ہم غلام بن چکے ہیں

اسے بدقسمتی کہیے، تاریخ کی ستم ظریفی یا پھر جوشیلے نعرے لگوانے والے سیاسی لیڈروں کی ”کرامت“ کہ ہم من حیث القوم ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی واقع ہوئے ہیں، معاملہ قومی نوعیت کا ہو یا پھر ذاتی ضرورت کا، جوش میں آکر ہوش سے عاری ہونا ہماری فطرت بن چکا ہے، یہ قومی کمزوری اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ ہم جذبات کی رو میں بہتے ہوئے حقائق تک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور دماغ کے بجائے صرف اور صرف دل ہی کی سننے پر اکتفا کر کے ہر بار کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ قسمت میں ہوا تو حالت خود ہی سنور جائے گی لیکن! پچھلے تریسٹھ سالوں میں ایسا ہوا اور اس طرز عمل کو دیکھتے ہوئے نہ ہی آنے والے وقت میں ایسا کچھ ممکن دکھائی دیتا ہے لیکن ہم ہیں کہ بلا سوچے سمجھے اور حقیقت کا ادراک کئے اپنی امیدوں اور خواہشات کو شیطان کی آنت کی طرح طویل کئے جارہے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے حالیہ دورہ بھارت ہی کو لیجئے، یہ پہلے ہی سے طے تھا کہ موصوف پاکستان کو شرف میزبانی نہیں بخشیں گے، اس کے باوجود ”شاہی سواری“ کی متوقع آمد کا وہ شور مچا کہ الحفیظ ، الامان۔ جیسے جیسے توقع مدہم ہوتی گئی، شور بھی دبتا گیا اور وہی ”خیر خواہ“ جو انکل سام کی راہ تک رہے تھے اپنا سا منہ لیکر تنقید کی تمام حدوں کو پھلانگ کر امریکہ پر بھارت کی طرفداری کا الزام لگانے لگے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اوبامہ کی طرف سے ممبئی حملوں اور ”مسلمانوں نے مذہبی بنیادوں پر دنیا کی تقسیم کی سازش ناکام بنا دی“ کا ہلا شیری نما بیان سامنے آیا تو پھر سے ”امریکہ زندہ باد “ کی آواز سنائی دینے لگی جو ہنوز جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پڑوسی ملک اور پاکستان کے ساتھ یکساں امریکی سلوک نہ کیے جانے پر بہت سے سوالات بھی موجودہ ہیں لیکن ہم یہاں بھی فرق کو سمجھنے کے لئے حقائق کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے قیام کے بعد سے بھارت کی نسبت امریکہ کے لئے زیادہ قربانیاں ہم نے ہی دی ہیں، خصوصاً پچھلے کوئی دس گیارہ برسوں میں خطے میں امریکی مفاد کیلئے لڑی جانے والی دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں تو ہمارا ”منصب“فرنٹ لائن اتحادی“ کا ہے لیکن تمام تر قربانیوں اور وفاداریوں کے باوجود ہمیں وہ صلہ نہیں ملا جس کی ہم توقع لگائے بیٹھے تھے۔ اور تو اور ہر گزرے دن کے ساتھ واشنگٹن کے مطالبات میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا جس طرح آج کل ملک میں مہنگائی۔ امریکی مفادات کے محافظ ہم بنے رہے لیکن فوائد بھارت کو ملتے رہے اور وہ بھی اس طرح کے ہمیں جلانے کے لئے۔ سلسلہ صرف اوبامہ یا ان کے ایک دو پیش روﺅں ہی پر موقوف نہیں بلکہ تاریخ کی ورق گردانی یہ ثابت کرتی ہے کہ روز اول ہی سے امریکہ ہمارے لئے ”کھان پین نوں باندری، تے ڈنڈے کھان نوں ریچھ“ کے مقولے پر عمل پیرا ہمیشہ ہی دہلی کو نوازتا رہا۔ امداد نہ صرف مادی حد تک رہی بلکہ اخلاقی اور کسی حد تک سازشی بھی رہی۔ آج بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگار امریکی صدر کی بھارت یاترا، وہاں کئے جانے والے دس ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے، ان کے ثمرات اور پاکستان کو نظر انداز کئے جانے کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں کے تجزیوں میں جذبات کا عنصر کچھ زیادہ ہی غالب ہے اور ہم پھر وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو شروع سے کرتے آئے ہیں۔

