جہد مسلسل: عزم و حوصلے کی داستان

حسیب اعجاز عاشرؔ
عنیزہ غزالی بصارت سے محروم ہونے کے باوجود اپنے ناول”جہد مسلسل“ میں ایسی منظر کشی کی ہے کہ قاری کو ہر منظر میں بصیرت سے بھرپور گہرائی اور حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی تحریر ایک ایسا جادو بکھیرتی ہے کہ ہر لفظ، ہر جملہ قاری کو جیسے کسی منظر کے بیچ میں لے جاتا ہے۔ وہ بصارت کی کمی کے باوجود دل کی آنکھ سے دنیا کے ہر منظر،ہرمعاشرتی حقیقتوں کو نہایت خوبصورتی اور وضاحت سے بیان کیا ہے، نہ صرف مکانی منظر، بلکہ کرداروں کی روحانیت،ان کے چہرے کے تاثرات اور لب و لہجہ بھی کمال مہارت سے بیان کیے گئے ہیں جو قاری کو ایک مکمل بصری تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ہر جذبہ، ہر مکالمہ، اور ہر لمحہ اس شدت سے اُبھرتا ہے کہ تخیل اور حقیقت کے درمیان کی دیوار مدھم پڑنے لگتی ہے۔ ”جہد ِ مسلسل“ وہ فنی کمال ہے جو ناول کو محض کہانی نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ بنا دیتا ہے۔بلاشبہ یہ عنیزہ غزالی کی قلمی ہنرمندی ہے کہ وہ اپنے ذہن کی گہرائیوں سے ایسے جزئیات کو نکال کر پیش کرتی ہیں جو نہ صرف اِس کہانی کو جاندار بنارہی ہے جو قاری کے دل و دماغ پر بھی دیرپا اثر ضرور چھوڑے گی۔عنیزہ غزالی کا قلم اس بات کا غماز ہے کہ جب انسان کا دل روشن ہو، تو وہ آنکھوں سے زیادہ صاف اور واضح دیکھ سکتا ہے۔یہی جذبہ تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار کا ذریعہ ہے جو اِس ناول میں خوب عیاں ہے
ناول نگار عنیزہ غزالی کا تعلق چونکہ بلوچستان سے ہے، اس لیے ان کے ناول میں بلوچی تہذیب کا رنگ اور روایات کی خوشبو اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ بلوچی معاشرت،چاہے وہ وہاں کے لوگوں کی اخلاقی قدریں ہوں یا ان کے عادات و اطوار، ان کا ہر وصف تحریروں میں حقیقت کی طرح جھلکتا ہے۔ ناول میں نہ صرف بلوچی زبان کی مٹھاس اور مخصوص محاورات کو جس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے اِس سے خطے کی جمالیاتی اور فکری سرحدوں کو نئے زاویے اُبھر کر سامنے آ تے ہیں
ؔ”جہدِ مسلسل' اسلامی گھرانوں کی محنت، عزم، اور ایمان کی طاقت کو اجاگرکرتا ناول ہے جس کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ زندگی میں مشکلات، چاہے وہ مالی ہوں یا ذاتی، انسان کو ہرگز مایوس نہیں ہونا۔ اگر ایک شخص اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھے، تو اس کے راستے میں آنے والی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور کامیابی صرف ایمان کی طاقت، ثابت قدمی اور استقامت میں ہے۔عنیزہ نے عورتوں کی زندگی کے ایک نہایت اہم مگر عموماً نظر انداز کیے جانے والے پہلو”سی سیکشن“کے درد، خاموشی، قربانی، نسوانی المیہ پر روایتی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اِس حساس موضوع کو غیر معمولی جُرات سے قلمبند کیا ہے۔