داعش کا حماس کے خلاف اعلان جنگ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مصرکی دولۃ اسلامیہ عراق و شام’’داعش‘‘نے حال ہی میں 22منٹس کی ایک فلم جاری کی ہے جس میں فلسطینی راسخ العقیدہ مسلمانوں کی تنظیم حماس کے خلاف جنگ کااعلان کیاگیاہے۔اس علان جنگ کی وجہ بتاتے ہوئے کہاگیاکہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے سے روکنے کی خاطر یہ اقدام کیاگیاہے۔داعش کاخیال ہے کہ چونکہ حماس امریکہ کے اس اقدام کو نہیں روک سکااس لیے حماس کو ختم کردیاجائے۔اس وڈیومیں ایک مسلمان ،موسی ابوزماط ،کو داعش کے ہاتھوں قتل ہوتے بھی دکھایاگیاہے جس پرالزام تھاکہ وہ مصرسے حماس کو اسلحہ فراہم کرتاتھا۔اس وڈیومیں داعش نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیاہے کہ حماس کے علاقوں کو بموں سے نشانہ بنایاجائے۔اس وڈیومیں غزہ کے ایک فرد’’ابوکاظم مقدسی‘‘کوبھی دکھایاگیاہے جس نے حماس پر الزامات لگائے اور حماس کی عدالتوں اوردفاعی اڈوں کو دھماکوں سے اڑانے کا بھی حکم صادرکیا۔حماس کی تنظیم اس وقت غزہ کی اہم ترین پٹی پر خاص طورپر اور بقیہ پورے فلسطین میں عام طور فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت ہے۔

فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ ’’حماس ‘‘کی تاسیس 1987ء میں شہید شیخ احمد یاسین کے ہاتھوں ہوئی تھی۔اس وقت حماس اسرائیل کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ہے۔اس تنظیم کو کل عالم اسلام کی حمایت حاصل ہے۔اس تنظیم کا سب سے بڑامقصدیہودی غاصب ریاست اسرائیل کو سرزمین فلسطین سے بے دخل کرنا ہے۔حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید نے پیشین گوئی کی تھی کہ 2025ء تک اسرائیل صفحہ ہستی سے نابود ہوجائے گا۔حماس کی جڑوں میں ہزاروں فلسطینی شہداکاخون شامل ہے جس سے اس تنظیم کے تناورشجرکی آبیاری ہوئی ہے۔شہداکی قربانیوں کایہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔فلسطینیوں کی اکثریت اس لیے بھی حماس کو پسند کرتی ہے کہ اس تنظیم کی اٹھان خالصتاََ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور سیرۃ النبی ﷺ کے طریقے پر ہوئی ہے۔اس کے مقابلے میں دیگرفلسطینی گروہوں میں سیکولراورلبرل عناصرکی فکر بھی شامل رہی ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حماس سے پہلے تک اسرائیل کے خلاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی تھی جب کہ حماس کی جمہوری کامیابیوں کے بعد اسرائیل کو متعدد سفارتی محاذوں پر پسپائی کامنہ دیکھناپڑاہے۔خاص طورپر اسرائیل کادہشت گردچہرہ جوپہلے چھپارہتاتھاحماس کے بعدسے دنیااس مکروہ چہرے کو تسلسل سے مشاہدہ کررہی ہے۔حماس کی قربانیاں اس کے اخلاص پر دال ہیں اور حماس کی قیادت ایمان واستقامت میں قرون اولی کے مسلمانوں کی یادتازہ کرتی ہے۔

