یک طرفہ تماشہ ہے

کئی مہینوں سے پورے ملک میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ سینیٹ کے انتخابات وقتِ مقررہ پر نہیں ہو ں گے اور اگر بحالتِ مجبوری ان کا انعقاد عمل میں لا یا گیا تو پھر مسلم لیگ (ن) کو ان میں حصہ لینے سے روک دیا جا ئیگا ۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مخاصمت جس نہج پر پہنچ چکی تھی کا منطقی انجام یہی ہونا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو ان انتخابات سے نکال باہر کیا جائے ۔ ایک خوف ہے جو دونوں جانب کارفرما ہے۔ اسٹیبلشمنٹ آئینی ترامیم سے خوفزدہ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) عدالتی فیصلوں سے پریشان ہے ۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے روائتی حلیف عدلیہ سے من پسند فیصلے حاصل کرکے مسلم لیگ (ن) کو دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے ۔ اس میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا وقت کا ضیاع ہے کیونکہ حالات و اقعات خود ہی ہر چیز کو طشت از بام کر رہے ہیں ۔ سینیٹ کے انتخابات تو تین مارچ کو وقتِ مقررہ پر انعقاد پذیر ہو جائیں گے لیکن ان میں ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے ۔اب اس کے سارے امیدوار آزاد حیثیت میں حصہ لے رہے ہیں اور یوں وہ پیشن گوئی جو کئی ماہ پہلے کی گئی تھی حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کامیاب ہونے والے کچھ امیدوار مسلم لیگ (ن) کی بجائے دوسری جماعتوں کا رخ کریں اور یوں مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اپنی واضح برتری کا خواب پورا نہ کر سکے۔یہ سارا تماشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہم اسے انصا ف و قانون کا نام دے کر طفل تسلیوں میں مشغول ہیں ۔بابا جی پورے جوبن پرہیں اور کسی کی نہیں سن رہے ۔وہ عدلیہ کی سپر میسی کی دھاک بٹھا نے میں مگن ہیں اور قسمیں اٹھا کر یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ عدلیہ کسی کی حلیف نہیں ہے لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ ستر سالہ تاریخ سب کے سامنے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بابا جی دل سے جمہوری نظام کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہوں لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ انصاف کے پلڑے میں صرف ایک جماعت کو رکھا ہوا ہے اور قانون کی ساری موشگافیاں انہی پر آزمائی جا رہی ہیں۔ بہت سے حلقے بابا جی کی دلی آرزو سے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں جٹے ہوئے ہیں اور عدلیہ کے کندھے استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں حالانکہ قانون سے ان کی محبت کا سب کو علم ہے ۔یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اس کے حقِ انتخاب سے محروم کر دیا گیاہے۔فیصلہ کی ٹائمنگ بھی بڑی کمال کی ہے۔جب حتمی فہرست جاری ہو گئی تو پھر فیصلہ سنایا گیا حالانکہ یہ فیصلہ پہلے بھی سنایا جا سکتا تھا تا کہ مسلم لیگ اپنے امید واروں کو نئے ٹکٹ جاری کر لیتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس سے شکوک و شبہات کو تقویت ملی ۔الیکشن کمیشن اس فیصلے سے احسن طریقے سے عہدہ براء ہو سکتا تھالیکن اس نے بھی مسلم لیگ(ن) کو زچ کرنا ہی مناسب سمجھا۔انتخابات میں چند روز کی تاخیر سے کیا آسمان ٹوٹ پڑنا تھا؟ مسلم لیگ (ن) کو وقت دینا چائیے تھا کہ وہ اپنے امیدواروں کی نئی فہرست الیکشن کمیشن کو مہیا کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو دیوار کے ساتھ لگانا مقصود تھا ۔ اب اس طرح کے یکطرفہ فیصلے صادر ہوں گے تو پھر انگلیاں تو اٹھیں گی ۔ میاں محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر ہوا کہ وہ مسلم لیگ کی صدرارت کے اہل نہیں لیکن اس میں مسلم لیگ (ن)اور ان امیدواروں کا کیا قصور ہے جھنوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا تھا ؟ بلوچستان سے خریدو فروخت کے جس نئے تجربے کا آغاز کیا گیا تھا وہ دوسرے صوبوں میں بھی جڑیں پکڑ رہا ہے اور انتہائی چابکدستی سے ممبران کو مجبور کیا جا رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ تو کسی نہ کسی طرح اپنا چہرہ بچا لے گی لیکن عدلیہ جو ریاست کا انتہائی مضبوط اور قابلِ احترام ادارہ ہے اس کی ساکھ کا کیا بنے گا؟عدلیہ کا کام سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے لیکن پارٹی ایکٹ والے فیصلے میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو ضرور نا اہل قرار دیا جاتا لیکن بحثیتِ صدر ان کے تمام فیصلوں کو جوپارٹی صدر بننے کے بعد کئے گئے تھے انھیں ماضی سے نافذا عمل کرنے سے کئی پچید گیا ں پیدا ہو گئی ہیں ۔ سینیٹ الیکشن میں تو اس فیصلے کو من و عن لاگو کر دیا گیاہے لیکن شاہد خاقان عباسی کے بارے میں تا حال کوئی فیصلہ نہیں ہواکیونکہ ان کی وزارتِ عظمی کا فیصلہ بھی میاں محمد نواز شریف نے کیا تھالہذا انھیں بھی اصولا فارغ ہو جانا چائیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔لاہور کا انتخاب ، چکوال کا انتخاب،لودھراں کا انتخاب اور پھر پارٹی کے بے شمار دوسرے فیصلے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔انھیں بالکل چھیڑا نہیں گیا کیونکہ مقصد انھیں چھڑنا نہیں تھا ۔مقصد بڑا واضح تھا اور اسے انتہائی مہارت سے حاصل کیا گیا ہے ۔جو چیز چائیے تھی وہ حاصل کر لی گئی ہے لہذا دوسرے معاملات کو چھیڑ کر بلا اپنے سر کیوں لی جائے ؟مسئلہ سینیٹ انتخابات تھے لہذامسلم لیگ (ن) کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔اب میاں محمد نواز شریف اس پر احتجاج کرتے ہیں تو کچھ حلقوں کو ناگوار گزرتا ہے حالانکہ احتجاج ان کا بنیادی حق ہے جو ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ ،۔

عدلیہ اس وقت کرپشن کے خلاف مورچہ بند ہے اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف کئی مقدمات احتساب عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جن میں کرپشن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔یہ ایک مستحسن قدم ہے اور عوامی نمائندوں کو خود کو پاک اور صاف ثابت کرنا چائیے تا کہ معاشرے میں شفافیت کا عنصر پرورش پائے اور قوم کو کرپشن سے نجات ملے۔ کرپشن ختم ہو گی تو قوم ترقی کرے گی لیکن باعثِ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کے ۲۱ فروری کے فیصلے سے مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ انتخابات سے فارغ کرنے کے بعد ارکانِ اسمبلی کیلئے کرپشن کا جو نیا چور دروازہ کھول دیا گیا ہے اورخریدو فروخت کا جو نیا بازار گرم ہو چکا ہے اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائیگی؟عدلیہ کا بنیادی کام امورِ مملکت میں آسانیاں پیدا کرنا ہیں نہ کہ ان میں پچید گیاں اور رکاوٹیں کھڑی کرنا ۔مجرم کو سزا ضرور دی جائے لیکن نظام کو الٹ پلٹ نہ کیا جائے کیونکہ نظام الٹ پلٹ ہو گیا تو سب کچھ ختم ہو جائیگا اور ہم گھاٹے میں چلے جائیں گے ۔ اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کے کئی فیصلے صادر ہوئے ہیں جن میں مجاز اٹھارٹی کے فیصلوں کو غیر آئینی کہہ کر رد کر دیا گیا تھا لیکن انھیں ماضی سے نافذا لعمل قرار نہیں دیا گیا تھا۔جنرل یحی خان،چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر،جنرل پرویز مشرف اور سا بق صدر غلام اسحاق خان کے کئی اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود ان کے سارے سابقہ فیصلوں کو تحفظ دیا گیا تھا۔میاں محمد نواز شریف کو اثاثے چھپانے کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے جس کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے حالانکہ اس سے پہلے بھی اثاثہ جات چھپانے پر کئی ممبرانِ اسمبلی نااہل ہوئے ہیں لیکن انھیں تو صاد ق اور امین کے کھاتے میں نہیں ڈالا گیا ۔ میاں محمد نواز شریف کے معاملہ میں استثنائی رویہ روا رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا بیانیہ عوامی پذیرائی کا حامل بن رہا ہے۔اہلِ نظر کی متفقہ رائے ہے کہ کسی کو ضرورت سے زیادہ دبایا جائیگا تونتیجہ ایسا ہی بر آمد ہو گا۔جنرل ضیا الحق ساری حیاتی پی پی پی کے خلاف فیصلے کرتا رہا اور اس کے قائد ذولفقار علی بھٹوکو نا کر دہ گناہ پر سرِ دار بھی لٹکا دیا لیکن وہ جس پی پی پی کو مٹانا چاہتا تھا وہ اس کے سارے سفاک اقدامات کے باوجود بھی نہ مٹ سکی ۔جماعتیں یوں نہیں مٹا کرتیں۔جماعیتیں عوامی ووٹ سے مٹتی اور بنتی ہیں لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ جماعتیں بناتی اور اکھاڑتی ہے اور وہ اپنے اس حق سے کسی بھی صورت میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ریپبلکن پارٹی،کنونشن مسلم لیگ ، مسلم لیگ جونیجو،مسلم لیگ نواز،مسلم لیگ قاف،پی پی پی پیٹریاٹک اور کئی دوسری جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے مہرو وفا کی تصویریں ہیں۔پی پی پی کے بعد اب میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے اس جبری حق کو ختم کرکے پارلیمنٹ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں ۔کیا وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے یا ان کی ساری کاوشیں نقش بر آب ثا بت ہو ں گی؟اس بات کا حتمی فیصلہ ۲۰۱۸؁ کے انتخابات میں ہوجائیگا لہذا سب کو انتخابات ۲۰۱۸ ؁کے عوامی فیصلے کو احترام،عزت اور تقدس کی نظر سے دیکھنا ہو گا ۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.