قارئین ۔چودھری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی
راہنماء ہیں گزشتہ ۳۳ سال سے پارٹی کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد
نواز شریف کے ساتھ رہے ہیں۔چودھری نثار علی خان صاحب نے اچھے برے وقت میں
پارٹی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور بلا شبہ چودھری نثار علی خان کا
سیاست میں اپنی ایک پہچان اور حیثیت ہے ۔اور اس حیثیت سے کوئی انکار نہیں
کر سکتا۔مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ رہا ۔کہ
خوشامدی لوگ ہمیشہ مراعات لیتے رہے ،قیادت سے غلط فیصلے کراتے رہے اور پھر
نتیجہ یہ نکلا ان خوشامدی طبقے کی وجہ سے پر خلوص،ایماندار،فرض شناس اور
اچھے کردار کے لوگ قیادت اور حکومت سے دور ہوتے گئے۔جس سے حکومت اور سیاسی
جماعتوں کو کافی نقصان پہنچا ۔اور شایدیہی وجہ ہے کہ چودھری نثار علی خان
اور میاں نواز شریف صاحب کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ان میں
خوشامدی طبقے کا اہم رول ہے۔ قارئین،دس فروری دو ہزار اٹھارہ کو ٹیکسلا میں
سابق وقافی وزیر چودھری نثار علی خان نے ایک کانفرنس کی اور اس کانفرنس میں
چودھری صاحب نے بڑی اہم باتیں کی ہیں۔جس سے مسلم لیگ (ن) کے مستقبل اور
اندرونی اختلافات کی واضح شناخت ہوتی ہے۔چودہدری نثار علی خان نے واضح
الفاظ میں کہا میرا،وزیراعظم شاہد خان عباسی اور شہباز شریف کا ایک ہی موقف
ہے کہ عدلیہ اور اداروں سے محاز آرائی نہ کی جائے۔ اور چودھری صاحب نے یہ
بھی کہا سینٹیرپرویز رشید نے میرے خلاف جو باتیں کی ہیں اس حوالے سے میں نے
میاں محمد نواز شریف کو لیٹر لکھا ہے اور میاں صاحب کے جواب کا انتظار
ہے۔میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف پارٹی کے قائدین اور سیئنر لوگ ہیں۔ان
کی قیادت میں کام کر سکتا ہوں۔مگر محترم مریم صاحبہ کے ماتحت کام نہیں کر
سکتا ہوں۔کیونکہ وہ جونیئر سیاستدان ہیں۔چودھری نثار علی خان صاحب نے اس
کانفرنس میں ایک بہت اہم بات کی ہے۔نہ میں منافق ہوں۔اور نہ میں سیاسی یتیم
ہوں۔پانامہ لیکس کیس میں میری تجاویز اور رائے کو ٹھوکرا دیا گیا ۔میرے
خدشات درست ثابت ہوئے۔چند ماہ میں صورت حال سامنے آجائے گی۔اور چودھری صاحب
نے یہ بھی فرمایا نہ فاروڈ بلاک بناؤں گا ۔اور نہ علیحدہ گروپ پارٹی میں رہ
کر متحرک کردار ادا کروں گا۔چودھری نثار علی خان صاحب نے صحافیوں کے کچھ
مزید سوالوں سے گریز کیا گزشتہ آٹھ ماہ سے پارٹی کی سنٹرل ایگزیو کمیٹی کا
اجلاس تک نہ ہوا۔اگر یہ صورت حال رہی تو مستقبل میں پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہو جائے گی۔قارئین۔چودھری نثار علی خان صاحب اس پریس کانفرنس میں جن اہم
نکات کی وضاحت کی ہے۔ان میں ایک چودھری صاحب کے پارٹی قیادت سے واضح
اختلافات ہیں۔دوسرا میاں صاحب نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کر رکھی
ہے۔اور تیسرا پارٹی کے اندر اپنی صاحبزادی مریم نواز کو زیادہ اہمیت دی جا
رہی ہے۔ہر جلسے میں میاں صاحب اپنی بیٹی کو پذیرائی دے رہے ہیں۔چند دن پہلے