’’داعش‘‘جوماضی قریب میں ظہورپزیرہوئی ہے،ایک جنگ جوگروہ ہے۔ابتدامیں امت کے مخلص عوام نے اس تنظیم کو خوش آمدیدکہا۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ استعماری قوتوں کے ظلم واستبدادکے خلاف مسلمانوں میں کوئی قابل ذکرآواز ناپیدتھی۔امریکہ،نیٹو،اقوام متحدہ اور دیگرعالمی مالیاتی و سیاسی ادارے جب اور جہاں چاہتے مسلمانوں پر شب خون مارتے یادن دیہاڑے چڑھ دوڑتے اور مسلمانوں کے حکمران بھی ان طاغوتی اداروں کے سہولت کاربنے نظر آتے تھے۔ایسے میں داعش نامی ایک مسلح مزاحمتی تحریک کے لیے مسلمانوں کی ہمدردیاں ایک فطری امر تھا۔لیکن ماضی قریب میں جب داعش نے صرف مسلمانوں کے علاقوں کو ہی اپنی کاروائی کامرکز بنالیااور صرف مسلمانوں کے ہی سرقلم ہونے لگے اور صرف مسلمان افواج پر ہی داعش کی گولے بارود کی بارشیں ہونے لگیں اور صرف مسلمانوں کی بستیاں ہی داعش کے غم و غصے کاشکار نظرآنے لگیں تو مسلمانوں کے ہاں سے داعش پر سوال اٹھناشروع ہوگئے۔داعش کے مسلح گروہ زیادہ فاصلے طے کرکے مسلمانوں کی بستیاں مسمارکرنے توپہنچ جاتے لیکن اس سے کم فاصلے پر اسرائیلی غاصب یہودیوں کے شہر ان کی نظروں سے دورکیوں رہتے تھے؟؟؟پھرجس استعمارکے خلاف داعش نے نعرے لگائے تھے اس کابھی کچھ نہ بگڑ سکااورداعش ہی کے ہاتھوں امت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی گئی ۔چنانچہ امت کی دعائیں اور محبتیں لینے والا یہ عسکری گروہ رفتہ رفتہ اپنے اہمیت کھوتاچلاگیااوراس کاوجودمشکوک ہوگیا۔

حال ہی میں داعش نے حماس جیسی راسخ العقیدہ اور شہداامت کی امین تنظیم کے خلاف بھی اعلان جنگ کردیاہے۔حماس کے خلاف اعلان جنگ کا صریح وبین مطلب اسرائیل سے اعلان دوستی ہے۔اس وقت اسرائیل کے خلاف ٹھوس جمہوری،عوامی اور سیاسی ونظریاتی محاذ پر اگرکوئی تنظیم برسرپیکارہے تووہ صرف حماس ہے۔حماس سے دشمنی کرناگویاسرائیل سے حق وفاداری اداکرناہے۔اگرداعش کاگروہ مسلمانوں کاخیرخواہ گروہ ہے تواسرائیل کے دشمنوں سے دشمنی چہ معنی دارد؟؟؟ہوناتویہ چاہیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف داعش کاگروہ حماس کا دست راست ہوتا،دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کرتے،اسرائیل کا حلیہ بگاڑنے میں دونوں مل کر اپنا اپناکرداراداکرتے اور اسرائیل سے مسلمانوں کے قتل عام کاانتقام لیتے۔داعش کاوجوداگر مسلمانوں کانمائندہ تھاتواسرائیل اس وجود سے حددرجہ خوفزدہ ہوتااور جس طرح اسرائیل کی افواج ایک طویل عرصے سے حماس اور قائدین حماس کی جان کے درپے ہیں اسی طرح داعش بھی اسرائیلیوں کے لیے لوہے کاچناثابت ہوجاتی اور حماس کے ساتھ معاونت کے ذریعے یک جان دوقالب ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح طاغوت سے برسرپیکارہوتے۔لیکن تادم تحریرداعش کی بندوقوں کارخ مسلمانوں کی طرف ہی ہے اور اسرائیل کوابھی تک بیان کی حد تک بھی داعش سے کوئی زبانی خطرہ بہم نہیں پہنچ سکا۔

