چانکیہ کی راج نیتی کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ "جھوٹ اتنی
شدت سے بولاجائے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں "۔چانکیہ نیتی کا یہ اصول جدید
دور میں پروپیگنڈاکی بنیاد ہے ۔پروپیگنڈا ایک ہی بات کو ہر جگہ مختلف
صورتوں میں اسطرح دہرانے کا نام ہے کہ اسکی تھیم بر قرار رہے اوربیان
دہرانے کا عمل اتنا شدید اور تیز ہوکہ بات زبان زد عام ہوجائے اوروہ لوگ جو
اس بات میں دلچسپی نہیں بھی رکھتے وہ بھی اس میں دلچسپی لینے لگیں اور
انہیں وہ بات سچ لگنے لگے۔
نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف نے عوام کے سامنے یہ بات رکھی کہ
میرے خلاف الزام تو کرپشن کا تھا لیکن کرپشن تو ثابت نہیں ہوئی اسلیئے میں
عدالت سے پوچھتا ہوں بتاؤ "مجھے کیوں نکالا"؟ اس "کیوں نکالا "کو جلسے
جلوسوں ، ٹاک شوز ، پریس کانفرنسوں ، میڈیا ٹاکس ، سوشل میڈیا غرض ہر فورم
پر بڑی شدو مد سے پھیلایا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کو نواز شریف اور
اسکی سیاست سے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی وہ بھی پوچھنے لگے کہ
نواز شریف کو" کیوں نکالا"،یہ تھی نواز شریف کے پروپیگنڈاکی کامیابی اور
کمال تھا اس بیش بہا دولت کا جو "کیوں نکالا"کو ہر طرف پھیلانے کیلئے میڈیا
پر نچھاور کی گئی ۔
نواز شریف کے خلاف الزامات یہ تھے کہ وہ عوامی عہدہ پہ رہتے ہوئے کرپشن کے
مرتکب ہوئے ، انہوں نے ملک کا پیسہ لوٹ کر آف شور کمپنیز کے ذریعہ باہر
بجھوایا ، بیرون ملک کاروبار کھولے ، جائیدادیں بنائیں،قوم سے غلط بیانی کی،
عوام کو گمراہ کیا، حقائق کو چھپایا اور امانت میں خیانت کی۔قانونی پیچیدگی
یہ تھی کہ سپریم کورٹ آئینی نکات جو کہ نواز شریف کے صادق اور امین ہونے سے
متعلق تھے صرف انکا فیصلہ کر سکتی تھی جبکہ مالی کرپشن سے متعلق الزامات پر
کاروائی کا اختیارنیب کو حاصل تھا۔عدالت نے واضح کیا کہ وہ صرف نواز شریف
کے صادق اور امین ہونے کے حوالے سے فیصلہ دے گی اور عدالت نے وہی کیا ،
انہوں نے نواز شریف کے صادق اور امین ہونے سے متعلق فیصلہ دیا جبکہ مالی
کرپشن سے متعلق الزامات کی تحقیق اور کاروائی کیلئے معاملہ نیب کو بجھوا
دیا۔ عدالت نے مکمل طور پر آئین ، قانون اور ضابطہ کی پاسداری کی ۔نواز
شریف کا کمال دیکھیں کہ اس نے فیصلے کو عوام کے سامنے اسطرح پیش کیا کہ ایک
طرف مظلوم بن کر کہاکہ مجھے سزا پہلے سنا دی اور مقدمہ بعد میں چلا رہے ہیں۔
دوسری طرف جلسے میں کرنسی نوٹ لہرا کر عدالت پہ طنز کیا کہ میرے خلاف دس
روپے کی کرپشن ہی ثابت کرکے دکھا دو۔ یوں نواز شریف نے چت بھی میرا اور پٹ
بھی کے مصداق عدالتی فیصلے کو دونوں طرف سے اپنے حق میں استعمال کیا ؛ایک
طرف مظلوم بن گئے اور دوسری طرف کرپشن فری ۔یہ نواز شریف کی عوامی ہمدردیاں
حاصل کرنے ، سپریم کورٹ کو discreditکرنے اورعوام اور عدلیہ کو آمنے سامنے
لانے کی منصوبہ بندی تھی۔
نااہلی کے بعد فوری طور پر یہ قانون بنانا کہ نا اہل شخص پارٹی ہیڈ بن سکتا
ہے بھی نون لیگ کی سوچی سمجھی چال تھی۔ نون لیگ یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ
مجوزہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور عدالت اسے کالعدم قرار دے
سکتی ہے اور جب عدالت ایسا کرئے گی تو یہ بھی ہمارے حق میں جائے گا اور وہی
ہوا گو کہ عدالت نے اس قانون کو کالعدم نہیں کیا بلکہ اسے آئین کے تابع کر
دیا لیکن پھر بھی نون لیگ نے اسے پارلیمنٹ کے اختیارات چھینے کا رنگ دیا
اور پارلیمنٹ کو اپنے ساتھ ملا کر عدالت کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی
کوشش کی۔ یہ Narrativeبلڈ کیا کہ دیکھیں ہم تو کچھ کر ہی نہیں سکتے قانون
بنائیں تو عدالت اسے کالعدم قرار دے دیتی ہے ،کوئی انتظامی حکم جاری کریں
