| 
															 
															مراسلہ:حمیدہ گل محمد، 
															وفاقی اردو یونیورسٹی 
															کراچی 
															ہم تو پودے ہیں درخت 
															تو بننے دو 
															پھر کہیں ٹھکانے 
															لگانے کی بات کرنا 
															جاویدچوہدری بے شک 
															نامور صحافی ہیں مگر 
															انھوں نے ایک کالم "جونیئر 
															صحافیوں کے لئے"لکھا 
															جس میں انہوں نے 
															صحافت میں آنے والے 
															نئے لوگوں کو بتایا 
															ہے کہ کس طرح جونیئر 
															صحافی ایک مانا ہوا 
															صحافی بن سکتا ہے مگر 
															ایک نئے صحافی کے لئے 
															جو بعض چیزیں انہوں 
															نے اپنے کالم میں 
															لکھی وہ مجھے ہضم 
															نہیں ہوئی! تو سوچا 
															کیوں نہ کالم پر کچھ 
															تحریر کردوجاوید 
															چوہدری کا کالم تین 
															پیراگراف پر مشتمل ہے 
															پہلے پیراگراف میں 
															انہوں نے ایک جگہ کہا 
															کہ آپ دفتر یابک 
															اسٹالز پر میگزین کی 
															ورق گردانی کریں 
															اورآپ کو جو مضمون 
															اچھا لگے آپ موبائل 
															سے اس کی تصویر کھینچ 
															لیں اور جب فرصت ملے 
															پڑھنا شروع کردیں مگر 
															موصوف کو کون بتلائے 
															کہ بھلا کون سا بک 
															اسٹال والا اس قدر 
															حاتم طائی ہوگا کہ 
															ہمیں تصویریں لینے دے 
															بک اسٹالز والے اگر 
															ہمیں تصویریں نکالنے 
															کی اجازت دیں گے توان 
															کے رسالے،جریدے او ر 
															اخبارات وغیرہ کیا 
															ہمارے فرشتے خریدیں 
															گے یا پھر جنات؟اسی 
															پیراگراف میں انہوں 
															نے غیر جانب داراور 
															جرات کا بھی ذکر کیا 
															ہے بھلا جونیئر صحافی 
															اگر غیر جانب داری 
															اور جرات دکھائے گا 
															تووہ اور اس کا 
															کیریئر دونوں ابتداء 
															میں ہی دفن کردئے 
															جائیں گے یہاں تک کہ 
															میرے شعبہ ابلاغ عامہ 
															کے ایک استادنے مجھے 
															صاف کہہ دیا کہ بیٹا 
															یہ تمھارے کیریئر کی 
															شروعات ہے اگر اس میں 
															ہی اس قدر سچ اور 
															حقیقت کو عیاں کرو گی 
															تو ختم کر دی جاؤ گی 
															اور ان کی بات میں 
															وزن بھی تھا کیوں کہ 
															میرے وطن میں سچ 
															بولنا گناہ ہے پھر 
															بھی میں اتنا سچ تو 
															اپنے آرٹیکل میں لکھ 
															جاتی ہوں کہ اخبار 
															اسے چھاپنا تو دور 
															دیکھنا بھی پسند نہیں 
															کرتے اور کالم کے 
															مصنف تو اسی بات پر 
															اڑے ہیں کہ غیر جانب 
															داری اور جرات کو کسی 
															صورت قربان نہ ہو نے 
															دوپیشہ چھوڑ دو مگر 
															آپ کی غیر جانب داری 
															پر آنچ نہ آئے جرات 
															اور غیر جانب داری سے 
															مجھے اپنا زمانہ یاد 
															آگیا2104ء میں جب کچھ 
															وجوہات کی بناء پر 
															پیرا داخلہ شعبہ 
															ابلاغ عامہ عبدالحق 
															کیمپس میں نہیں ہو 
															پایاتھامیں نے کسی 
															سفارش کا سہارا لئے 
															بغیر اپنی جسارت اور 
															غیر جانب داری سے کام 
															لیا اور داخلہ نہ 
															ہونے کے باوجو د 
															باقاعدگی سے کلاسیں 
															لیں اساتذہ کی طرف سے 
															یہ سننے کو ملا کہ جب 
															تمھارا داخلہ نہیں 
															ہوا تو کیوں آتی ہو 
															کلاسیں لینے طالب 
															علموں کی طرف سے بھی 
															میرا مذاق بنایا گیا 
															کہ بغیر دا خلہ کے 
															آتی ہو کلاسیں لینے 
															بہت فالتو ٹائم ہے 
															تمھارے پاس مگر میرے 
															رب نے جو میرے لئے 
															سوچا تھا وہ ان کے 
															وہم و گمان میں بھی 
															نہ تھاآخر کار میرا 
															داخلہ یہی 2015میں ہو 
															گیا اور آج وہی طالب 
															علم اور اساتذہ میری 
															جسار ت پر رشک کرتے 
															ہیں اور میری عزت بھی 
															کرتے ہیں بتانے کا 
															مقصد یہی تھا کہ جب 
															میرے داخلہ میں جرات 
															و غیر جانبداری پر 
															مجھے تنگ کیا گیا تو 
															آپ خود سوچیں کہ ایک 
															نیا جونیئر صحافی کس 
															طرح ابتداء میں غیر 
															جانب دار اور جسارت 
															سے کام لے سکتا ہے 
															میرا جاوید چوہدری سے 
															صرف اتنا سوال ہے کہ 
															وہ اپنا کیریئر بنانے 
															میں کس حد تک غیر 
															جانب دار رہے اور 
															جرات کا مظاہرہ 
															کیااور بغیر کسی 
															ذریعہ کے کس طرح آگے 
															بڑھے؟یہ ممکن ہی نہیں 
															کہ انسان غیر جانب 
															دار اور جرات کے سنگ 
															ہمیشہ چلے۔  
															 
