ایم کیو ایم

 جس تبدیلی لانے کے لیے ہمارے ملک کے سیاست داں کئی کئی دن تک راستے بلاک کرکے شہر کی زندگی نہیں بل کہ پورے ملک کی زندگی مفلوج کر دیتے ہیں، جس تبدیلی کا نعرہ لگاتے لگاتے ان کے گلے خشک ہوجاتے ہیں، جو تبدیلی وہ ہمارے پاکستان کے سیاست دانوں کی نظر میں راتوں رات آجائے گی، انہیں اگر دیکھنا ہو کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں تو کراچی میں آکر ذرا حالات کا جائزہ لیں اور جانیں کہ تبدیلی اِسے کہتے ہیں جو رفتہ رفتہ آتی ہے۔ انقلاب کے بیج دلوں کی زمیں پر خود ہی اپنی جگہ بنالیتے ہیں اور یوں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اور کن حالات میں ان کی آبیاری ہوئی۔ ذہن، آنکھ اور دل کی گواہیاں اس بیج کو پنپنے میں مدد دیتی ہیں، یہی کچھ کراچی میں ہوا۔ آخر کراچی کی عوام نے اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کر ہی لیا جس کے مزید نتائج ابھی سامنے آئیں گے۔جی ہاں میں بات کررہی ہوں متحدہ قومی مومنٹ ایم کیوایم کی۔ایک وقت تھاکراچی میں ووٹوں اور نشستوں کی اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہونے والی سیاسی جماعت جو اَسّی کی دہائی سے کراچی کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہی ہے کے قائد اور کراچی میں بسنے والوں کی نوے فی صد پر مشتمل مہاجر آبادی جو مہذب اقدار اور تہذیب کے علم بردار ہیں کے ہر دل عزیز راہ نما کے لبوں کی ایک جنبش کراچی کو تہس نہس کردیتی تھی۔ ماضی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی رہی ہیں۔
لیکن اب صورت ِحال یکسر مختلف ہے۔ایم کیوایم پاکستان عملی طور پر دو گروپس میں بٹ چکی ہے، ایم کیوایم لندن کے لیے کوئی سیاسی سرگرمی کرنا اور الیکشن میں حصہ لینا ممکن ہی نہیں رہا، پاک سرزمین پارٹی ابھی تک خود کو ایم کیوایم کا متبادل ثابت نہیں کرسکی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میدان میں ہیں لیکن پی پی پی کا کراچی سے رویہ اور تحریک انصاف کی اب تک کراچی کے مسائل سے عدم دل چسپی دیکھتے ہوئے مشکل لگتا ہے کہ یہ جماعتیں عوام کو اپنی جانب راغب کرسکیں گی۔ رہی جماعت اسلامی تو ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کی کارکردگی صاف بتا رہی ہے کہ کراچی میں بھی اس کے لیے کراچی کے عوام کے دل موہ لینے کے امکانات بہت کم ہیں۔

کراچی کی لاڈلی جماعت آج مسائل سے دو چار ہے۔ایم کیوایم کے بہادرآباد ،پی آئی بی ،بی ایس پی اور لندن گروپ بن چکے ہیں اور یہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔نظریہ نہ ہونے اور صرف ایک شخصیت الطاف حسین کا سایہ بنے رہنے کے باعث ایم کیوایم اپنے مضبوط تنظیمی نیٹ ورک، عوام کی حمایت اور کارکنوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ایک مستحکم جماعت بننے کے بہ جائے ریت کا گھروندا بن کے رہ گئی۔ایک وقت تھا کہ سارا شہر بند ہوتا تھا لیکن متحدہ قومی موومنٹ کا ہیڈ آفس نائن زیرو کھلا ہوتا تھا۔کسی منتخب سیاسی جماعت پر یہ وقت آجانا خوشی کی بات نہیں، افسوس ناک ہے، لیکن عبرت کا مقام ہے۔ بہ ہر حال جو ہونا تھا ہوکر رہا، تو جناب اسے کہتے ہیں تبدیلی، جو عوام لاتے ہیں۔