تو عدالت اسے Rejectکر دیتی ہے ، عدالت نے ہمیں بے بس کر دیا ہے ۔یہ نواز
شریف کی پارلیمنٹ کو عدلیہ سے لڑانے کی سازش تھی ۔
ریاست کے چھوتے ستون میڈیا کوبھی نواز شریف اپنے کھیل میں بڑی مہارت سے
استعمال کر رہے ہیں ۔ صبح پہلی خبر نواز شریف سے متعلق اور رات آخری خبر
بھی نواز شریف کے بارے میں ۔ ذرا نون لیگ اور نواز شریف پر ہونے والے
تبصروں، تجزیوں اور رپورٹس پر بھی غور کریں ان میں ایک طرف تو نواز شریف کے
بیانیے کی مقبولیت کا ڈھول زور و شور سے پیٹا جاتا ہے اور دوسری طرف دوسطری
تنقید کرکے غیر جانبداری کا تڑکا لگانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے جس سے یہ
پتہ چلتا ہے کہ نون لیگ شطرنج کی بازی دونوں طرف سے خود ہی کھیل رہی ہے اور
مقصد اس سارے کھیل کا یہ ہے کہ نواز شریف اور نون لیگ ہر وقت میڈیا پر
چھائے رہیں کیونکہ جتنا زیادہ نواز شریف اور نون لیگ میڈیا میں زیر بحث
رہیں گے اتنا زیادہ وہ سیاسی طور پر مقبول ہونگے۔ سیاسی مقبولیت کیا ہوتی
ہے ؛ یہی نا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کسی سیاسی لیڈر یا پارٹی کی جانب راغب
ہوں۔سیاسی مقبولیت کو اچھائی اور برائی کے پیمانے میں نہیں تولا جاتا، یہ
'' بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا '' کے اصول پر چلتی ہے ۔ یہاں اس بات
کاذکر بھی ضروری ہے کہ اگر نواز شریف کا بیانیہ مقبول ہوا تو اس میں
قصورعمران خان کا بھی ہے جو اصل حز ب اختلاف ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں ۔
عمران خان نہ صرف نواز شریف کے بیانیہ کا توڑ کرنے اور ایک
counter-narrative دینے میں ناکام رہے بلکہ وہ خود بھی نواز شریف کے
پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ سپریم کورٹ نے نواز
شریف کے خلاف ایک کمزور فیصلہ دیا۔
چانکیہ ہندوستان کے سیاستدانوں کا گروہے لیکن نواز شریف بھی چانکیہ نیتی سے
متاثر لگتے ہیں۔دنیااٹالین مفکر میکیاولی کی راج نیتی جس کا تصور اس نے
اپنی کتاب The Princeمیں پیش کیا تھا کو بہت خطرناک سمجھتی ہے لیکن چانکیہ
کی راج نیتی کا تصور جو اس نے اپنی کتاب ارتھ شاستر میں دیا وہ میکیاولی کی
کتاب The Princeمیں دیئے گئے راج نیتی کے تصور سے زیادہ خطر ناک ہے اس لحاظ
سے نواز شریف چانکیہ نیتی پر عمل پیرا ہو کر ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیل
رہے ہیں جس میں انہوں نے ریاست پاکستان کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے ۔ نواز
شریف چاہتے ہیں عدالت کو اکسائیں تاکہ عدالت نواز شریف کو توہین عدالت کا
نوٹس جاری کرئے اور جس دن نواز شریف عدالت میں پیش ہو ں اس دن اس سے بھی
زیادہ خطر ناک صورت حال پیدا کر دی جائے جو انہوں نے چیف جسٹس سجادعلی شاہ
کے خلاف 28نومبر 1997میں پیدا کی تھی۔ دوسری طرف تمام پولیٹیکل پنڈت اور
قانونی اشاریہ نواز شریف کی احتساب عدالت سے سزا کا عندیہ دے رہے ہیں
اورخود نواز شریف کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ انہیں سزا ہو سکتی ہے ۔
نواز شریف کا عوام کو عدالتوں کے خلاف اکسا ناانکے اس بڑے ایجنڈے کا ایک
چھوٹا حصہ ہے جسکے حصول کیلئے وہ ریاست پاکستان کی سا لمیت کو خطرے میں
ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ میاں صاحب کے شیخ مجیب اور سقوط ڈھاکہ سے متعلق
بیانات کو ذہن میں رکھیں ۔انکی سوچ یہ ہے کہ شیخ مجیب کے ساتھ زیادتی ہوئی
تو نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا اور اگر نواز شریف کے ساتھ زیادتی
ہوگی تو نتیجہ ایک اور بنگلہ دیش کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور یہی وہ
بڑا ایجنڈا ہے کیونکہ نواز شریف کو پاکستان بغیر نواز شریف کے قابل قبول
نہیں ۔ |