پاکستان وہ واحد مملکت خداد ہے جس کے حصول کیلئے
لاکھوں جوان و بوڑھے اور خواتین و بچوں نے اپنی جانی و مالی قربانیاں پیش
کیں ہیں۔قیام کے بعد سے اب تک ملک پاک کو یہاں کے شہریوں اور قیادت نے مکمل
طور پر سنجیدہ نہیں لیا کہ لاکھوں افراد کی قربانیاں رائگاں جاتی نظر آئی
ہیں کہ اس میں نظریہ پاکستان و نظریہ اسلام کی پامالی ہوتی رہی اور اس کے
ساتھ ہی اخلاقی و مالی کرپشن کی بہتات نے بھی ملک کو مستحکم ہونے سے کوسوں
دور رکھا کہ کہیں سیاسی و مذہبی تنظیموں کی کھینچا تانی اور کہیں آمریت و
عدالتوں کی بیجا مداخلتوں نے ملک کی سیاسی و سماجی ترقی کی منازل طے نہیں
کرنے دیا گیا۔سرمایہ داروسردار طبقہ کمزور و متوسط طبقوں کے حقوق پر شب خون
مارنے میں چہار دانگ مصروف عمل ہے کہ ان کی دیدہ دلیریوں کے نتیجہ میں ملک
کے طول و عرض کے باشندے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ملک پاک کو موجودہ حالات میں بھی کرنا پڑرہاہے
یہی وجہ ہے کہ عدالت و اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں نے باہمی رسہ کشی کی
بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ ملک کے عام و خاص افراد اپنے ذاتی
ذمہ داریوں سے عہدبرآہونے کی بجائے ہر ایکی دوسرے ادارے اور افراد پر نکتہ
اعتراض اٹھانے اور عزت و عظمت کا جنازہ نکالنے میں مصروف عمل ہیں۔جس کا
بدیہی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک پاکستان استحکام کی بجائے انتشار و فساد کی
طرف منتقل ہوجائے گا۔ اسی کے ساتھ ہی ملک پاکستان کے خلاف عالم کفر کا
اتحاد ثلاثہ ہوچکا ہے کہ ملک پاک کو چہاراطراف سے گھیر کر غیر مستحکم کرنے
کی سعی ہورہی ہے ۔ امریکہ، انڈیا اور اسرائیل افغانستان و ایران کے راستوں
کو استعمال کرکے ملک کے خلاف داخلی و بیرونی سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔
اسلام جو کہ نظریہ پاکستان کی بنیاد بنا لازمی و ضروری ہے کہ ملک پاک کے
تمام معاشرتی طبقات اپنے امور دنیا کو بسر کرنے کیلئے اساسی طورپر رہنمائی
اسلامی تعلیمات سے حاصل کرنی چاہیے ۔ قرآن و سنت کے متعدد مقامات پر اتحاد
و اتفاق اور باہمی الفت و محبت کی ترغیب و دعوت دی گئی ہے ۔ وہیں پر غیبت،
چغل خوری، بدگمانی، جھوٹ ،افتراء بازی اور بہتان تراشی سے واضح الفاظ منع
کیا گیا ہے۔صد افسوس کے نسبت تو اسلام کی طرف کی جاتی ہے اورمگر تعلیمات
اسلام سے موئے انحراف کرکے ملت اسلامیہ کے شیرازہ کو بکھیرا جارہاہے۔یادرہے
کہ اول تو اسلام کسی شخص کی عیب جوئی و الزام تراشی سے منع کرتاہے تاہم اس
کے ساتھ ہی اس بات پر بھی زوردیتاہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی الزام عائد
کرتا ہے تو لازمی بات ہے کہ مدعی بارثبوت کا حامل ہواور اگر ثبوت پیش نہ
کرسکے تو اس پر حد قذف کا حکیم دیا گیا ہے۔
ہمارے یہاں عجب طوفان بدتمیزی ہے معمولی اختلافات کی بنیادپر سیاسی و
سماجی،مذہبی و قومی تنظیمیں اور ادارے منتشر و متفرق کردئیے جاتے ہیں اور
بہرصورت کوشش کی جاتی ہے کہ عوام الناس اور ملک تعمیر و ترقی کی منازل طے
نہ کرسکے۔ہر طاقتور فرد کمزور پر اپنی دھاگ بٹھانے میں مصروف ہیں۔ اسلامی
تعلیمات سے بین روگردانی کی جاتی ہے کہ اگر کوئی نزعی مسئلہ پیش آجاتاہے تو
تصفیہ و اصلاح کیلئے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے تاہم عدل و انصاف کا
ترازجھولنے نہ پائے۔موجودہ عدالت و سیاستدانوں کی رسہ کشی کا نقصان بدیہی
طورپر ملک و ملت پر نازل ہوگا اور دشمن ہمارے خلاف مضبوط و قوی تر ہوچکاہے
۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و سماجی ،عدالتی و بیورکریسی کے
حکام اختلافات و الزامات کی چھان بٹھک ضرورکریں مگر اس بات کو ملحوظ خاطر
رکھا جائے کہ ملک و ملت پر اس کے مضر اثرات اور بدترین سیاسی و سماجی بحران
کی کیفیت کے حل کیلئے بھی پیشگی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک و ملت تعمیر و
ترقی کی منازل طے کرسکے۔ |