یہ بھی افوائیں تھیں کہ ہو سکتا ہے میاں صاحب پارٹی کی قیادت اپنی بیٹی کے
سپرد کر دے۔لیکن اگر میاں صاحب ایسا کرتے تو پارٹی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہو جاتی ۔لیکن میری جو ذاتی رائے ہے۔یہ میاں صاحب کا اچھا اقدام ہے۔ جو
پارٹی کی صدارت اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو سونپ دی ہے۔ اس وقت میاں
محمد نواز شریف صاحب کا سب سے زیادہ ہمدرد میاں شہبا شریف صاحب ہیں۔شہبا
شریف صاحب نہایت مخلص،دیانت دار ،محنتی ،باصلاحیت اور اچھے لیڈر ہیں۔اگر دو
ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں میاں شہباز شریف صاحب وزیر اعظم منتخب ہو جاتے
ہیں۔تو مسلم لیگ (ن) کا کوئی دوسری جماعت مقابلہ نہیں کر سکے گی۔لیکن شہباز
شریف صاحب سے ہٹ کر کوئی اور وزیراعظم بنے گا تو پارٹی مزید ٹوٹ پھوٹ
کاشکار ہو جائے گی۔مگر ابھی یہ بھی سنا جا رہا ہے۔کہ شہباز شریف صاحب کے
خلاف بھی (انویسٹی گیشن)ہو رہی ہے۔ملتان میٹرو اور احد چیمہ والے کیس میں
شہباز شریف صاحب سے کچھ سوال اٹھ رہے ہیں۔یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو
جائے گا۔مگر شہبازشریف صاحب کی کارکردگی اچھی ہے۔لیکن سو الات یہ بھی اٹھ
رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف صاحب کے گلے میں ابھی تک تلوار لٹک رہی
ہے۔ملتان میٹرو کیس،ماڈل ٹاؤن قتل عام اوراحد چیمہ والے کیس میں میاں شہباز
شریف صاحب کے خلاف (انویسٹی کیشن)ہو رہی ہے۔لیکن اس تمام صورت حال کے
باوجود مسلم لیگ (ن)مستقبل میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں شہبا شریف
صاحب کو وزیر اعظم منتخب کر رہے ہیں۔چونکہ مستقبل میں مسلم لیگ کو کافی
چیلنج کا سامنا ہے۔سوالات یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مسلم
لیگ (ن)ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔کیونکہ میاں نواز شریف صاحب نے چودھری
نثار صاحب کو مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں نہیں بلایا،کچھ دنوں کے
بعدصورتحال واضح ہو جائے گی۔مگر یہ بات قابل غور ہے کہ چودھری نثار صاحب کا
اگلا اقدام پنجاب کے خادمہ اعلیٰ شہباز شریف صاحب کے لیے ایک کڑی امتحان ہو
گا۔نواز شریف صاحب کے سپریم کورٹ میں جو کیس ہیں۔جون دو ہزار اٹھارہ میں
فیصلہ آ جائے گا۔جس طرح محسوس ہو رہا ہے اس دفعہ (این ۔آر ۔او )نہیں ہو
گا۔چونکہ میاں محمد نواز شریف صاحب اور مسلم لیگ (ن) کے چند راہنماؤں سے
گذارش ہے کہ عدلیہ اور اداروں کے خلاف محاذ آرائی کوختم کیا جائے،اگر یہ
پالیسی جاری رہی تو پارٹی کے اندر انتشار پیدا ہو گا۔اور مسلم لیگ (ن) مزید
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔اور پھر نتیجہ یہ ہوگا اس کا فائدہ دوسری
سیاسی جماعتوں کو ہو گا۔اس لیے مسلم لیگ (ن ) کے قائد میاں محمد نواز شریف
صاحب صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ مستقبل میں پارٹی کو جو چیلنج پیش آئیں
ان کا مقابلہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔
|