نفاذ اردو میں اصل رکاوٹ؟

اردو پاکستان میں رابطے کی واحد زبان ہے، جو ملک کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1948 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اردو کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ 1973 کے دستور میں قومی زبان اردو کو پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان قرار دیتے ہوئے 15 سالوں کی مہلت دی گئی تھی تاکہ دفتری زبان میں ڈھالنے کے تیاری کی جائے۔ ہماری حکومتیں کمال مہارت سے ہر 15 سال بعد عدلیہ سے مزید مہلت لے لیتں تھیں ۔ 2003 میں محمد کوکباقبال ایڈووکیٹ نے اردو کو دفتری زبان کا درجہ دلوانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالتوں نے روائتی تساہل سے کام لیتے ہوئے بارہ سالوں تک تاریخوں اور بحثوں میں گزار دئیے اور بلااخر کیس چیف جسٹس عدالت عظمی جسٹس جواد ایس خواجہ کی عدالت میں لگا اور ستمبر2015 میں اردو کو پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان کا حتمی درجہ دے دیا گیا۔

اس فیصلے کی روشنی میں ملک کا تمام تر دفتری اور سرکاری نظام قومی زبان اردو میں چلایا جانا لازم ہے اور پاکستان کے نظام تعلیم مکمل طورپر اردو میں منتقل کرنے اور ساتھ ہی سی ایس ایس سمیت ملازمتوں کے لیے تمام امتحانات قومی زبان اردو میں لینے کا حکم دیا گیا۔ اس عدالتی حکم کے مطابق عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا سارا نظام قومی زبان اردو میں منتقل ہو جانا چاہیے تھا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کام کو لٹکانے میں ماہر تھے، انہوں نے عدالیہ عظمیٰ میں نفاذ اردو کے لیے ایک ادھورا سا لائحہ عمل پیش کیا جس کے مطابق وفاق کے زیر اہتمام تمام ادارے اپنی پالیسیاں تین ماہ میں اردو میں منتقل کردیں گے۔ یہ ادارے تین ماہ میں اپنے سارے قوانین اردو میں ترجمہ کردیں گے۔ عوامی اہمیت کی جگہوں عدالتوں، ہسپتالوں، پارکوں، تعلیمی اداروں کی راہنمائی کے بورڈ انگریزی سے ساتھ اردو میں آویزاں کیے جائیں گے۔ تمام سرکاری فارم اردو میں فراہم کیے جائیں گے، تمام سرکاری ادارے اپنی ویب سائٹ اردو میں پیش کریں گے۔ سرکاری تقریبات، استقبالیوں کی کاروائی اردو میں شروع کی جائے گی۔صدر مملکت اور وزیراعظم اندرون اور بیرون ملک دوروں، کانفرنسوں اور پبلک پروگرامات میں تقاریر اردو زبان میں کریں گے اور نفاذ اردو کے لیے مقتدرہ قومی زبان کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے نوازشریف نے اپنے دست راست جناب عرفان صدیقی کی سربراہی میں تین رکنی کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دی۔

حکومت کی جعلی یقین دہانیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کابینہ کمیٹی برائے نفاذ اردو کی ساری دفتری کاروائی اب تلک انگریزی میں چلائی جا رہی ہے اور نفاذ اردو کے بارے اس سے زیادہ اور کیا مذاق ہوسکتا ہے کہ نفاذ اردو بارے وزارتوں اور ڈویژنوں سے جائزہ رپورٹیں بھی انگریزی زبان میں ہی طلب کیا جاتی ہیں ۔ اردو کا راستہ روکنے میں پیش پیش پاکستانی برہمن " بیوروکریٹ" ہیں۔ جن کو عوام سے الگ صرف ان کی انگریزی زبان ہی کرتی ہے۔ وہ اردو بول اور لکھ کر "براہمن پہچان" سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ فیصلہ دیا کہ 2018 کے سی ایس ایس کے امتحان اردو میں لیے جائیں گے تو "براہمن مافیا "حرکت میں آگئی کہ نفاذ اردو سے ہم پتھر کے زمانے میں واپس چلے جائیں گے اور عالمی نظام سے منسلک نہیں رہ سکیں گے۔انہوں نے پھر عدلیہ کا سہارا لے کر معاملے کو عدالتی پراسیس (تاخیری حربے) میں ڈال دیا ۔

پاکستان میں وزیراعظم سے ڈپٹی کمشنر تک سارے اجلاس اردو میں ہوتے ہیں لیکن روداد(minutes of meeting) انگریزی میں جاری ہوتی ہے۔ سب جج سے لے کر عدالت عظمیٰ تک بحث اردو میں ہوتی ہے اور فیصلہ انگریزی میں جاری ہوتا ہے۔تمام یونیورسٹیوں میں پڑھائی اردو میں کی جاتی ہے اور امتحان انگریزی میں لیے جاتے ہیں، انجنیئرنگ اور میڈیکل تک کے لیکچر اردو میں ہی دئیے جاتے ہیں۔ بھارت جیسے ملک میں آئی سی ایس کے امتحان انگریزی سمیت 25 مقامی زبانوں میں دینے کی اجازت ہے، افغانستان میں انگریزی کے علاوہ پشتو اور فارسی میں سی ایس ایس کے امتحان دینے کی اجازت ہے۔

