سہراب الدین فرضی انکاونٹر معاملے میں سپریم کورٹ کی واضح
ہدایت کے باوجود کہ شروع سے آخر اس کی سماعت ایک ہی جج کرے گا تبادلوں کا
لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ جسٹس ریوتی دیرے نے میڈیا پر عائد پابندی ختم کرتے
ہوئے سی بی آئی کی سرزنش کی تو انہیں ہٹادیا گیا۔ یہ پردہ داری حیرت انگیز
تھی اس لیے کہ ملزم عوام کی نظروں کے سامنے رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے کھلی
عدالتی چارہ جوئی محفوظ ترین ہوتی ہے۔ وہ بند عدالت میں بھی کیمرہ بحث کی
استدعا کرتا ہے مگر اس کے برخلاف یہاں ملزم عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ
ذرائع ابلاغ کو سماعت کی اطلاعات بہم پہنچانے سے روکا جائے اور ٹرائل کورٹ
اس احمقانہ مطالبے کو تسلیم کرکے موافق ا حکامات بھی جاری کردیتا ہے۔اسے
منسوخ کروانے کے لیے عدالت عالیہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور تب جاکر راحت
ملتی ہے۔آگے چل کر جب جج جے ٹی اتپتامیت شاہ پر سوال اُٹھاتے ہیں تو ان کو
بھی ہٹادیا جاتا ہے۔ ان کے بعد مقرر ہونے والے جج لویا سختی کرتے ہںر تو ان
کی مشکوک حالات موت ہو جاتی ہے ۔بقول افتخار راغب؎
رکھ کے کاندھوں پہ اعتماد کی لاش
خون آلود لوٹنا تھا مجھے
جج بی ایچ لویا کی موت پرتحسین پوناوالا اور صحافی بندھوراج سنبھاجی لونے
نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالتِ
عظمیٰ میںاسمقدمہ کی سماعتجسٹس ارون مشرا کررہے تھے مگر جسٹس جے
چلمیشور،جسٹس رنجن گگوئی ،جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس جوزف کورین کے اعتراض
پروہازخود کو الگ ہوگئےاب چیف جسٹس دیپک مشرا سنوائی کررہے ہیں ۔ جسٹس مشرا
کے سامنے ملزمین کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے سی بی آئی پر تہمت لگائی کہ
اس کا م جھوٹے الزامات لگانا ہے۔ اس پرچیف جسٹس نے سی بی آئی سے سوال کیا
کہ کیا یہ الزام درست ہے؟ یہ سن کر جیٹھ ملانی بغلیں جھانکنے لگے اور بولے
ان کی مراد حالیہ سی بی آئی سے نہیں بلکہ پرانی سی بی آئی سے ہے ۔یہ
دلیلاگر مان لی جائے کہ مرکزی تحقیقی ادارہ اربابِ اقتدار کے زیر اثر بے
قصوروں کو پھنساتا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اقتدار کے خوف سے
مجرموں کوبچاتا بھی ہےاور فی الحال یہ ساری مشقت امیت شاہ کو حفظ و امان
فراہم کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔
مرکزی تفتیشی ادارے (سی بی آئی ) نے جو فرد جرم داخل کی تھی اس کے مطابق
امیت شاہ اور ان کے ساتھیوں پر سہراب الدین اور اس کی اہلیہ کوثر بی کو
پولس کے ذریعہ اغواء کرواکے قتل کردینے کا سنگین الزام ہے اور اس قتل کے
چشم دید گواہ پرجا پتی کے قتل میں بھی شاہ جی ماخوذ ہیں۔ سی بی آئی کے
مطابق سہراب الدین احمد آباد شہر میں مقیم ایک معمولی جرائم پیشہ آدمی
تھا جس کونومبر ۲۰۰۵ میں حیدرآباد سے واپس ہوتے ہوئے گجرات پولس نے بس سے
اتار کر فرضی انکاونٹر میں ہلاک کردیا ۔ گجرات کی پولس اس کو لشکر طیبہ کا
دہشت گرد کہتی ہےلیکن اگر یہ الزام درست تھا تو اس کو گرفتار کرکے عدالت
میں پیش کرنے کے بجائے قتل کیوں کیا گیا؟ اس وقتگجرات میں نریندر مودی کی
دیش بھکت سرکار تھی اورامیت شاہ وزیر داخلہ تھے۔پولس اور انتظامیہ ان کے