داعش نے حماس کے خلاف اعلان جنگ میں یہ موقف اختیارکیاہے کہ چونکہ حماس بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ روکنے میں ناکام رہی ہے اس لیے حماس سے جنگ کردی جائے اور اسے تباہ و بربادکردیاجائے۔اول توحماس کی مرضی سے یہ فیصلہ نہیں ہواکیونکہ ابھی وہ وقت نہیں آیاکہ امریکہ اوراسرائیل کی قسمت کے فیصلے حماس کی کابینہ میں ہونے لگیں۔دوسری اوراہم تربات یہ ہے کہ حماس نے اس فیصلے پر شدید ترین ردعمل کااظہار کیاہے۔حماس کی صورتحال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی ایک طرف سمندر میں گھری ہے جہاں ہمہ وقت اسرائیلی بحریہ کی بمباری جاری رہتی ہے،غزہ کے فلسطینی اپنی خوراک کی خاطرمچھلی کے شکار کے لیے بھی کھلے سمندر میں نہیں جاپاتے کہ اسرائیلی جنگی کشتیاں ان پر بندوقوں کے دہانے کھول دیتی ہیں،دوسری طرف اسرائیل کی بستیاں ہیں جن کے خلاف حماس نے قرآن و سنت کے عین مطابق اعلانیہ قتال بطورفرض عین کادروازہ کھول رکھاہے،تیسری طرف مصر کاملک ہے جس کی سرحدیں اسرائیل کی آشیربادکی خاطرہمیشہ بندرہتی ہیں۔حتی کہ بین الاقوامی امدادی قافلے بھی ہفتوں تک اس سرحد پر خیموں میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک اسرائیل کی حکومت جنرل عبدالفتاح السیسی کو حکم نہ دے دے اس وقت تک مصری فوج کاسربراہ اور مصری ریاست کاصدر اپنے ہی ملک کی سرحدیں کھولنے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ان حالات میں جب کہ حماس تک خوراک اورادویات کاپہنچنابھی محال ہو تو کیسے ممکن ہے وہ امریکہ کاراستہ روک دے؟؟؟

اس کے مقابلے میں داعش کے تحریک میں اس طرح کی کوئی جغرافیائی پابندیاں حائل نہیں ہیں۔خشکی،سمندراور پہاڑی علاقوں میں ہرطرح میدان انہیں میسرہے،دنیابھرسے رابطوں کے دروازے ان کے سامنے کھلے ہیں،عراقی تیل کے کوئیں کی صورت میں تیل کی بہت سستی فروخت کے ذریعے مالی وسائل بھی انہیں حاصل ہیں اور اسلحے کی کھیپ کی کھیپ ان پر چاروں اطراف سے بارش کی طرح امڈتی پڑ رہی ہے پھر آخر کیاوجہ ہے کہ ان کااسرائیلی سمت کامورچہ بالکل خاموش ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ حماس جیسی تنظیم جو محاصرہ وبے سروسامنی کے عالم میں بھی محض اپنی افرادی قوت کو سڑکوں پر لاکرپوری دنیاکے سامنے اپنے جمہوری احتجاج کااظہارکرتے ہیں یہ داعش ان کے خلاف بھی اعلان جنگ کرتی ہے۔داعش اگر واقع مسلمان گروہ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کرنا چاہتاہے تواسے اسے فوری طورپرمسلمانوں کے خلاف جنگ بندی کرکے تو اسرائیل کے دشمنوں کے ساتھ مل کر یہودیوں کے خلاف جنگ کامیدان گرم چاہیے،جب کہ اس مقصدکے لیے بظہرکوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔

مولانامودودیؒ لکھتے ہیں ہیں جب حق کی پہچان مشکل ہوجائے تو غورسے دیکھوکہ باطل اور شرکی قوتوں کے تیرکس کی طرف چل رہے ہیں،پس ان حالات میں طاغوت کانشانہ بننے والے اہل حق ہوں گے۔اس وقت اسرائیل کی حمایت میں امریکہ اور یورپی ممالک سمیت کل عالمی استعماری ادارے حماس کودہشت گرد قراردے چکے ہیں،چنانچہ حماس ہی حق پر ہیں۔اور داعش نے حماس کے خلاف اعلان جنگ کرکے اپنی حیثیت کو مشکوک نہیں کیابلکہ اس بات کا یقین دلادیاہے کہ داعش دراصل یہودوہنودونصاری کے ہی مقاصدکی تکمیل کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں اور یہی استعماری و باطل اورشرکی قوتیں داعش کی مالی و عسکری معاونت اس لیے کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی کمرمیں چھراگھونپاجاسکے۔مسلمان اہل حق آج بھی ایک قبلہ کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور تمام مسالک کے مسلمان آج بھی مشترکات پر متحدہیں۔داعش جیسی سازشیں نہ ہی تو پہلی بارہوئی ہیں اور نہ ہی آخری بار،اہل حق نے انہیں باالاجماع مستردکیاہے اور بہت جلد قہرخداوندی سے یہ اسرائیل سے بہت پہلے نابودہوجائیں گے اور حماس جیسی مسلمان فکرانشااﷲتعالی پوری دنیاپر حکومت کرے گی۔
 

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 516339 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.