جانے کیا بات ہے کہ ریاستی ڈھانچہ چلتے چلتے لڑکھڑاجاتا
ہے۔جانے اس کی بنیادیں اتنی کمزور کیوں ہیں کہ کوئی ایک واقعہ کوئی ایک
سانحہ اسے لڑکھڑادیتاہے۔ریاست کو چلانے والوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے
ہیں۔اگرکوئی تدبیر کی بھی جاتی ہے تو کارگر نہیں ہوپاتی۔ اس قدر ادھورہ
نظام ہے کہ ہم کسی بھی بحران کے آگے بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ہمارے
معاملات زیادہ تر وقت کے ہاتھوں طے ہوتے ہیں۔ہماری نااہلی ہمیں بار بار بے
بسی کی غنودگی طاری کرواتی ہے۔ہمارے معاملات ہواکے دوش پہ طے ہوتے ہیں۔ان
کے طے ہونے میں ہمارا کوئی کمال کم ہوتا ہے قدرت کا ہاتھ زیادہ
رہا۔نالائقیوں نے ریاست کی بنیادیں اتنی کھوکھلی کردی ہیں۔کہ ہر سال چھ
مہینے بعد ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
سینٹ کے الیکشن ہوچکے مگر لگ یہی رہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی
ہیں۔امتحان سے گزرنے والے تمام لوگ اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سینٹ الیکشن
سے قبل کھڑے تھے۔پچھلے کئی مہینوں سے سینٹ سے مطلوبہ نتائج پانے کی جو سعی
جاری تھی۔پوری نہ ہوسکی۔حیر انگی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ مقابلے کا یہ
راؤنڈ جیتنے والے سابق وزیر اعظم نوازشریف بھی ششدر ہیں۔اگر چہ سینٹ ایکشن
مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے حجم کے حساب سے مناسب نتائج دے گئے۔مگر جو
گھمسان کا رن پچھلے کچھ مہینوں سے پڑا ہواتھا۔اندازے لگائے جارہے تھے کہ
نوازشریف کاکوئی نام لینے والا سینٹ میں بچ نہ پائے گا۔یہ نتائج نوازشریف
کو بالکل ایسے ہی حیران کررہے ہیں جیسے لودھراں کے نتائج نے کیا۔مخالفین کی
جانب سے جتنازور لگایا ؎جاسکتاتھا۔لگایا گیا۔مگر نتیجہ صفر نکلا۔بالکل صفر
پنجاب سے سوائے ایک نشست کے تمام نشستوں پر نوازشریف کا نام لینے والے جیت
گئے۔الیکشن نتائج میں کچھ اپ سیٹ ہوئے ضرور مگر صرف اتنے کہ طاقت کا توازن
نہ بگڑ پایا۔نوازشریف کی جماعت کو سینٹ میں اکثریت ملنا تھی۔مل چکی۔جو
معجزے پی پی نے بلوچستان اور کے پی میں دکھائے وہ بھی طاقت کے توازن کو
بگاڑنے میں ناکام رہے۔صورت حال یہ ہے کہ چئیرمین سینت کے عہدے کے لیے پی پی
پردروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ایک طرف مسلم لیگ(ن) اور اس کی اتحادی
جماعتوں کو صرف چھ اراکین کی مذید ضرورت ہے۔یہ اتحادی شروع سے نوازشریف کے
ساتھ ہیں۔دوسری طرف پی پی کو اپنے بیس اراکان کے ساتھ مذید چونتیس اراکین
کی حمایت درکار ہے۔اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی یہ ٹارگٹ پورا کرنے
سے معذور ہیں۔سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ نوازشریف کی جماعت کے اتحادیوں
کو مائل کیا جائے جو کہ ذرا مشکل کام ہوگا۔اپوزیشن کی بعض جماعتیں بھی پی
پی کے ساتھ چلنے سے گریزاں ہیں۔بالخصوص جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سے
تعاون ملنا ناممکن ہے۔ متحدہ کی طرف سے بھی جو تلخ بیانی سامنے آئی ہے۔یہاں
سے بھی زراری صاحب کے لیے حمایت پانا آسان نہ ہوگا۔
پی پی کے لیے سینٹ کے الیکشن کسی اپ سیٹ سے کم نہیں۔زراری صاحب مقتدر حلقوں
کے اعتمادکے بل بوتے پر اگلی حکومت پانا چاہتے تھے۔مگر جس قدر کمال دکھانے
کازراری صاحب نے وعدہ کررکھا تھا۔نہ دکھایا جاسکا۔نوازشریف کو نشان عبرت
بنانے کی تمنا رکھنے والوں نے زرراری صاحب کو سینت میں کمال دکھانے کا ٹاسک
دیا تھا۔بھٹو کے داماد کی فنکاری سندھ اور کے پی کے میں چلی مگر نوازشریف
کے گڑھ سے وہ خالی ہاتھ لوٹے۔مقتد رحلقوں کے لیے زراری صاحب زیادہ
کارآمدثابت نہیں ہوسکے۔ نوازشریف کے آگے زراری صاحب کی دال نہ گلنا پی پی
کو میدان سے آؤٹ کرنے کا سبب بن سکتاہے۔
چئیرمین سینٹ کو ن بنے گا؟ یہ توسوال ہے ہی۔کچھ سوالات اور بھی ہیں مثلا
عام انتخابات کے نتائج کیا ہونگے؟ کون سی جماعت اگلی حکومت بنائے گی؟ کون
اپوزیشن میں ہوگی؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں۔مگر جواب نہیں مل پارہا۔یہاں
معاملات اکثر اس کروٹ پر نہیں بیٹھتے جہاں انہیں بیٹھنا چاہیے۔یہاں کامیاب
کو ناکام بنانے کی پریکٹس ہوتی ہے۔یہاں اہل کو نااہل بنانے کی کاریگر ہوتی
رہی ہے۔ایسے میں کل کیا ہوگا۔اس کا اندازہ آسا ن نہیں۔ یہاں معاملات کبھی
بھی توقع کے مطابق نہیں چلے۔ایک چھوٹاسا واقعہ ہماری سمت بدل دیتاہے۔سینٹ
کے الیکشن کے نتائج نے بھی اب تک کی ساری کی ساری منصوبہ سازی کو بے کار
کردیا۔اب نئی منصوبہ بندیا ں ہونگی۔نئے جال بچھائے جائیں گے۔ہمارا کل کیسا
ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ہماری ڈنگ ٹپاؤپالیسیاں سینٹ الیکشن نے
روند کررکھ دیں۔ہماری بنیادیں جانے کیوں اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہیں کہ ایک
معمولی واقعہ ریاست کو پٹری سے اتاردیتاہے۔ |