قبضۂ قدرت میں تھا اس لیے سہراب الدین کو کیفرِ کردار تک پہنچانا بہت
آسان تھا ۔ ایسے میں انکاونٹر کسی اور سبب سے موت کے گھاٹ اتارنے کی گواہی
دیتا ہے۔ وجہ جو بھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ۲۰۰۷ کا انتخاب مودی جی نے اسی
بنیاپرجیتا تھا ۔
سی بی آئی کی ۲۰۱۳ میں داخل کردہ ۳۰ ہزار صفحات پر مشتمل کی فرد جرم کے
مطابق امیت شاہ نے پولس افسران کی مدد سے ایک بھتہ خوری کا گروہ بنا رکھا
تھا جس میں سہراب الدین شامل تھا ۔ سی بی آئی نے اس الزام کے حق میں کئی
شواہدپیش کیے تھے۔ راجستھان کے ماربل لابی کے ایماء پر یہ اقدام کیا گیا۔
سی بی آئی کے مطابق قتل کے بعد ۶ یا ۷ کروڈ روپئے کی خطیر رقم بلڈرس اور
دیگر تاجروں سے وصول کی گئی اور اس میں سے سہراب الدین کے بھائی رباب الدین
کو مقدمہ واپس لینے کے لیے ۵۰ لاکھ ر وپئے کی پیشکش بھی کی گئی۔سہراب الدین
کی ہم سفر کوثر بی کو اغواء کرلیا گیا اور ان کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ غالب
گمانیہ ہے کہ ان کو بھی ہلاک کرکے لاش جلادی ۔ سہراب الدین کا ساتھی پرجا
پتی انکاونٹر کا چشم دید گواہ تھا ۔ آگے چل کرپرجاپتی کو گرفتار کرکے جیل
بھیج دیا گیا اور راجستھان سے آتے ہوئے اس کا یہ کہہ کر انکاونٹر کردیا
گیا کہ وہ فرارہونے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے بعد امیت شاہ کو استعفیٰ دینا
پڑا اور انہیں تین ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ ۲۰۱۴ میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی اور امیت
شاہ کے پارٹی کی کمان سنبھالنے کے بعد ان کو بری کرنے کے لیے مبنی بر تشدد
سازشوں کا نیا سلسلہ چل پڑا۔ کانگریس کے رہنما اور سابق وزیر قانون کپل سبل
نے اس کا انکشاف کرتے ہوے آزادانہ جانچ کا مطالبہ کیا ۔ اس دوسرے سلسلے کا
اولین شکار جج برج موہن لویا تھے۔ آپ ۲۰۱۱سے ایڈیشنل سیشن جج تھے، انہیں
فروری ۲۰۱۴ میں ممبئی ہائی کورٹ کے اندر جیوڈیشیل رجسٹرار مقرر کیا گیا
تھا۔ چار مہینوں کے اندر ان کا تبادلہ پھر سیشن کورٹ میں ہوا اور ان کو
سہراب الدین معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا جج مقرر کر دیا گیا۔
عام طور پر رجسٹری میں تقرر کے بعد اتنے کم وقت میں واپس نہیں بھیجاجاتا ۔
اسی طرح کی بے ظابطگی کا مظاہرہ پیش رو جج جےٹی اتپت کے ساتھ بھی ہوئی۔ ان
کا تبادلہ اچانک ۳ سالہ مدت کی تکمیل سے پہلے کردیا گیا تھا۔
اکتوبر ۲۰۱۴کے دوسرے ہفتہ میں جج لویا نے وکیل شری کانت کھاندلکر اور ضلع
جج پرکاش تھومبرے کے ذریعہممبئی ہائی کورٹ کے وکیل ستیش یوکے سے رابطہ کیا
تھا۔وکیل یوکے، کھاندلکر اور تھومبرے کے ساتھ ویڈیو کال میں جج لویا نے نام
لے کر الزام لگایا تھا کہ نہ صرف ممبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس موہت شاہ
بلکہ ان کے ساتھ جسٹس بی آر گوائی، وزیر اعلی مہاراشٹر فردنویس اور ناگپور
کے سوبھانشو جوشیان پر اپنی پسند کا فیصلہ سنانے کے لیے دباؤ بنا رہے
ہیں۔جج لویا کا دعوی تھا کہ ان کو ایک مسودہ دے کراس کی بجاآوری کے لیےکہا
گیا ہے۔ اس مسودے کی نقل ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج تھومبرے کے پاس تھی جس کی بہت
بڑی قیمت انہوں نے چکائی ۔
جج لویا کی پراسرار موت سے تین ہفتہ قبل تھومبرے اور ستیش یوکے ایک سینئر
وکیل سے ملنے کے لئے نئی دہلی گئے تھے مگر جب ان سے کہا گیاکہ اس معاملے کو
عدالت میں نہیں اٹھایا جا سکتا تو مایوسی کی حالت میں وہ ۹نومبر کو ناگپور
لوٹ گئے۔ اس کے بعد ۳۰نومبر کو جج لویا ناگپور میں ایک شادی کی تقریب میں
شرکت کے لئے گئے اور اگلے دن ان کی موت ہو گئی۔ جج برج موہن لویا ایک
باضمیر انسان تھے اور امن و انصاف کا خواب سجاتے تھے اور ظلم و جبر سے
پریشان ہوجاتے تھے ۔اب ان کے بے یارو مددگار اہل خانہ طوطا چشمی عدلیہ سے
کہہ رہے ہیں ؎
کبھی تو آؤ کبھی تو بیٹھو کبھی تو دیکھو کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
سہراب الدین ، کوثر بی اور پر جا پتی کی طرح جج برج موہن لویا کی موت
پراسرار حالات میں ہوئی ۔ جج لویا کو دی گئی پولس سیکورٹی بغیر کسی معقول
جواز کے ممبئی میں ۲۴ نومبر ۲۰۱۴ کو واپس لے لی گئی۔ ناگپور میں انیں
سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ ممبئی سے ناگپور کے درمیان ٹرین کا سفرکا
ریکارڈ غائب کردیا گیا نیز جج برج موہن لویااور سری رام مدھو سودن موڈک کی
تفصیل ناگپور کے وی آئی پی گیسٹ ہاؤس یعنی ’روی بھون‘ میں کے رجسٹر
میںدرج نہیں کی گئی؟صرف سری کانت کلکرنی کاناملکھا گیا۔سب سے زیادہ
تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر تمرام نے جج لویا کے اہل خانہ کو خبر کیے بغیر
پوسٹ مارٹم کی کارروائی شروع کردی؟ جج لویا کے وسیرہ کا نمونہ فورنسک جانچ
کے لیے دہلی روانہ کیا گیا اور ماہرین نے تفتیش کے بعد حرکت قلب کے بند
ہونے کی وجہ سے موت کے امکان کو خارج کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے پوسٹ مارٹم
کی رپورٹ مشکوک ہے۔ جج لویا کی بہنیں جن میں سے ایک استانی اور ایک ڈاکٹر
کے بیان پر عدالت نے از خود نوٹس لے کر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
قتل و خون کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ جج لویا جس وکیل شری کانت
کھاندلکر کے رابطے میں تھے ان کی موت ناگپور کی ضلع عدالت کی آٹھویں منزل
سے گرکر ہوگئی اور سبکدوشضلع جج پرکاش تھومبرے جن سے جج لویا نے تعاون
مانگا تھا ٹرین میں اوپر کی برتھ سے گر کر ہلاک ہوگئے۔ اس معاملے کے ایک
گواہ وکیل ستیش یوکےپر بھی جان لیوا حملہ ہوچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے۶ افراد
کی غیر فطری اموات کے بعد بھی کیا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے؟ان بے ضابطگیوں پر
ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے ایم تھپسے نے الزام لگایا کہ اس نازک
معاملے کے گواہ دباؤ میں ہیں۔نومبر ۲۰۱۷ سے سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں
جاری سماعت کے دوران ابتک ۳۰گواہ اپنے بیان سے مگر چکے ہیں۔ گواہوں کے
پلٹنے نے انہیں بولنے پر مجبور کیا کیونکہ یہ غیر فطری امر ہے۔
ماضی میں جج تھپسے نے ممبئی ہائی کورٹ میں اس معاملے سے جڑی ۴ ضمانت عرضی
پر سماعت کی تھی۔ انہوں نے ڈی جی ونجارا، مکیش پرمار (ڈپٹی ایس پی، گجرات
اے ٹی ایس) این کے امین (ڈپٹی ایس پی، گجرات کرائم برانچ) اور بی آر چوبے
(سب انسپکٹر، گجرات پولیس) کی ضمانت عرضی پر سماعت کے بعد ونجارا اور امین