پاک، امریکہ تعلقات تو پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان ہی کے دور سے شروع ہو گئے تھے، اب روس (جو اس وقت سپر پاور تھا)کی دعوت کو ٹھکرا کر امریکہ جانا سیاسی غلطی تھی یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن ان تعلقات میں بظاہر مضبوطی اس وقت آئی جب 1950کے آغاز میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ پہلا باقاعدہ دفاعی معاہدہ کیا۔ کہنے کو تو یہ ہمارا مفاد تھا لیکن امریکہ اس وقت پاکستان کو محض اپنی منڈی بنانا چاہتا تھا جو کہ بعد میں ثابت بھی ہوگیا۔ 1960ء میں آئزن ہاور پہلے امریکی صدر کی حیثیت سے پاکستان آئے۔ 1967ء میں لنڈن جانسن،1969ء میں رچرڈ نکسن اور پھر 31سال بعد2000ء میں بل کلنٹن، جبکہ مارچ 2006ء میں جارج ڈبلیو بش ہمارے مہمان ٹھہرے لیکن مقصد اور نعرہ سبھی کا ایک ہی رہا۔ پاکستان نے اپنی مجبوریوں کی بنا پر ہمیشہ امریکہ کے ساتھ دوستی کو ترجیح دی لیکن اسے ہمیشہ ہی اپنی دوستی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ امریکہ نے اپنے اہداف کے حصول کیلئے ہمیشہ اپنی بندوق ہمارے کندھوں پر رکھ کر چلائی اور پھر ہر بار مطلب نکل جانے کے بعد صرف اور صرف ٹھینگا دکھانے ہی پر اکتفا کیا جبکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی ”آگ لگاﺅ“ پالیسی کو بھی پروان چڑھایا اور کبھی قرضوں اور کبھی دفاعی سازو سامان کا لالچ دیکر ہمیں اس طرح اپنے جال میں جکڑ لیا کہ رہائی ممکن ہی نہ رہی۔ ہم کٹھ پتلی کی طرح امریکیوں کے ہر اشارے پر کام کرتے بلکہ ناچتے رہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران امریکی کردار نے اگرچہ متعدد بار ہمیں سنبھلنے کا موقع دیا لیکن ہم سنبھلنے کے بجائے مزید ڈگمگاتے گئے اور یوں امریکہ کا ہمارے اندرونی معاملات میں کردار اس حد تک پہنچ گیا کہ حکومتیں بھی اسی کی پسند اور ناپسند سے بننے اور ٹوٹنے لگیں۔ سرحد کے اس پار یہ عالم اب بھی جاری وساری ہے لیکن دوسری جانب بھارت کے حالات ہم سے مکمل مختلف ہیں۔ بھارت نے امریکہ سے تعلقات تو رکھے لیکن صرف اتنے کہ کاروبار چلتا رہے۔ ہندو بنئے نے انکل سام کو نہ تو اپنی سیاسی پالیسیوں پر حاوی ہونے دیا اور نہ ہی اقتصادی معاملات میں اس کو مداخلت کی اجازت دی، نتیجہ یہ نکلا کہ طویل اور یکساں پالیسیوں کے سبب بھارت دنیا کی اہم ترین تجارتی منڈی بن گیا جبکہ پاکستان اپنے حکمرانوں کی امریکی چاپلوسیوں کے طفیل کشکول اٹھا کر مانگنے والوں میں”سر فہرست“ آگیا یہی وجہ ہے کہ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان ملک خصوصاً عرب دنیا ہماری نسبت بھارت سے تعلقات کو ترجیح دیتی ہے کہ ہم سے روابط کے سبب انہیں امداد دینا پڑتی ہے جبکہ بھارت سے مراسم تجارتی لحاظ سے فوائد کا راستہ کھولتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق آج صرف عرب ممالک کی 80فیصد تجارت بھارت جبکہ باقی 20فیصد ہمارے ساتھ ہے جو ہماری اپنی ہی اللیوں تللیوں کے سبب روز بروز مزید کم ہوتی جارہی ہے جبکہ مغربی دنیا اور امریکہ کی تو بات ہی کیا؟

متذکرہ بالاحقائق چونکہ تلخ ہیں اور ہمیں تلخی برداشت کر کے تلخ فیصلے کرنے کی عادت نہیں اس لئے ہم اپنا آپ سنوارنے اور منوانے کے بجائے دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہمارے موجودہ حکمران تو کچھ زیادہ ہی ”ایفی شنٹ“ ثابت ہو رہے ہیں۔ اوبامہ کی جانب سے خطے میں آکر اپنے اہم ترین اتحادی کو نظر انداز کرنے کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کی چال اسی پر چل کر منہ توڑ جواب دیا جائے لیکن کیا کیجیئے کہ خود کوانکل سام کی ”شفقت“ ہی میں محفوظ تصور کرنے والے ہی اسے ”گناہ کبیرہ “ قرار دیتے ہیں، جب ”قیادت“کا یہ حال ہے تو عوام بے چارے کیا کریں؟کہ انہیں تو زندگی کے جھمیلوں ہی سے فرصت نہیں، شاید اسی صورتحال کیلئے سیانے کہتے ہیں کہ جب کسی قوم کا احساس مر جائے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو سنوارنے کے بجائے دوسروں ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش پر چل پڑتی ہے اور یوں غیر محسوس طریقے سے بڑی طاقتوں کی غلام بنتی جاتی ہے، ایسا ہی ہمارے ساتھ ہے، کوئی مانے یا نہ مانے ہم امریکی غلام بن چکے ہیں اور وہ بھی بے دام۔۔۔۔۔!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54222 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.