															دوسرے پیراگراف میں 
															انہوں نے عمران خان 
															کے 2014ء کے دھرنے 
															اور 22اگست کی الطاف 
															حسین کی ٹیلی فونک 
															تقریر کا ذکر کیا ہے 
															کنٹینر کی صحافت کرنے 
															والے صحافیوں کو دو 
															حصوں میں تقسیم کا 
															ذکر کیا ساتھ ہی 
															الطاف حسین کی ناقابل 
															اور اینٹی پاکستان کی 
															تقریر کاذکر تو انہوں 
															نے کردیامگرجرات سے 
															کام لیتے ہوئے اندر 
															کی بات یا راز افشاں 
															کرتے تو بات بنتی پھر 
															اسی پیراگراف میں 
															انہوں نے کہا کہ سزا 
															صرف الطاف حسین کو 
															ملنی چاہے ان کی 
															پارٹی کو نہیں تو وہ 
															کہاں تک اس معاملے 
															میں غیر جانب دار رہے 
															اور پارٹی کے حق میں 
															کتنا کہا یہ کوئی 
															جاوید صاحب سے ہی 
															پوچھے ورنہ حال ہی 
															میں یاسر پیر زادہ نے 
															ایک کالم لکھا ہے "منافق 
															کہیں کے"چوہدری صاحب 
															آپ وہ پڑھیں اورآپ نے 
															اپنے کالم کے توسط سے 
															سیاسی پارٹیز کے 
															ذہنوں میں یہ بات ڈال 
															دی کہ اگر سیاسی 
															پارٹیز پر پابندی لگا 
															دی جائے تو وہ "ملیشیا"بن 
															جاتی ہیں آپ صحافی 
															ہیں آپ کا پیشہ"پیشہ 
															پیغمبری"ہے تو اسکا 
															خیال کریں جہاں تک ہو 
															سکے صحافت برائے امن 
															کا پیغام دیں آپ کی 
															ایک اور بات سے پھر 
															دل کوٹھیس پہنچی آپ 
															نے کہا کہ اگرآپ 
															صحافی ہیں تو جرم اور 
															مجرم کو فوکس کریں آپ 
															جونیئر صحافی کو اگر 
															یہی ہدایات کریں گے 
															تو پھر بھلاکیسے کوئی 
															نیا صحافی سفر آخرت 
															پر نہ جائیں آپ نے 
															ایم کو ایم کے زمانے 
															یا اس کے علاوہ دوسرے 
															معاملات میں کس حدس 
															تک غیر جانب داری کا 
															مظاہرہ کیا تھا کبھی 
															اپنی آپ بیتی بھی 
															کالم کے ذریعہ ہمیں 
															سنائیں یہاں تو 
															پاڑتیز کے ساتھ 
															لواحقین کو بھی ہر 
															دور میں گھسیٹا گیا 
															مگر کوئی کچھ نہ 
															بولاانسان اشرف 
															المخلوقات ہے اور آج 
															تک کئی لوگ گناہ کر 
															کے بھی دندناتے پھر 
															رہے ہیں کوئی پکڑتا 
															کیوں نہیں انہیں !سر 
															اتحاد میں برکت ہے مل 
															باٹ کر بہتی گنگا میں 
															جب سب ہاتھ دھو رہے 
															ہیں پیسہ کمایا جارہا 
															ہے تو پھر کون کس کے 
															خلاف آواز اٹھائے گا 
															؟ہر چھوٹے سے بڑے 
															انسان سے زندگی میں 
															چھوٹے سے بڑا گناہ سر 
															زد ہوجاتا ہے نفرت 
															جرم سے کی جائے مجرم 
															سے نہیں اسی طرح جسے 
															نفرت مرض سے کی جائے 
															مریض سے نہیں۔  
															 
															مولانا رومی نے بجا 
															فرمایا کہ:"تمھاری 
															اصل ہستی تمھاری روح 
															ہے باقی سب ہڈیاں اور 
															گوشت ہے" 
															 
															میرے خیال میں روح 
															غلط ہو ایسا ممکن 
															نہیں آخری پیراگراف 
															میں انہوں نے سیب کو 
															مہرہ بناکر خوبصورت 
															مثال خود ہی پیش کردی 
															اور میری باتوں کی 
															تشریح کردی کہ سیب کا 
															گلا سڑاحصہ کاٹ 
															کرباقی سیب نہ پھینک 
															کر عقل مندی کا ثبوت 
															دیں تو بات وہی آگئی 
															مجرم و مریض پر۔ 
															 
															آخر میں یہی کہوں گی 
															کہ آپ کا بہت بہت 
															شکریہ کہ آپ کی غیر 
															جانب داری اور جرات 
															کی بات نے مجھ میں 
															جسارت پیداکی کہ آج 
															آپ کے کالم پر مجھے 
															تحریر لکھنے کا موقع 
															ملا۔  
   |