سعودی عرب میں خواتین کو آزاد ی تو مردوں پر شاہی عتاب۰۰۰

ان دنوں مملکت سعودی عرب میں کب ،کہاں،کس پر شاہی عتاب نازل ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا۔ اعلیٰ افسران ، وزراء سے لے کر شہزادے بھی ان دنوں ڈرے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ فرمانِ شاہی کے آگے صرف ایک ہی شخصیت کا سکّہ چلتا محسوس ہوتا ہے اور یہ ضبطِ تحریر کرنے میں مغالطہ نہ ہوگا کہ وہی شخصیت ہونگی جو شاہی فرمان جاری کرانے میں اہم حیثیت رکھتی ہیں اور وہ ہیں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان۔ شاہ سلمان کے دورِ اقتدار میں مملکت سعودی عرب میں کئی ایک تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ شاہی خاندان کے افراد کا نام آتے ہی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر بھی نرم پڑجاتا تھا ۔لیکن 4؍ اکٹوبر2017کی رات سعودی شہزادوں، وزراء اور اعلیٰ عہدیداوں کو رشوت ستانی، بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور جس ہوٹل میں کئی ممالک کے صدور، وزرائے اعظم اور شاہی خاندان کے افراد مہمانوں کی حیثیت سے قیام کرکے لطف اندوز ہوتے تھے وہی رِٹز کارلٹن ہوٹل ان کروڑ پتی شہزادوں اور وزراء و اعلیٰ افسروں کے لئے پرتعیش قید خانہ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ سعودی عرب کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جہاں پر شہزادوں اور وزراء کو جن میں کئی ایک اہم عہدوں پر فائز، کروڑ پتی شخصیات تھیں جن کا اثرو رسوخ سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں چلتا ہے تذلیل کا باعث بنے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کارروائی کے پیچھے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اہم رول بتایا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیاکے تحت وائرل ہونے والی خبروں کے مطابق بڑے بڑے کروڑ پتی شہزادوں پر شاہی فرمان نہ ماننے کی صورت میں سختیاں بھی بڑتی گئیں اور آخر کار مجبوراً ان کروڑ پتی شہزداوں، وزراء یا اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو شاہی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی ہونا پڑا۔ ان دنوں پھر ایک مرتبہ شاہی فرمان کے چرچے میڈیا کے ذریعہ گشت کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک 26؍ فبروری کو شاہی فرمان کے مطابق سعودی عرب کے برّی و فضائی افواج کے سربراہوں کو برطرف کردیا گیا۔یہ خبر سعودی افواج کے لئے ہی نہیں بلکہ سعودی عوام اور دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمرانوں کے لئے بھی چونکادینے والی ہے کیونکہ یمن کی جنگ نے سعودی اقتدار پر کاریِ ضرب لگائی ہے۔ شاہی حکومت کو اندازہ بھی نہ تھا ہوگا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ اتنی طویل اور سخت مقابلہ کے ساتھ جنگ لڑنی پڑے گی۔ یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی نے جس طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے مدد مانگی اور سعودی شاہی حکومت نے اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے یمن میں حوثی باغیوں کے خلا ف مارچ 2015میں جنگی کارروائی کا آغاز کردیا اور دیگر اتحادی ممالک کا ساتھ لے کر حوثی باغیوں کی بغاوت کو کچلنے کی بھرپورکوشش کی لیکن اس میں انہیں شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج بھی حوثی باغی یمن سے سعودی عرب کے شہروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے سعودی معیشت بُری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ اس سے قبل شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے سعودی عرب کا اپوزیشن کو ساتھ دینا اور دولت اسلامیہ سے بھی جنگ، سعودی عرب کی معیشت کو متاثر کرچکی ہے اور کررہی ہے۔یمن کی جنگ ابھی اختتام کو پہنچی ہی نہیں کہ سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک یعنی عرب امارات، بحرین ، اردن ، مصر اور یمن کے ساتھ ملکر پڑوسی ملک قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منعقطع کرلئے اورقطر کو یکہ و تنہا کرکے اس کے خلاف اقتصاری پابندیاں عائد کردیں۔ قطر پر الزام ہیکہ وہ ایران سے ملکر دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے ، ایران کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان تمام حالات کو مدّنظر رکھ کر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت سعودی عرب کئی کٹھن مراحل سے گزر رہا ہے ۔ ان حالاتمیں اندرونی طور پر مضبوط و مستحکم ہونا شاہی حکومت کے لئے بے حد ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں اپنی مرضی کے مطابق، جن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ایسے وزراء، اعلیٰ افسر اور سیاسی سطح پر فائز شخصیات کو رکھنا چاہتے ہیں ۔ایک طرف سعودی عرب میں خواتین کو وسیع تر آزادی دی جارہی ہے ،انہیں روزگار سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ تفریحی پروگراموں میں شریک ہونے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے نام پر مملکت میں خواتین کے فیشن شو کا آغاز بھی ہونے والا ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کو فوج میں بھرتی کرنے کا آغاز بھی ہوچکا ہے، دارالحکومت ریاض سمیت 7صوبوں میں آن لائن درخواستیں جمع ہونا شروع ہوگئی ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق فوج میں بھرتی کی خواہشمند خواتین انٹرنیٹ کے ذریعے درخواستیں جمع کروا سکتی ہیں۔ انٹرمیڈیٹ یا اس سے اعلیٰ تعلیمی اسناد کی حامل خواہشمند خواتین سارجنٹ کے طور پر بھرتی کی جائیں گی، کم از کم عمر کی حد 25 اور زیادہ سے زیادہ 35سال مقرر کی گئی ہے۔یہاں یہ بات ضروری ہے کہ سعودی حکومت نے گزشتہ مہینے ہوائی اڈوں اور سرحدی چوکیوں پر سعودی خواتین کی تعیناتی کی اجازت دی تھی۔

شہزادہ محمد بن سلمان پٹرول پر انحصار کرنے کے بجائے ملک میں دیگر ذرائع آمدنی کی کھوج میں مختلف اقدامات روبہ عمل لارہے ہیں۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی مارچ میں ہونے والا خواتین کا فیشن شو اور ملک بھر میں سینما گھروں کا آغاز ہے۔شہزادہ سلمان ملک میں قدامت پسندی کو ختم کرکے اعتدال پسندی لانا چاہتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شہزادہ محمد کا کہنا ہے کہ ملک میں 70فیصد سے زائد آبادی 30سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی ہے جنہیں اعتدال پسند معاشرہ کی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب میں اسلامی ماحول کو آہستہ آہستہ ختم کردیا جائے گا۔ چند سال قبل برطانیہ کی ملکہ ہو کہ امریکہ یا کسی اور ملک کی فرسٹ لیڈی یا کوئی خاتون مہمان انہیں عبایہ پہننا یا مکمل لباس زیب تن کرنا لازم تھا لیکن آہستہ آہستہ اب یہ تمام لزوم ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ملک میں خواتین کو کئی برسوں کے احتجاج کے باوجود شاہ عبداﷲ کے دور اقتدار تک گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ شاہ سلمان نے اس کی اجازت دے کر دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ اور اب شاہ سلمان نے ایک اورایسا چونکا دینے والا فیصلہ کیا ہے جسے سن کر عالمی سطح پر حکمراں ہی نہیں عوام بھی حیرت زدہ ہو گئے۔یہ شاہی فیصلہ خواتین کے لئے شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030کی ایک نئی سوغات سمجھی جارہی ہے۔شاہی حکم کے مطابق 26؍ فبروری کو ایک طرف فوجی سربراہوں کو برطرف کردیا گیا تو دوسری جانب ایک خاتون تمادار بنتِ یوسف الرمہ کو سعودی وزارت میں شامل کرتے ہوئے انہیں نائب وزیر لیبرو سماجی بہبود کی وزارت میں تعینات کیا گیا ہے۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ سعودی عرب کی شوریٰ میں خواتین بھی شامل ہیں ان میں وکلاء خواتین بھی خدمات انجام دے رہی ہیں اب جبکہ شاہی حکومت نے اپنی وزارت میں خاتون وزیر کو شامل کرلیا ہے مستقبل قریب میں مزید خواتین کو مختلف وزارتوں میں موقع دیا جاسکتا ہے، فوج میں بھرتی کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ شاہی فرمان کے مطابق ملک میں دیگر سیاسی تبدیلیاں بھی کی گئیں ان میں سے ایک گذشتہ دو ماہ تک بدعنوانی کے الزامات میں حراست میں رہنے والے کروڑ پتی شہزادہ ولید بن طلال کے بھائی شہزادہ ترکی بن طلال کو جنوب مغربی صوبے عصیر کا نائب گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حامد الدوویلی کو نیا چیف آف اسٹاف مقرر کیاگیا۔جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فہد بن ترکی کو جوائنٹ فورسز کا کمانڈر تعینات کیا گیا ہے۔