شام دو لت اسلامیہ کا ایک اہم ملک ہے جس کی تاریخ اور
ثقافت بہت پرانی ہے یہاں ابھی بھی قدیم سے قدیم عمارتوں کے آثار موجود ہیں
شام کے شہر دمشق میں ابھی بھی جدید اور قدیم عمارات اور گلیوں کاا متزاج
دیکھنے کو ملتا ہے دمشق یونانی دور میں تہذیب و تمدن کا مرکز مانا جاتا تھا
دمشق آج بھی شام کا دارلحکومت ہے آج بھی سیاح اور زائرین بڑی تعداد میں اس
ملک کی سیاحت کے لئے جاتے ہیں لیکن جب سے جنگ کا آغاز ہو ہے سیاحوں کی
تعداد میں بھی کمی آ گئی ہے بشار الاسد ملک شام کے صدر ہیں شام میں بشار
لاسد اور باغی شدت پسندوں میں جنگ جاری ہے جس میں صدر بشار الاسد کی فوج کے
ساتھ روس بھی جنگ میں شامل ہے جو شدت پسندوں کی خلاف بر سر پیکار ہے لیکن
اس جنگ میں عام شہری ،بچے ،بوڑھے اور خواتین شہید ہو رہے ہیں اور ان کی
املاک تباہ ہو رہی ہیں اس جنگ میں ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ
دل دھل جائے بچے ماں باپ سے اور ماں باپ بچوں سے جدا ہو رہے ہیں ہر طرف چیخ
و پکار ہے جا بجا لاشوں کے ڈھیر ہیں اور انھیں اٹھانے اور دفنانے والا کوئی
نہیں ہے جہاں اس جنگ سے عام شہری جانی اور مالی نقصان اٹھا رہے ہیں وہاں اس
ملک میں موجود قدیم تاریخی اور ملت اسلامیہ کے اہم مقامات جن میں پیغمبران
اسلام ،صحابہ اکرام کے مزارات ہیں ان کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔جنگ کسی
بھی ملک میں ہو ماسوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا مشرق وسطیٰ پر عالمی
طاقتیں نبرد آزما ہیں اس سے پہلے امریکہ نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا
جھوٹا الزام لگا کر دس لاکھ سے زائد لوگوں کی جانوں سے کھیلا گیا اس کا ذمہ
دار کون ہے؟ کیا ان ذمہ داروں کو کوئی پوچھنے والا ہے؟ کیا طاقت ور ملک کسی
پر بھی چڑھائی کر سکتا ہے؟ کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کسی ملک پر
الزام لگا کر اسے ناتلافی نقصان پہنچا سکتا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کا ادراہ
کسی منہ زور ملک کو کنٹرول نہیں کر سکتا؟ کیا قوانین صرف کمزور ملکوں پر
لاگو ہوتے ہیں اور طاقت ور ملک اس سے آزاد ہیں ؟جی ہاں یہ سب باتیں اپنی
جگہ پر سچ ہیں اور ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ طاقت ور ملک کیسے
کمزور ملکوں پر اپنے قوانین لاگو کرتے ہیں اور انہیں اپنے فیصلوں کے مطابق
عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔خیر چھوڑیں ہم اپنے اصل موضوع کی جانب بڑھتے
ہیں بات ہو رہی تھی ملک شام کی جو آج کل پوری دنیا میں مرکز نگاہ بنا ہوا
ہے اور اخبارات جنگ کی تباہی کی سرخیوں اور صحفات شہید ہونے والے معصوم اور
بے گناہ شہریوں کی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں جنہیں دیکھ کر ہر مسلمان کا دل
خون کے آنسو روتا ہے ۔زیادہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب روس نے دولت اسلامیہ
کے شدت پسندوں پر فضائی حملے کئے گے روس نے ان کے خلاف اپنے حملوں میں نہ
صرف اضافہ کیا بلکہ ان میں تیزی بھی آگئی روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف دولت
اسلامیہ کے شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں
معصوم بے گناہ شہری اور ان کے بچے بھی شہید ہو رہے ہیں اور جو اس میں بچ
جاتے ہیں ان کے لئے جینا مزید دوبر ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ نہ ہی ان کے
پاس کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی سر چھپانے کو کوئی جگہ میسر ہے آخر وہ جائیں
تو کہاں جائیں ان کا اپنے ہی ملک میں کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔صدر بشار
الاسد کے خلاف نہ صرف دولت اسلامیہ کے شدت پسند لڑ رہے ہیں بلکہ کچھ
اندرونی گروہ بھی لڑائی میں شدت پسندوں کے ساتھ صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ
میں شامل ہیں جو مل کر صدر بشار الاسد کی فوج اور روس کے ساتھ جنگ کر رہے
ہیں اگر صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے ہٹ جاتے تو شائد اتنی تباہی نہ ہوتی
جو آج دیکھنے میں آرہی ہے اور ابھی کچھ معلوم نہیں کہ یہ جنگ کہاں جا کر
ختم ہو گی یا پھر اس کا دائرہ دوسرے ممالک تک بھی پھیل جائے گا اس جنگ میں
روس نہ صرف اپنا اسلحہ شامی فوج کو مہیا کر رہا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کر
رہا ہے روس کی مداخلت سے شام کے حالات زیادہ گھمبیر ہوئے ہیں ایک اندازے کے
مطابق اب تک اڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور نہ جانے
اور کتنے ابھی ہلاک ہوں گے شامی شہریوں پر یہ جنگ کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کتنے لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور کتنے اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں اس کا غم
ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ تمام امت مسلمہ کا فرض ہے کہ شام کی جنگ کا کوئی
حل ضرور نکالیں اور یہ صرف متفقہ فیصلوں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے پاکستان ایک
اسلامی جمہوریہ ملک ہے بلکہ مملکت اسلامیہ کا ایک ایٹمی ملک بھی ہے اس لئے
اسے نہ صرف اپنے ملک کے معمالات بلکہ تمام امت اسلامیہ کے ممالک کے لئے
آواز اٹھانی چاہیئے ہمیں تماشائی نہیں بننا چاہیئے بلکہ شام میں جاری جنگ
کو جلد از جلد منطقی انتقام تک پہنچانا چاہیئے تا کہ وہاں پھر دوبارہ امن و
سکون ہو اور ایک عام شہری بھی سکھ کا سانس لے سکے۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ
ملک شام پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور وہاں پھر سے زندگی واپس لوٹ
آئے اور جو شہید ہو چکے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ |