میرے دوست بٹ صا حب کہنے لگے ، یا رمیں گزشتہ رو ز ایک سر
کا ری دفتر میں ضروری کا م کے سلسلہ میں گیا اور جہاں مجھے ایک درخواست
دینی تھی جب میں نے درخواست اردو میں لکھنا شروع کی تو ایک صا حب جو میرے
پاس سے گزررہے تھے انھوں نے مجھے کہا کہ جناب آپ درخواست انگریزی میں دیں،
بڑے افسر اردو میں لکھی درخواستو ں پر کارروا ئی نہیں کرتے ۔ بٹ صاحب نے یہ
با ت جب مجھے سنا ئی تو میں ما یو سی کے ما رے کیا کر سکتا تھا ۔ کیو نکہ
پا کستان کے لیے ہر کس و ناکس نے اپنی بسا ط بھر قر با نی دی ۔ لیکن اس گھر
کو آبا د کر نے کے لیے جس طرح اردو نے اپنی سجی سجا ئی دنیا بر با د کر دی
ہے ۔ اس کی مثا ل تا ریخ پیش کر نے سے قا صر ہے ۔ انصا ف کا تقا ضا تو یہ
تھا کہ اس کی قر با نی کے صلے میں اسے حرز جاں کیا جاتا۔ اسے گلے کا ہار
بنا یا جا تا ۔ مجھے یہ بتا نے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اردو زبا ن کے ساتھ
کیا بر تا ؤ کیا جا رہا ہے ۔ وہ جس نے ٹو ٹے دلو ں کو جوڑا تھا اور خود
تفریق کا با عث بن گئی ۔ جو اپنی نزا کت اور اپنی دلبری کے لیے ممتاز تھی ۔
آ ج اس کے دلدادے اس سے بیزار ہیں ۔ بیوروکریسی میں گریڈ 17سے 22تک کے
افسرا ن انگریزی جا نتے ، سمجھتے او ر بو لتے ہیں ۔ انھیں لگتا ہے اردو کے
نام سے بھی نفرت ہو چکی ہے ۔ انگریزی ان کی زندگی میں رچ بس گئی ہے۔ بلکہ
انگریزی کلچر پروان چڑھ گیا ہے۔ اردو زبان کسمپرسی کے عالم میں ہر ایک رہ
گزر کا منہ تک رہی ہے ۔ اور بیوروکریسی میں بیٹھے پڑھے لکھے ’’با بو ؤ ں‘‘
کے پا س جب کو ئی اردو میں درخواست لے کر جا تا ہے ان کے چہروں پر حیرانی
کی کیفیت طا ری ہو جا تی ہے ۔
یہ میرے لیے حیرت کا مقا م ہے کہ جومقام اردو کی جنم بھو می ہو آ ج وہیں سے
اسے ’’نکالا‘‘ جا رہا ہے ۔ اگر ہندو ستان اردو کشی پر کمر بستہ ہے تو ہمیں
اس سے کو ئی گلہ نہیں ۔ لیکن پا کستان میں جس کا خود اپنا وجو د اردو کا مر
ہو ن منت ہے جب ہم اس زبا ن کے سا تھ ناروا سلو ک دیکھتے ہیں تو تھو ڑی دیر
کیلئے دم بخود ضرور ہو جا تے ہیں ۔ قو می زبا ن سے مرا د وہی زبا ن ہے جسے
ملک کا ہر بچہ ، ہر جوان ، اور ہر بو ڑھا سمجھتا ، جانتا ، اور بو لتا ہو ۔ملک
کے اہم ترین ادارے سپریم کو رٹ کے احکامات اردو کو ہر دفا تر میں را ئج کیا
جا ئے لیکن را ئج تو دور کی با ت درخواست تک وصول نہیں کی جا تی اگر کر لی
جا ئے تو کارروا ئی نہیں کی جا تی سپریم کورٹ کے احکا ما ت کو ہوا میں اڑا
دیا گیا ہے ۔
ہمارے خود غرض سیا ستدانوں نے زبا ن کی آ ڑ لے کر صو بوں کے درمیا ن نفرت و
حقا رت کے بیج بو نے میں کو ئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے انہو ں نے ملک کی وحدت
کو پا رہ پا رہ کرنے میں کو ئی دقیقہ فر و گذاشت نہ کیا ۔ ہم ان سے تو قع
کررہے ہیں کہ یہ اردو کو اس کا جا ئز حق دلو ا ئیں گے ۔ ہا ں وطن کے جاں
باز جوان ہی اس ڈو بتی کشتی کو پا ر لگا سکتے ہیں ۔ اردو کی جنگ نہ سندھی
سے ہے، نہ پنجا بی سے ، نہ پشتو سے ہے ، نہ بنگا لی سے ہے ۔ کوہ سلیما ن کی
بلند چو ٹیاں ہو ں یا پنجاب کا میدان، ہر مقام پر ہر جگہ پر اردو اور اردو
کے خیر خواہ مو جود ہیں ۔ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اردو ایک کم ما یہ زبا ن
ہے ، اس میں سا ئنس اور اصطلاحات کی کمی ہے، اگر یہ قو می زبا ن ہو گئی تو
ملک کی ترقی رک جا ئے گی ۔اگر چین کے لو گ اپنی زبا ن میں تر قی کر کے ایک
مہذب قو م بن سکتے ہیں ۔ اگر رو سی اپنی قو می زبا ن میں ترقی کرکے دنیا کے
اعلیٰ ترین قو م بن سکتے ہیں ۔ تو آ خر پا کستانی ایک اعلیٰ قو م کیو ں
نہیں بن سکتے ؟ ملک کی وحدت اردو اور انگریزی کے جھگڑوں سے پا رہ پا رہ
نہیں ہو تی بلکہ ان عناصر کے اعمال سے ہو تی ہے ۔ جنہوں نے پاکستان کو اپنی
دو لت بڑھا نے کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے ۔ اگر آ پ نے سا ری قو م پر کو ئی زبا
ن زبر دستی ٹھو نس دی تو اس کا وہی حشر ہو گا ۔ جو ہندو ستان میں سنسکرت،
یو رپ میں لیٹن ، اور چین میں انگریزی کا ہو ا ۔اگر ایسا رہا تو پھر پا
کستانی قوم اک دن اردو زبان کا دن منائے گی۔ کے ہماری بھی کو ئی زبا ن ہو
تی تھی ۔ جس طرح کچھ روز پہلے ما دری زبا ن کا دن پو ری دنیا میں منا یا
گیا اسی طرح ’’قو می زبا ن ‘‘ کی یا د میں ایک دن منا کر اس دن اردو بو ل
اور سن کر محذود ہو لیا کریں گے ۔ اور اردو کی یا د گار پر پھو لو ں کے
گلدستے چڑھا ئیں گے ۔ اور ہا ں اس دن کا آ غاز صو با ئی دارلحکو مت میں
21اور وفا قی دارلحکو مت میں 31تو پو ں کی سلا می سے ضرور ہو ا کرے گا ۔ |