شاہی احکامات پر صوبہ الجوف کے گورنر فہد بن بدر کو بادشاہ کا مشیر مقرر کرکے ان کی جگہ بدر بن سلطان کو نیا گورنر تعینات کیا گیا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کو جس وقت شاہی فرمان کے مطابق 2015میں وزیر دفاع بنایا گیا تھا وہ اُس وقت دنیا کے کم عمر وزیر دفاع تھے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے یمن کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔تجزیہ نگارو ں کا کہنا ہیکہ سعودی عرب میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس سے اسلامی تشخص متاثر ہوگا۔ خیر شاہی فرمان کے مطابق اندرونی و بیرونی حالات کو مدّنظر رکھ کر سیاسی اور دفاعی میدان میں تبدیلیاں کی گئیں ہیں اب دیکھنا ہے کہ نئے فوجی سربراہ سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں تارکین وطن بھی روزگار کے سلسلہ میں پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں۔ تارکین وطن نوکری چلے جانے کے خوف سے کم سے کم تنخواہ میں خدمات انجام دے رہیں جبکہ سعودی شاہی حکومت ملک میں نوجوانوں کو روزگار سے منسلک کرنے کے لئے سعودی ائزیشن کے تحت سخت اقدامات کررہی ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030میں جو کوئی بھی رکاوٹ بننے کی کوشش کرے گا وہ اسے ہٹا دینگے۔

شامی فوج کی مشرقی علاقے غوطہ میں پھر ایک مرتبہ ظالمانہ کارروائی
شام میں مشرقی علاقے غوطہ کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں شامی فوج جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بچوں اور افراد کو ہلاک کررہی ہے اس کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے اس کے باوجود بشارالاسد کی فوج اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئی ہے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روسی صدر ولادی میر پوتن نے حکم دیا ہے کہ شام کے علاقے غوطہ کے مشرقی علاقے میں جاری لڑائی میں روزانہ پانچ گھٹنے کا وقفہ دیا جائے۔لڑائی میں تعطل کا یہ عمل منگل سے شروع ہوا اور اس منصوبے میں شہریوں کو علاقے سے نکلنے کے لیے راستہ بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ قصبہ غوطہ ایک ہفتے سے شامی حکومت کی شدید بمباری کا ہدف بنا ہواہے اور اس کارروائی میں شامی فوج کو روس کی حمایت حاصل ہے۔ایک طبی فلاحی ادارے کا کہنا ہے کہ آٹھ روز قبل لڑائی میں شدت آنے کے بعد سے حکومتی افواج کے فضائی حملوں اور گولہ باری میں اب تک کم سے کم 560 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔دارالحکومت دمشق کے پاس مشرقی علاقے غوطہ کا شمار اْن چند علاقوں میں ہوتا ہے جہاں باغیوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کو سنہ 2013 سے شامی افواج نے محصور کیا ہوا ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تین لاکھ 93 ہزار افراد اس علاقے میں محصور ہیں۔یہ علاقہ دارالحکومت دمشق کے نزدیک باغیوں کا آخری سب سے بڑا گڑھ ہے۔تازہ حملے میں زمینی پیش رفت بھی شامل ہے اور یہ اقوام متحدہ کی جانب سے '30 دنوں کی بلا تاخیر جنگ بندی' کی اپیل کے چند گھنٹے بعد ہی عمل میں آئی ہے۔اتوار کو فرانس اور جرمنی نے روس سے کہا کہ وہ شامی حکومت پر جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔صدر ترکی رجب طیب اردغان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ شامی حکومت مشرقی غوطہ میں قتل عام کر رہی ہے جس پر عالمی برداری کو فوری ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔دوسری جانب کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی شامی علاقے مشرقی غوطہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بمباری مستقل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہیکہ شام کے حالات کب پرسکون ہونگے کیونکہ ایک طرف شامی حکومت کے ساتھ ایران، روس ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کے ساتھ سعودی عرب،امریکہ اور دیگر ممالک ۔ جبکہ تیسری جانب دہشتگرد تنظیم داعش ہے ان تین طرفہ کارروائیو ں کے نتیجہ میں بے قصورعام شہریوں کی ہلاکت ہورہی ہے۔ کاش عالمِ اسلام شام کے حالات پر متحدہ طور پر مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکالتے ۰۰۰
ٌٌٌ**

M A Rasheed Junaid
About the Author: M A Rasheed Junaid Read More Articles by M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.