اُس کے ایک ہاتھ پہ مہندی تھی اور ایک پر خون۔
"ضرور بھاگ کے شادی کی ہو گی۔ گھر والوں نے مار کر اِدھر پھینک دیا۔"
"کیا پتا دھندہ کرتی ہو، کسی رئیس زادے نے اپنا راز چُھپایا ہو"
"بھائی اغوا کا کیس بھی ہو سکتا ہے، گھروں میں کب بیٹھتی ہیں اب لڑکیاں!"
"ہو نہ ہو کسی آوارہ لڑکے نے محبت کا جھانسا دے کر بھگایا ہے۔ نجانے پیسا
زیور کیا کچھ لے کر فرار ہو گیا۔"
حسبِ عقل اور توفیق جس کے ذہن اور منہ میں جو آرہا تھا بَکے جا رہا تھا۔
اپنے کردار میں اس قدر دلچسپی لیتے مجمعے کے حَبس اور کوڑے کی رنگا رنگ
غلاظت کے بیچ بظاہر بے حرکت و بے جان عورت ذات دھیمی دھیمی سانسوں میں اپنی
بقا کی جنگ لڑ رہی تھی۔ |