کی عرضی منظور کرتے ہوئے باقی دونوں عرضیاں خارج کر دی تھیں۔ اب سارے رہا
ہوچکے ہیں بلکہ گجرات حکومت ان کی ملازمت کو بھی ترقی کے ساتھ بحال کردیا۔
اس پر عدالتِ عظمیٰ میں اعتراض کیا گیا تو سرکار نے رسوا ہوکر ان کا تقرر
منسوخ کردیا۔ جسٹس تھپسے اس معاملے میں ہائی کورٹ کی جانب سے ازخود سماعت
کے طالب ہیں۔ اس لیے کہ معاملے کےکئی پہلو عقل عام کے خلاف ہیں۔ ان
اعتراضات کو نظرانداز کرنا عدلیہ پر کلنک ہے۔
جج تھپسے کے مطابق اگر’’ آپ یہ تسلیم کرتےہیں کہ اس کا (سہراب الدین) اغوا
ہوا تھا۔ آپ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ فرضی انکاؤنٹر تھا۔ آپ کو اس بات پر
بھی اعتماد ہے کہ اس کو غیرقانونی طریقے سے فارم ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ پر
آپ یہ نہیں مانتے کہ اس میں ونجارا (اس وقت کے ڈی آئی جی، گجرات)، دنیش ایم
این (اس وقت کے ایس پی، راجستھان) یا راج کمار پانڈین (اس وقت کے ایس پی،
گجرات) اس میں شامل تھے۔ کیا کسی حوالدار یا انسپکٹر سطح کےپولیس اہلکار کا
سہراب الدین سے رابطہ ہو سکتا ہے؟ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک سب انسپکٹر
سہراب الدین کو حیدر آباد سے اٹھا کر دوسری ریاست میں لے آیا؟ اور اس بنیاد
پر آپ کہتے ہیں کہ دونوں ایس پی (پانڈین، دنیش) کے خلاف کوئی معاملہ نہیں
بنتا‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ سینئر افسران کی طرفداری کی جارہی ہے۔اس
معاملے میں گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب
چند کٹاریہ، گجرات اور راجستھان پولیس کے کئی اعلیٰ افسروں سمیت ۳۸ ملزم
تھے، جن میں سے ۱۵ بڑی مچھلیوں کو بری کیا جا چکا ہے۔میزانِ عدالت میں بھی
اگرڈنڈی ماری جائے تو انصاف کی توقع کس سے ہو ؟
امیت شاہ فی الحال ضمنی انتخابات کے نتائج سے فکرمند ہوگئے ہیں ۔۲۰۱۴ کی
کامیانی کے بعد وہ سوچتے تھے آئندہ ۱۵ سال تک مودی جی وزیراعظم رہیں اور
پھر ان کو اپنا ولی عہد بناکر سبکدوش ہوجائیں گے مگرجیسے جیسے ۲۰۱۹
کاانتخاب قریب آرہا ہیں مبصرین کو یقین ہوتا جارہا ہے کہ اب کی بار بی جے
پی کو کسی صورت اکثریت نہیں ملے گی ایسے میں اگر وہ مرتے پڑتے ۲۵۰ تک
آجاتی ہے تو مودی جی دوبارہ دوسروں کے تعاون سے وزیراعظم بننے کا دعویٰ
کرسکتے ہیں لیکن اگر اس کی گاڑی ۲۲۰ یا اس سے بھی پہلے رک گئی تو وہ سارے
حلیف جن کو انہوں نے اپنے مدت کار کے دوران ناراض کیا ہے انتقام لینے پر تل
جائیں گے اور بی جے پی کو اپنا رہنما بدلنے پر مجبور کریں گے۔
بی جے پی کے اندربھی مودی جی کے مخالفین کم نہیں ان سب کی اچانک بن آئے گی
، جب مودی ہی ٹھکانے لگ جائیں گے تو شاہ جی کو کون پوچھے ان کے برے دن اپنے
آجائیں گے اور ان کو پرشانت بھوشن کی رائے سب سے زیادہ اچھی لگنے لگے گی ۔
جولائی ۲۰۱۴ میں جب امیت شاہ ضمانت پر تھے اور انہیں زیڈ پلس سیکیورٹی
نہیں ملی تھی تو پرشانت بھوشن نے کہا تھا شاہ جی کے لیے سب سے محفوظ مقام
جیل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک شاہ کے جیل چلے جانے سے نہ جانے کتنے لوگ محفوظ
ہوجائیں گے ؟ زنداں کے وہ ساتھی جنہیں شاہ جی کسی زمانے میں تہاڑ جیل کے
اندر چھوڑ کے آگئے تھے آج بھی ان کے لیے یہ شعر پڑھ رہے ہیں ؎
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
|