آج ناروے، سویڈن، ڈنمارک،آئس لینڈ،فرانس، جرمنی،اٹلی، چین، روس،ترکی، افغانی، ایرانی، اسرائیلی، عربی الغرض تمام عالمی ممالک کا اپنا دفتری اور تعلیمی ڈھانچہ مقامی زبانوں میں چلایا جا رہا ہے اور یہ سب لوگ عالمی منظر نامے میں پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔ پاکستان پر قابض "براہمن مافیا" نے سارا نظام مملکت اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی سیاسی قیادت کو انگریزی کی مار دے کر وہ پہلے ہی دن قوانین و ضوابط سے ڈرانے لگتے ہیں اور وہ بیچارہ ایک جاہل کی مانند نیب اور عدالتی گرفت سے بچنے کے لیے اس براہمن ذہنیت کی بیوروکریسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں۔

براہمن مافیا نے تین سال گزرنے کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اردو میں نصاب تعلیم رائج کرنے کی ہدایات نہیں دیں۔ سرکاری محکموں میں نوٹنگ، ڈرفٹنگ اور مراسلت اردو میں شروع کرنے کے بارے میں ایک لائن کی ہدایت بھی جاری نہیں کی گئی۔عدلیہ میں نفاذ اردو میں تساہل برتنے پر توہین عدالت کے کئی کیس زیر سماعت ہیں لیکن عدالت کی طرف سے بھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ سیاسی جماعتیں اور بدقسمتی سے مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اس کھلی سازش پر خاموش ہیں۔ جو دستور پاکستان کی دفعہ 152 کی کھلی خلاف ورزی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی توھین ہے۔

جس طرح پاکستان میں عوامی راج کو پروان نہیں چڑھنے دیا جارہا ہے ، اسی طرح دفتری نظام میں قومی زبان اردو کو داخل نہیں ہونے دیاجاتا ہے۔ جس طرح اسٹبلشمنٹ نے عوامی راج کو سیکورٹی کی بوری میں بند کررکھا ہے اسی طرح براہمن بیوروکریسی نے اردو کو"شودر "قرار دے کر سرکاری دفاتر میں اچھوتبنا رکھا ہے۔ ہماری بیوروکریسی انگریزی میں اتنی مہارت رکھتی ہے کہ تین لائن کامیمورنڈم (یاداشت) پانچ دنوں میں اور دس صفحات کے مینٹس (روداد) ایک ماہ میں تیار کرتی ہے، اس نے اردو کے نفاذ کو پچاس سالہ پراسیس میں ڈال رکھا ہے ۔ نہ انکار کرتی ہے اور نہ اقرار کرتی ہے۔

نفاذ اردو میں بیس کروڑ پاکستانیوں کے براہمن مافیا کے نجات اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا راز مضمر ہے۔ اصل رکاوٹ وزیراعظم پاکستان ہے، جس کے ایک سطر کے حکم سے ناممکن ، ممکن ہو جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک معمولی سرکلر "نظام صلواۃ" میں یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ جو سرکاری ملازم باجماعت نماز ادا کرے گا اس کا اندراج اے سی آر میں کیا جائے گا۔ اس ایک حکم نے ان تمام براہمنوں کو بغیر وضومساجد کی پہلی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ سرکاری مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ نفاذ اردو میں اصل رکاوٹ وزیراعظم ہے، باقی سب شودر دم ہلانے کے لیے ہیں۔ جس دن وزیراعظم ہاوس سے ایک لائن کا حکم جاری ہوا کہ آج سے پاکستان کا دفتری نظام اردو میں چلایا جائے گا تو یہ براہمن اقبال اور اشفاق احمد سے اچھی اردو لکھنا شروع کر دیں گے۔ عوام کو حقیقی رکاوٹ کا علم ہونا ضروری ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین اور وفاقی کابینہ کے اراکین اصل مجرم ہیں۔ جنہوں نے اس قومی مسئلہ پر کوئی ایک قرارداد، کوئی نکتہ اعتراض اور کوئی تحریک تک پیش نہیں کی۔ عوامی کی ترجمانی کے علمبردار سیاستدان اور ممبران پارلیمنٹ اپنے سرخیل وزیراعظم پاکستان کے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ جرم محض عدم اطاعت دستور نہیں بلکہ دستور کی دفعہ 152 کی کھلی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین کا کھلا ارتکاب ہے۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117177 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More