اس جماعت کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کی وجہ سے اسے یہ نقصان پہنچا ہے کہ اس سے وابستہ لوگوں کی کثیر تعداد صرف ذاتی مفادات کے لیے جماعت سے جُڑی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر راہ نماؤں نے فاروق ستار کو محض اس لیے بہ طور سربراہ قبول کیا کہ ان سے بہتر چوائس نہیں تھی، حالات بہتر ہوتے ہی اور فاروق ستار کے آمرانہ طرز عمل کے باعث تنظیم میں اقتدار کی کشمکش دوبارہ شروع ہوگئی۔صورت حال یہ ہے کہ بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہ ہونا بتا رہا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے۔یہ ایک المیہ ہے، جو سیاسی جماعت کراچی اور سندھ کے لیے بہت کچھ کر سکتی تھی وہ فقط اپنے جذباتی رویوں کی وجہ سے عملی طور پر آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اگر ایسا ہی رہا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں کراچی کے ہر علاقے کی اپنی اپنی ایم کیوایم ہو گی اور پارٹی تشخص ختم ہو جائے گا۔دیکھنا یہ ہے ایم کیوایم میں انتشار سے اب کس کس کو فائدہ ہوگا ۔حالات جس ڈگر پر ہیں اس سے تو صاٖف ظاہر ہوتا ہے کہ اس انتشار سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی۔

قیادت ایک بہت ذمہ داری اور تدبر کا کام ہے، کسی راہ نما کی غلطی پوری جماعت اور اس قیادت کی راہ نمائی میں چلنے والوں کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں۔ اب یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دینے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ملک دشمن نعرے اور امن دشمن اقدامات کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

درحقیقت ہماری تقریبا ساری جماعتیں مفادات کے لیے یک جا ہونے والوں کے گروہ ہیں، جو کسی شخصیت کے گرد صرف اس لیے جمع ہوجاتے ہیں کہ وہ عوام میں مقبول ہے، ان جماعتوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، اس شخصیت کے ہٹتے ہی جماعتیں بحران کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اب کراچی کی نمایندہ جماعت کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو اپنے عمل کے ذریعہ غلط ثابت کرنا ہوگا اور عوام کے مسائل پر توجہ دیتے ہوئے خود کو حقیقی معنوں میں ملک کی وفاقی جماعت ثابت کرنا ہوگا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان میں مقیم قیادت کے پاس اپنی بقاء کو یقینی بنانے کا یہ آخری موقع ہے۔ وہ چاہے تو کراچی کی تقدیر کا رخ موڑتے ہوئے اپنی پارٹی کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔کراچی کی سیاست اب ایک نئے موڑ پر آگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی سیاست کراچی کو مستقبل میں عوام کی فلاح کی صورت میں کوئی تحفہ دے گی یا فقط چہرے بدلے جانے کی حقیقت آشکار ہوگی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جو پارٹی خود دھڑوں میں بٹ چکی ہو وہ عوام کی خدمت کیا کرے گی۔

کراچی کی یہ تبدیلی تمام سیاست دانوں کے لیے سبق ہیں کہ وہ عوام کو بھیڑ بکریاں نہ سمجھیں کہ وہ انھیں جب اور جس طرح چاہے استعمال کرلیں گے۔ یہ تبدیلی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے سبق ہے کہ حقیقی بدلاؤ عوام اور سیاسی جماعتوں میں اندر سے آتا ہے، باہر سے فیصلے اور قیادتیں مسلط کرنے کا عمل ناکام ثابت ہوتا ہے۔ اب ہر ایک کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ یہ عوام کے مسائل ہیں جنھوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے، اگر کراچی کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حل کیا جائے تو اس شہر میں تعصب اور نفرت کا کوئی نعرہ کبھی کام یاب نہیں ہوسکے گا۔
 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311908 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.