جو نہ صرف جسمانی درد کو محسوس کرواتا ہے بلکہ معاشرتی رویّوں، خاموش تکالیف، اور ماں بننے کے عمل میں عورت کو درپیش نفسیاتی دباؤ کی بھی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔اِسی قرب و تکلیف میں گزری ایک خاتون بارے کچھ یوں لکھتی ہیں کہ ”ساری دنیا ختم ہوگئی اورصرف ایک چیز باقی رہ گئی، اس عورت کا آخری چہرہ۔ وہ خوف، غم، ناکامی اور پتا نہیں کس کس جذبے کے ساتھ روئے گئی، اپنی زندگی میں یوں اپنے سامنے اس نے پہلے کسی کو مرتے نہیں دیکھا تھا، آج دیکھا تو جیسے زندہ ہونے کا احساس ہی اس کے اندر سے دم توڑنے لگا۔یہ چند فقرے آپ کو ”جہدِ مسلسل“پڑھنے کا تجسس ضرور پیدا کریں گے۔
ناول میں کسی معروف یا غیر معروف ناول نگار یا قلم کار کا تبصرہ شامل نہیں کیا گیا،یہی امر اس بات کی عکاس ہے کہ عنیزہ کو اپنے لکھے پر نہ صرف اعتماد ہے بلکہ کامل یقین بھی۔”جہد مسلسل“ میں خود لکھتی ہیں کہ ”کیا شے ہے یہ اعتماد۔ بلند ہے توآپ بھی بلند ہیں۔یہ پست ہے تو آپ بھی پستی کے دہانے پر ہیں۔“۔اس خاموش خود اعتمادی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنیزہ اپنی تحریر کی طاقت کو کسی بیرونی توثیق کی محتاج نہیں سمجھتیں۔ ان کا اسلوب، کردار نگاری اور بیانیہ خود اپنی سند آپ ہیں۔ یہ انداز اُن تخلیق کاروں کا ہوتا ہے جنہیں اپنی آواز کی سچائی پر بھروسہ ہوتا ہے۔جبکہ دوسری طرفعنیزہ غزالی نے اپنی کامیابی کو محض اپنی انفرادی جہد کا حاصل نہیں سمجھابلکہ اپنے قلمی سفر کے ہر سنگ میل کو ایک اجتماعی کامیابی کے طور پر دیکھتی ہیں جس کا قرار بھی کرتی ہی کہ ”زندگی میں کوئی جہد تنہا نہیں ہوتی“یہی وجہ ہے کہ صاحبِ کتاب نے ”پیش لفظ“ میں اپنے قلمی سفر میں معاونت کرنے والے قریبی احباب، استادوں، اور ہم خیال افراد کو عقیدت مندانہ خراج تحسین بھی پیش کیا ہے، نمایاں ناموں میں عائزہ معجزہ نعیم، ابرار موسیٰ، مس فضیلہ مراد، عائشہ، زرنین، ایم نعیم، انجینئر نور الزمان بلوچ، عرفان پبلشر شامل ہیں۔جو ان کی عاجزی اور شکرگزاری کی عکاس اور عمیق و محبت کا مظہر ہے۔اپنے اردگرد اپنی زندگی سے جڑے کردار ہوں یا پھر اپنی کہانی میں شامل کردار،کسی کو حقیر نہیں سمجھا کسی کو حقیر نہیں لکھا،سب کو پورے وقار کے ساتھ رکھا اور بیان کیا ہے ہے جیسا اپنی کہانی کے باب ”بے ضرر بیج“میں بیان کرتی ہیں کہ”کسی کو معمولی یا حقیر نہ سمجھو“کیونکہ ایک چھوٹا بیج بھی کل ایک تن آور درخت بن جاتاہے۔تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل”جہدِمسلسل“تیرہ باب ہیں پہلا باب”ازراہِ تعارف“،”سوال در سوال“،”تجربہ اول“،”سرگذشت الم“ ”، خاموش جنگ“،”پراعتماد“،”آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟“، ”محافظ“، ”میثاق“،”حقائق“،”زندان“اور ”بے ضرر بیج“شامل ہیں۔ہر باب ایک داستان ہے جس کا جملہ حکمت و بصیرت سے خالی نہیں۔عنیزہ پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ”یہ اہم نہیں کہ آپ کتنے سال جیئے، اہم یہ ہے کہ ان سالوں میں آپ کتنا جیئے، بے مقصد زندگی یوں ہے گویا انسان زندہ ہو کر بھی زندہ نہ ہو“۔مزید لکھتی ہیں کہ”یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو جب کسی نظم میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ سمجھوتہ کر کے پتھر ہو جاتے ہیں۔یہ ٹھوکریں کھا کر سنبھلنے والوں، گر گر اٹھنے والوں او رپرخارراستوں پر بنا رکے چلنے والوں کی کہانی ہے“۔چونکہ عنیزہ کو بڑی شدت سے اِس بات کا احساس ہے کہ اُنہیں سوچنے،محسوس کرنے،دل کی آنکھوں سے دیکھنے اور لکھنے کا حوصلہ اِن والدین کی بدولت ہی ہے، ”جہدِ مسلسل“اِنکی تربیت،دعاؤں اور قربانیوں کا حاصل ہے،یہی وجہ ہے کہ ناول کا انتساب اپنے والدین کے نام کیاہے۔
حقیقت پسند ہیں اپنی کہانی میں لکھتی ہیں کہ پہلی بار چلنا، پہلا لفظ بولنا، پہلی بار سکول جانا، کالج کا پہلا دن، جاب کا پہلا دن، عموماً پہلی بار کئے کام یاد رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پہلی کتاب، 'اخلاق نبوی ﷺ کے تناظر میں موجودہ معاشرہ'، بصارت سے محروم بچوں کے تعاون سے لکھی گئی جو بتانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ ”تجربہ اول“ ایک بہت اہم نقطہ پر توجہ مبذول کروائی رہی ہیں لکھتی ہیں کہ ”ہر انسان منفرد ہوتا ہے، اگر ہم کسی انسان کو دوسرے انسان میں ڈھونڈیں تو وقت ہی ضائع کریں گے، دو لوگوں میں کچھ عادات تو ایک جیسی ہوتی ہیں مگر کوئی دو لوگ مکمل طور پر ایک دوسرے کی کاپی نہیں ہوسکتے۔ ہر رشتے سے اس کے مطابق ہی ڈیل کرنا چاہیے، موازنہ اور مقابلہ صرف ہمیں لا حاصل تلاش میں لگا دیتا ہے“۔ عنیزہ، اپنی تخلیق کو ''کہانی'' کہنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتیں۔ ان کے بقول، یہ انتخاب شاید ناول اور کہانی کے مابین باریک فرق کے ادراک میں تذبذب کی علامت ہے، یا اس خدشے کا اظہار کہ ان کی تحریر ناول کے رسمی معیارات پر کس حد تک پوری اترتی ہے۔انہوں نے جان محمد دشتی کی کتاب ”دی بلوچ کلچرل ہیریٹیج“، مختلف کالم، آرٹیکلز، اور سی سیکشن جیسے طبّی موضوعات پر تحقیقی مواد کا مطالعہ کیا، اور منظرنگاری کا ہنر بھی مختلف کتب سے اخذ کیا۔ادبی ذوق کے باب میں انہوں نے عمیرہ احمد، نمرہ احمد، شوکت صدیقی، ٹالسٹائی اور منشی پریم چند کا ذکر کیا۔ وہ مقصدیت کو ادب کی روح قرار دیتی ہیں، اور سطحی یا بے ہدف تحریروں کو ادھورا چھوڑ دینا ان کا معمول ہے۔اس ساری تگ و دو میں سب سے قابلِ تحسین پہلو یہ ہے کہ عنیزہ بصارت سے محروم ہونے کے باوجود، ٹیکنالوجی کی مدد سے مواد پڑھتی اور تحقیق کرتی ہیں۔ اسکرین ریڈرز، او سی آر اور آڈیو کتب ان کے علمی سفر کے خاموش ساتھی ہیں۔تعلیم و تدریس کے میدان میں بھی عنیزہ نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ جامعہ کراچی سے گولڈ میڈل کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ سے بطور معلّمہ اور علمی رابطہ کار وابستہ ہیں۔آن لائن اخبار سے اپنی تحریری اشاعت کا آغاز کرنے والی عنیزہ کا سفر اب جہدِ مسلسل کے دوسرے حصے کی اشاعت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان کی تخلیق نہ صرف ان کی فکری ریاضت کا مظہر ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ سچی لگن اور استقامت تخلیق کو لازوال بنا سکتی ہے۔

Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 125 Articles with 146176 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More