وطن عزیزمیں ایوانِ بالایعنی سینیٹ کے انتخابات بخیروخوبی
انجام کوپہنچے خیرکالفظ اس لئے استعمال کیاجارہاہے کہ یہاں اکثرالیکشنز خون
خرابے سے بھرپورہوتے ہیں بلدیاتی انتخابات ہوں ،عام انتخابات ہوں یاکوئی
ضمنی الیکشن ہولڑائی مارکٹائی اورخون خرابے کاخدشہ ہروقت موجودرہتاہے اورجس
الیکشن میں خون خرابہ نہ ہو،ہوائی فائرنگ اورلڑائی جھگڑے کے بغیرہوں
انتخابات کے اس انعقادکوبخیروخوبی انعقادکہاجاتاہے حالانکہ یہاں کسی بھی
الیکشن کی کوئی خوبی نہیں ہوتی اورتمام الیکشنز کسی بھی قسم کی خوبی سے
خالی ہوتے ہیں جب سے انتخابات میں پیسے کے عمل دخل کاآغازہواہے تب سے
ہرالیکشن کی خوبی چھِن چکی ہے بلدیاتی انتخابات میں کوئی کونسلربھی دس بیس
لاکھ روپے خرچ کرکے اس لئے کونسلربننے کی کوشش نہیں کرتاکہ وہ عوام کی خدمت
کرے گایاعوامی مسائل کواعلیٰ حکومتی ایوانوں تک پہنچائے گابلکہ اس کے پیش
نظردس لاکھ روپے خرچ کرکے بیس تیس لاکھ کماناہوتاہے کوئی ایم پی اے کوئی
ایم این اے یاسینیٹرلاکھوں کروڑوں اوراب تواربوں روپے خرچ کرکے اس لئے کرسی
کے پیچھے دیوانہ وارنہیں بھاگتاکہ وہ عوامی خدمت کے ذریعے نیک نامی کمائے
گابلکہ پیش نظروہی ایک ہی نامرادچیزپیسہ ہوتاہے اب تویہ قوم پیسے کی اس
قدردیوانہ بن چکی ہے کہ اسکے حصول کیلئے مذہب ،خدااوررسول کے نام کوبیچنے
سے بھی احترازنہیں کیاجاتاسینیٹ کے حالیہ الیکشن کااگرجائزہ لیاجائے تواس
میں پیسے کاعمل دخل اورفراوانی دیکھی گئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اگرچہ
ایک طرف ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کاواویلاکیاجاتارہاتودوسری جانب انہی سیاسی
جماعتوں نے ایسے امیرکبیراورمالدارشخصیات کوٹکٹ سے نوازا جن کاسیاست ،جمہوریت
یاعوامی خدمت کے حوالے سے کوئی ریکارڈنہیں بلکہ ایسے لوگوں کوبھی ٹکٹ جاری
کئے گئے جوصرف ’’کاروبار‘‘ جانتے ہیں اوردولت و پیسہ ان
کااوڑھنابچھوناہوتاہے یہ وہ لوگ ہیں جونوٹوں کے تکئے پرسررکھ کرسونے کی
ناکام کوشش کرتے ہیں اور انکے بینکوں سمیت تجوریاں روپوں سے بھری پڑی ہیں
انہی پیسوں کی برکت سے مولاناگل نصیب جیسے نظریاتی اورصاف ستھری شہرت کے
حامل سیاسی کارکن کوناکامی کاسامناکرناپڑتاہے جبکہ طلحہ محمودکی جھولی
ووٹوں سے بھرجاتی ہے ہزاروں لاکھوں نظریاتی کارکن ٹکٹ کاصرف خواب ہی دیکھتے
رہتے ہیں جبکہ اعظم سواتی جیسے سینیٹربن جاتے ہیں ایسی بہت سی مثالیں
موجودہیں جن میں اہل لوگ پارلیمنٹ تک پہنچنے کے سپنے دیکھ کرزندگی بِتادیتے
ہیں جبکہ ’’منزل انہیں مل جاتی ہے جوشریک ِسفرنہیں ہوتے‘‘ ہماری قومی ،صوبائی
اسمبلیاں اوربلدیاتی ادارے ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جن کی واحد خوبی
دولت ہے سینیٹ کے ان انتخابات میں بھی ہمارے ہاں جمہوریت کاصرف نام استعمال
کیاگیااوراس ’’مقدس‘‘ نام پرایسے لوگوں کوریاست کے سب سے بڑے ایوان کارکن
بنادیاگیاجوناتوقانون سازی کاکوئی تجربہ رکھتے ہیں اورناہی ان کانظریات سے
کوئی تعلق ہے پہلے توہمارے ہاں ایسے لوگ سینیٹ سے دوررہتے تھے مگرگزشتہ
ڈیڑھ دوعشروں سے یہی لوگ اسمبلیوں اوربلدیاتی اداروں کے بعد سینیٹ میں بھی
پہنچناشروع ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ کوسینیٹ کی جانب سے
منظورکردہ قانون مستردکرناپڑتاہے جبکہ سینیٹ سے اسکے خلاف کوئی آواز اٹھتی
ہے ا ورناہی مزاحمت سامنے آتی ہے اگریہاں اہل لوگ موجودہوتے تو ایوانِ
بالاسے ایساقانون منظورہی کیوں ہوتاجسے عدلیہ مستردکرتی قانون سازادارے کی
قانون سازی مستردہونامقامِ حیرت ہے اس ملک کے تقریباً تمام ایوان اب
جمہوریت کے نام پرمنڈیاں بن چکی ہیں جہاں جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہوتاہے
وہی زیادہ کمائی بھی کرتاہے ملک ،قوم ،قانون ،جمہوریت اورآئین اب قصہء
پارینہ بن چکے ہیں اوران اعلیٰ ’’نوادرات‘‘کانام محض تبرک کیلئے استعمال
کیاجارہاہے اس الیکشن میں اگرچہ مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی پارٹی بن کرابھری ہے
مگرلگتایہی ہے کہ مقتدرقوتوں کی ناراضگی کی بناء پرسینیٹ کاچئیرمین کسی
اورجماعت کابن جائیگایہاں بھی پیسے کے عمل دخل کونظراندازنہیں کیاجاسکتاجس
کے پاس پیسوں کی جتنی بڑی بوری ہوگی اور خرچ کرنے والادل ہوگاوہی پارٹی
کامیابی سمیٹے گی اوراس کانامزدکردہ شخص ملک کے سب سے بڑے ایوان کاہیڈبنے
گا آزادسینیٹرزکاکرداراہمیت اختیارکرگیاحالانکہ سینیٹ میں آزادامیدوارہونے
ہی نہیں چاہئے اگراعلیٰ عدلیہ سیاسی محاذآرائی کی بجائے سینیٹ سمیت تمام
الیکشنزمیں پیسے کے عمل دخل اورآزادارکان کی آمدکوروکنے کی کوشش کرتی توان
فیصلوں کوعوامی پذیرائی ملنابھی یقینی تھااس ملک کے خانماں بربادعوام گزشتہ
سترسالوں سے اسی توقع کے ساتھ ہرصبح آنکھ کھولتی ہے کہ شائدآج کادن انکے
چھینے گئے حقوق کی واپسی کیلئے اچھادن ہوگامگرہرگزرتے دن کے ساتھ مایوسی
میں اضافہ ہورہاہے ناہی جمہویت عوام کوانکے حقوق دلاسکی ،ناہی آمریت زخموں
پہ مرہم رکھنے میں کامیاب ہوئی اورناہی نظام انصاف عوام کوانصاف دینے میں
کامیابی سمیٹ سکی ہرادارہ اپنے اپنے دائرۂ اختیارسے نکل کردوسرے کے کام میں
مداخلت کیلئے ادھارکھائے بیٹھاہے کبھی فوج کوجمہوریت میں کیڑے نظرآناشروع
ہوجاتے ہیں تووہ اقتدارپرقبضہ کرلیتی ہے توکبھی عدلیہ کوعوام کے منتخب کردہ
لوگوں میں سسلین مافیااورڈان نظرآناشروع ہوجاتاہے جب تک اس ملک میں عوامی
رائے کوعزت نہیں دی جاتی جب تک عوام کی مرضی اورمنشاء کواہمیت نہیں دی جاتی
جب تک ہرسطح کے انتخابات سے پیسے کاعمل دخل ختم نہیں کیاجاتا، تمام
انتخابات میں شفافیت نہیں لائی جائیگی ، سیاسی جماعتوں کے اندرخاندانی
سیاست کاخاتمہ نہیں کیاجائیگا، سیاسی جماعتوں کے اندرحقیقی جمہوریت نہیں
لائی جائیگی، نظریاتی اورمخلص سیاسی کارکنوں کوآگے آنے کے مواقع دستیاب
نہیں ہونگے، جمہوریت کے نام کی بطورتبرک استعمال کوروکانہیں جائیگا،
جمہوریت کے حقیقی روح پرعملدرآمدنہیں کرایاجائیگا،سیاستدان جمہوریت
کوخودپرلاگونہیں کرینگے،صبروتحمل اوربرداشت کے روئیے نہیں اپنائے
جائینگے،محلاتی سازشیں ختم نہیں ہونگیں ،ہرحکومت کے جانے کی تاریخیں دینے
کی روایت ختم نہیں ہوگی ،کبھی فوج اورکبھی عدلیہ کوحکومت چلانے کے دورے
نہیں پڑیں گے اورجب تک حقیقی عوامی نمائندوں کوتمام حکومتی ایوانوں تک
رسائی میں آسانی فراہم نہیں کی جائیگی ناہی یہ ملک دنیامیں نام کماسکتاہے
اورناہی عالمی برادری میں عزت وتوقیرکامستحق بن سکتاہے پیسے کے بل بوتے
پرملکی ایوانوں میں براجمان قبضہ گروپ کونکال باہرکرناہوگاعوام کی رگوں سے
خون کے قطرے نچھوڑنے والوں سے ایوان خالی کرانے ہونگے ملک کی قسمت سے
کھیلنے والوں کاراستہ روکناہوگا پاکستان مزیدکسی مہم جوئی کامتحمل نہیں
ہوسکتاجس ملک کے چاروں طرف دشمنوں کابسیراہواوراسکے گردگھیراتنگ کرنے والے
سات سمندرپارسے ڈوریاں ہلارہے ہوں اس ملک میں عوامی راج کیلئے راستے
ہموارکرنے کی ضرورت ہے اقتدارحقیقی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہوگاتوبین
الاقوامی چیلنجوں سے نبردآزمائی بھی سکتی ہے اورملک حقیقی معنوں میں اسلام
کاقلعہ بھی بن سکتاہے سینیٹ کے حالیہ انتخابات روایتی انتخابات تھے اوران
سے کسی تبدیلی یاانقلاب کی توقع اورامیدرکھناکارِ عبث ہے اسکے باوجودسینیٹ
الیکشن کابروقت انعقادملک اورجمہوریت کی تسلسل کیلئے نیک شگو ن ہے ۔
|