی صورت میں بھی محفوظ کیا گیا ، ریاست سوات کی حکومت پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد بھی ”رواج نامہ“ کی اہمیت کم نہ ہوسکی اور عدالتی نظام میں اب بھی اس کی بعض شقوں سے استفادہ کیا جاتا ہے ، موجودہ نظام میں عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی بناءپر اب بھی گاہے بہ گاہے سوات کے لوگ اس ریاستی دور کے فیصلوں اور نظام عدل کے نفاذ کیلئے حکومت سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں جس میں نفاذ شریعت محمدی کی تحریک بہت سوں کو یاد ہوگی۔

”رواج نامہ “ کی اس دستاویز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست کے ادغام کے بعد بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیااس حوالے سے ریاست سوات کے معاملات کو دستاویز ی صورت محفوظ کرنے والے کاتب فیضان کے نواسے ظہور کا کہنا ہے کہ رواج نامہ کو دوبارہ مرتب کرنے پر ان کے دادا فضل الرحمان ال معروف فیضان سوات کو1973 میں نہ صرف صدارتی ایوار ڈ سے نوازا گیا تھابلکہ اس دستاویز کو تین بارکتابی صورت شائع کرکے لوگوں کی معلومات کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔

بعد میں کافی عرصہ تک متروک رہنے والے اس اس رواج نامہ کو سوا ت میں تعینات ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے ذاتی دل چسپی لیتے ہوئے ایک بار پھر کونوں کدروں سے نکال کر نئے اور خوبصورت انداز میں شائع کرکے سوات کی عوام سے اپنی محبت کا جو حق ادا کردیا ہے اس کی مثال نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ شائد آگے کسی کو اس کی توفیق نصیب ہوسکے گی،اسی بناءپر ہم آج اپنے قارئین کو اس حوالے سے اس رپورٹ میں اس اہم کاﺅش کی تفصیلات اور رواج نامہ کی دوبارہ تین مختلف ہلکے نیلے، سرخ اور پیلے رنگوں میں خوبصورت انداز میں طباعت کے ساتھ ساتھ تاریخ سوات سے منسلک تین دیگر اہم کتابوںPolitical Leadership among Swat Pathans, Studies, and Features of person and society in swat volume II کی ری پرنٹنگ اور ڈی سی سوات جنید خان کی اس عظیم کاﺅش کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

سوات جو قدرتی حسن سے مالا مال قدیم ترین انسانی تہذیب کا ایک اہم مرکز رہا ہے اور اب بھی اس کی اہمیت کم نہیں ،اس خطہ زمین نے مختلف انسانی ادوار میں طاقتور ترین بادشاہوں کو حملہ آوروں کی صورت میں دیکھا ہے، سکندر اعظم یونانی 326 قبلِ مسیح میں سوات پر حملہ آور ہوا تو سلطان محمود غزنوی بھی 11 ویں صدی کے آغاز میں سوات پر حملہ آور ہوئے، اس کے بعد مغل حکمران بابر بھی سوات پر حملہ کرنے آئے اور یوسف زئی قبیلہ بھی سوات فتح کرنے کے نتیجے میں اس علاقے میں وارد ہوا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔قابل امر بات یہ ہے کہ اگر چہ سوات نے ہر دور میں بادشاہوں کو دیکھا ہے جس میں انصاف اور ناانصافی کے قصے بھی عام رہے ہوں گے لیکن 1917ءمیں میاں گل عبدالودود ا لمعروف ”بادشاہ صاحب“ نے سوات میں جدید طرز حکومت کی بنیاد رکھی، 1926ءمیں انگریز حکومت نے سوات میں بادشاہ صاحب کی حکومت کو تسلیم کیا جنہوں نے عرصہ تک اس علاقے میں بہترین حکمرانی کی وہ مثال قائم کی جسے اب بھی لوگ حسرت سے یاد کرتے ہیں کہ کیا انصاف پر مبنی معاشرہ تھا جس میں کسی طاقتور کو کسی کمزور پر اپنا حکم چلانے کی طاقت نہیں تھی اور نہ کسی کمزور کو کسی سے ڈرنے یا حق تلفی کا ڈر تھا ، بادشاہ صاحب کے بعد ان کے جانشین میاں گل عبدالحق جہانزیب کو ولی عہد بنایاگیا،دسمبر 1949ءمیں والی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب نے جب سوات کا عنان اقتدار سنبھالا تو انہوں نے وقت کی نزاکت اور معاشی ضروریات کو سمجھتے ہوئے ریاست سوات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بنیاد رکھی اور ایسے اقدامات کئے جن کی بنیاد پر ایسا معاشرہ تشکیل پاگیا جس میں ہرکسی کو اپنا حق باالخصوص انصاف حاصل کرنا آسانی کے ساتھ دستیاب ہوتا رہا ، حتیٰ کہ قتل مقاتلے کے فیصلے بھی دنوں میں حل کرکے متاثرہ افراد کی ایسی داد رسی کی جاتی کہ وہ اپنا غم بھول جاتے اور انصاف کی فراہمی کا یہ سلسلہ ریاست کے ادغام تک جاری تھا جو بعد میں ایک خواب کے مانند رہا۔

