(پروفیسر رشید احمد انگوی)
جذباتی بالکل نہ ہوں۔اﷲ کی دی ہوئی عقل استعمال کر کے ٹھنڈے دل سے غور
کیجئے کہ قومی معاملات بشمول سیاست میں اتنے بڑے اور واضح عدم توازن کو
کیسے سراہا جا سکتا ہے ۔ ملک میں پارلیمانی جمہوریت نافذ ہے۔ صوبائی
اسمبلیاں، قومی اسمبلی، سینیٹ ،سب موجود مگر یہ حقیقت خودبخود معلوم کہ
الیکشن جب کبھی بھی ہو،جو بھی پارٹیاں حصہ لیں مگر حکمرانی اُس کی ہو گی جو
پنجاب میں غلبہ رکھتا ہو گا ۔اس احساس سے چھوٹے صوبوں پر کیا گزرتی ہو گی۔
خدارا اس تلخ حقیقت پر انصاف ، سچائی اور جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہو کر
غور کیجئے اور ایمان و ضمیر کی عدالت سے فیصلہ حاصل کیجئے تو یقینا یہی
فیصلہ آئے گا کہ پنجاب کو اوسطاً دو دو کروڑ آبادی کے پانچ یا چھ صوبوں میں
انتظامی بنیادوں پر تقسیم کر کے ملک کو مستحکم بنا دیا جائے اور پنجاب کو
تقسیم کرنے کے بعد انصاف اور ضمیر کی روشنی میں برابری کی بنیاد پر تمام
صوبوں کے احوال پر غور وخوض کیا جائے ۔ ’’ مرسوں مرسوں نہ ڈیسوں‘‘ جیسے نا
معقول اور جذبات سے کھیلنے والے نعرے نہ لگائیے۔ ملک انصاف اور سچے جمہوری
کلچر سے ترقی کرتے ہیں ۔ خاندانی و مجاورانہ نیز جاگیر دارانہ سیاسی تسّلط
پاکستان کو جمہوریت سے محروم رکھنے کا راستہ ہے۔ کوئی پارٹی اس نعرے کی
محافظ بن جائے کہ اے لوگو تم نے ہمارے نشان پر اس لیے ٹھپہ لگانا ہے کہ
ہماری پارٹی کا بانی فلاں قبر میں لیٹا ہوا ہے۔ جی نہیں! جمہوریت کا تقاضا
ہے کہ آپ کو ’’پیش کر غافل عمل و کار کردگی کو ئی اگر دفتر میں ہے‘‘ کے
معیار پر معاشرے کو ڈھالنا ہو گا۔ ووٹر اپنا ووٹ قبر کے نام پر مجاوروں کے
قدموں پر نچھاور کرنے کی بجائے ووٹ کی قد رو قیمت کو پہچانے اور قبروں و
خاندانوں کو دیکھنے کی بجائے اپنے اور اپنی نسلوں کے مفاد نیز جمہوریت کی
روح اور تقاضوں کے مطابق ووٹ مانگنے والی پارٹیوں کے قول و فعل پر سوالات
کی بوچھاڑ کر کے جوابات حاصل کرے کہ میری اور آپ کی اولاد کے احوال اتنے
مختلف کیوں؟ اور پھر ایک جج بن کر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ صادر کرے۔ آج وہ لوگ
بھی ملک کی ستر سال کی تاریخ پر تبرے بھیج رہے ہیں جب سے امریت کے نمائندے
گورنر جیلانی نے انہیں اپنی سیاست میں داخل کیا تھا ۔اُن کے اندھے بہرے
اقتدار کی اصل وجہ عوام کی مجبوری و بے بسی اور صوبائی عدم توازن ہے۔ جب
پنجاب پر بھٹو حکمران تھا تو پورے ملک پر اُس کی حکمرانی تھی اور جب گورنر
جیلانی نے سیاست میں ’’خاندانِ شریفاں‘‘ کا ڈول ڈالا تو اُنیس سو اکاسی سے
آج تک قوم یہ’’ جیلانی سیاست بنام نون‘‘ بھگت رہی ہے۔ ملک کے سیاسی گونا
گوں مسائل کا بہترین حل حاجی سیف اﷲ خان نے اپنے دور میں یہ پیش کیا تھا کہ
ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی بنیاد پر صوبے کا درجہ دے دیا جائے ۔ ہمارا
موقف اصولاً وہی ہے مگر اس تدریج کے ساتھ کہ پہلے پنجاب کے پانچ صوبے اس
طرح وجود میں لائے جائیں جن میں سے ہر ایک کی آبادی کم و بیش دوکروڑ رہے۔
مثلاً صوبہ لاہور ، صوبہ ملتان، صوبہ بہاولپور، صوبہ راولپنڈی اور صوبہ
سرگودھا یا ان میں مناسب تبدیلی کر کے اصل معاملہ سامنے رہے کہ حالیہ بے
تکا عدم توازن بہر صورت ختم کر کے پانچ یا چھ متوازن صوبے بنائے جائیں اور
ہر ایک کا ایک مختصر حاکمانہ خاکہ ہو تاکہ عوام الناس کی واقعی حاکمیت
سامنے آئے اور یہ تاریخی اجارہ داریاں ختم کی جائیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ میگا
لیول کی آئینی تبدیلیوں کا مسئلہ ہے۔ ایسی نئی تبدیلیاں پیدا کرتے وقت’’
گورنر‘‘ جییے قوم پر محض بوجھ بننے والے عہدے ختم کر کے مختصر اور سادہ
صوبائی کابینہ کا ڈھانچہ عمل میں لایا جائے اور موجودہ سیاسی فرعونیت کے جو
مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں اُن کا نیز سیاست میں دوہری شہریت جیسی مصیبت کا
خاتمہ ہونا چاہیے ۔ یہ پابندی سیاسی اور نمائندہ عہدوں کے لیے ہو وگرنہ
عوام الناس تو دنیا بھر میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی بے پناہ خدمت
جاری رکھیں ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ دوہری شہریت اور بیرونی اکاؤنٹ جیسی
پابندیا ں تمام قومی مناصب کے لیے ضروری ہوں ضروری ہے کہ قوم ان پناموں
،سوئسوں ، سرے محلوں اور دبئی پلازوں جیسی تلخ و شرم ناک تاریخ سے سبق حاصل
کرے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ مشکل ترین حالات میں قوم کا وزیر خزانہ ملک
سے فرار ہو کر دیارِ مغرب میں پناہ ڈھونڈے پھرتا ہے ۔قومی سیاست میں بڑے
پیمانے پر اوور ہالنگ کی ضرورت ہے اور یہی وقت کی پکار ہے۔ ہے کوئی اس آواز
پر کان دھرنے والا !! |