اگست 1969 میں جب جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میںریاست سوات، دیر، اور چترال کی ریاستوں کو پاکستان میں مدغم کرنے کا فیصلہ ہوا اور انہیں ضلع جات کی حیثیت دے دی گئی تب بھی سوات کی لوگوںکو اپنے ماضی کے بہترین اقدامات کی بدولت انفرادیت حاصل رہی۔”رواج نامہ سوات“ کے حوالے مختصر الفاظ میں احاطہ کرنا ممکن نہیں تاہم آسان لفظوں میںیوں کہا جاسکتا ہے کہ” رواج نامہ سوات“جدید ریاست سوات“ کی تاریخ ہے،یہ والی سوات کے دور حکمرانی میں صادر کئے جانے والے جملہ احکامات، ہدایات، فیصلے اور حاکم اور مشیروں کے جملہ اقدامات کی ایک دستاویز ہے، اس یادگاری دستاویز کو مختلف ادوار میں سوات میں تعینات سرکاری افسران بالخصوص 1973 دور میں سوات میں تعینات رہنے والے اس وقت کے کمشنر ملاکنڈ شیخ جمیل احمد، ڈپٹی کمشنر محمد عثمان خان، ہاشمی، غلام حبیب خان اور سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس اور سوات کے مایہ ناز ادیب، شاعر و خطاط فضل رحمان نے ان تھک محنت ، کوشش اور کئی سالوں کی عرق ریزی کے بعددستاویزی شکل دی۔

اب تک مختلف ادوار میں” رواج نامہ “ کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ہیں جن کا معیار اس کے شایان شان نہ تھا اور نہ کسی نہ اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس رواج نامہ کی دستاویز کو آنے والی نسلوںکیلئے بہترین انداز میں محفوظ کرنے کی سعی کی تھی اور حال یہ ہے کہ نئی نسل میں جو لوگ اپنے بزرگوں سے ریاست سوات کے حکمرانوں کے مبنی برانصاف فیصلوںکی قصے‘ کہانیوں کی صورت سنتے تو ان کی دلوں میں ایک حسرت اُٹھتی کہ کاش ان فیصلوں کی کوئی مستند دستاویز ان کو دسیتاب ہوجائے ،سوشل میڈیا پر اکثر بعض بزرگوں کے پاس محفوظ ان فیصلوں کی نقل اگر کوئی پوسٹ کی صورت شیئر کرتا تو ہم جیسے لکھاری بھی اس کی جستجو کی حسرت کرتے کہ کسی صورت ان تمام فیصلوں کا ریکارڈ ہمیں مل جاتا جو کسی صورت ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

” رواج نامہ“ جو اب تقریباً باپید تھا لیکن اس کی دوبارہ خوبصورت انداز میں اشاعت سوات میں تعینات سابق ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کا وہ کارنامہ ہے جسے سوات کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس حوالے سے جنید خان کا کہنا ہے کہ کافی تگ ودو کے بعد اس کا حصول ممکن ہوسکا او ر اسے پڑھنے کے بعد جب اس میں ریاستی دور میں کئے گئے بہترین معاشرتی زندگی پر مشتمل اہم فیصلوں سے آگاہی حاصل ہوئی تو ہم نے اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا کہ اس اہم دستاویز” رواج نامہ سوات“ کو دوبارہ شائع کیا جائے تاکہ نئی نسل بالخصوص سرکاری مشینری” والی سوات“ دور کی اعلیٰ فیصلہ سازی اور دوراندیش حکمت عملی سے فیض یاب ہو کر ہر محکمے میں سرکاری خدمات کی انصاف کے ساتھ دستیابی کو ممکن بناسکیں۔دستاویز کی دوبارہ طباعت شاندار ہے کتاب کے ہرصفحہ کے حاشیے بہت خوبصورت بنائے گئے ہیں جس میں سوات کے مختلف ادوار کے گندھارا آرٹ، مغل آرٹ اور بعد از گندھارا آرٹ میں بنائے جانے والے در وازوں، محرابوں اور فرنیچر وغیرہ پر کی گئی کندہ کاری کا باریک کام خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے نیز کتاب کی چھپائی انتہائی خوبصور ت اور اعلیٰ معیار کے کاغذ پر کی گئی ہے اور ساتھ میں کتاب کو محفوظ رکھنے کیلئے خوبصورت اضافی کور نے اس کی نکھار میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

راقم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈی سی جنید خان نے انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میری یہ چھوٹی سے کوشش یعنی رواج نامہ کی دوبارہ طباعت کا یہ نیا ایڈیشن اس مقصد کی حصول میں کارگر ثابت ہوتا ہے تو میرے نزدیک یہ سوات کے لوگوں کی خدمت کا کامیاب اقدام قرار پائے گی۔رواج نامہ کی دوبارہ اشاعت اور اسے نئی نسل تک منتقل کرنے کی کوشش کی حوالے ریاست سوات دور کے مختلف محکموں میں خدمات انجام دینے والے معدودے چند لوگ اب بھی حیات ہیں اور وہ سابق ڈی سی سوات جنید خان کی اس کوشش پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے نئی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی حاصل ہوگی اوریقینا اس کاوش نے سابق ریاست سوات کے علاقوں بونیر ، شانگلہ اور کوہستان کے رہنے والوں میں جنید خان کے مقام کو امر کر لیا ہے،تاریخ سے عبارت ان کی یہ کاﺅش تاریخ سوات میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 62 Articles with 49334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.