سینٹ نتائج اور صحافت

ایک طویل مدت تک یہ شور سننے کو ملا کہ کوئی طاقت ہے جو سینیٹ کا الیکشن روکنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ طاقت مختلف سازشیں چل رہی ہے لیکن بلا آخر تین مارچ کو ہونے والے الیکشن نے ان الزامات کو غلط ثابت کر دیا اور سینیٹ کے پر امن الیکشن کا انعقاد ہوا۔ اب ان الیکشن کے کیا نتائج رہے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ سیاست میں ہر سیاسی جماعت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی چال چلے اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب اس کی سیاسی چال ناکام ہو یا کامیاب کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں نتائج پوری قوم کے سامنے ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ الگ بحث ہے کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کیا چال چلی اور تحریک انصاف نے کیا ن لیگ ایک عدالتی فیصلے کے بعد اپنے امیدواروں کو آزاد کر دیا اور ان آزاد امیدواروں نے کامیاب ہونے کے بعد کس سیاسی جماعت میں جانا ہے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہو گا لیکن یقیناً وہ سب ن لیگ میں شامل ہو نگے کیونکہ ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار ان کے مخلص کارکن ہیں جو نواز شریف کے جانثار ہیں ۔ پنجاب سے الیکشن کے نتائج کی بات کریں تو یہ بات زبان زد عام تھی کہ اپوزیشن ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکتی ہے ۔اس لیے چودھری سرور کا کامیاب ہونا کوئی اپ سٹ نہیں ہاں البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کے متحد نہ ہونے کے باجود چودھری سرور کے کامیاب ہونے سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا ارائیں برداری اپنا امیدوار کامیاب کروانے میں متحد تھی ۔ اپوزیشن جو کہ متحد نہیں تھی اس کے باجود چودھری سرور کا نمبر ون پر آنا حیران کن بات ہے کیونکہ اس بار اپوزیشن واضع تقسیم تھی اور اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی تھی ۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اتحاد کی باتیں سننے کو ملیں اور یکم مارچ کو نہال ہاشمی کی نشست پر تحریک انصاف نے ق لیگ کی حمایت حاصل کی اور ان کے آٹھ ممبران کے ووٹ حاصل کر لیے اگرچہ اس وقت کی تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر ذکا کامیاب نہیں ہو سکی اور ڈاکٹر اسد اشرف جو کہ ن لیگ کے ایک کارکن کی طرح کام کرتے ہیں جماعت میں اﷲ تعالی نے ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ان الیکشن میں میرے لیے کوئی حیران کن بات اس لیے نہیں رہی کیونکہ ماضی میں اسی اسمبلی سے آزاد امیدوار محسن خان لغاری بھی پیپلز پارٹی کے اسلم گل کو شکست سے دوچار کر کے سینٹ میں جا چکے ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودھری سرور جنہوں نے 44 ووٹ حاصل کیے ہیں ان کو ووٹ کس نے کاسٹ کیاکیونکہ تحریک انصاف کو سینٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے تو ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔ اب آسان سا سوال ہے جس کا جواب بھی یقینی بہت آسان ہے کہ جماعت اسلامی کا ایک ووٹ آزاد ممبر احسن ر یاض کا ایک ووٹ اور باقی ووٹ یقیناً ان کو ن لیگ کے امیدواروں کے کاسٹ ہوئے ہیں جیسے میں اپنی ڈائری کے شروع میں تحریر کیا کہ سیاست میں چال چلنا ہر کسی کا حق ہے ایسے ہی اگر چودھری سرور نے ن لیگ کے اراکین کے وو ٹ حاصل کئے ہیں تو یہ ان کی سیاسی چال تھی جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار محمد زبیر گل کو شکست کا سامنا کس طرح کرنا پڑ گیا کیونکہ ن لیگ کی جانب سے امیداروں کے اعتبار سے جس طرح گروپ تشکیل دئیے گئے تھے اس حساب سے رانا محمود الحسن سب سے زیادہ کمزور امیدوار تھے اور محمد زبیر گل کے پاس مطلوبہ ووٹ پورے تھے ن لیگ کے حلقوں میں یہ بات چل رہی ہے کہ محمد زبیر گل کو ایک خاص گروپ نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جو پنجاب کی اعلیٰ قیادت کے قریب ترین گروپ ہے اس سوال کا جواب قارئین کے لیے شائد مشکل ہو سکتا ہے لیکن خود ن لیگ والے بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور ان کا ووٹ رانا محمود الحسن کو کاسٹ ہوا ہے ۔ لیکن یہ سب معاملہ ن لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے اندر اس حد تک ٹوٹ پھوٹ کیوں ہے کیونکہ اگر اس ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک نہ کیا گیا تو عام انتخابات میں جماعت کو گروپ بندی کے نتیجہ میں نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔ اب بات کرتے ہیں ایک ایسے خاص مسئلہ کی جس پر میں کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں شاہد میری یہ باتین کافی لوگوں اور خاص طور پر میری برداری سے تعلق رکھنے والوں کو پسند نہ آئے جس کے لیے میں پہلے ہی معذرت خواہ ہے۔ میری تحریر اور الفاظ کے چناؤ میں کوئی کمی پیشی ہو سکتی ہے لیکن میں سوچ مثبت ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتا جارہا ہے اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ بغیر تصدیق کے نشر کر دیا جاتا اور اس پر بحث اور تبصرہ شروع کر دئیے جاتے ہیں اس کی بہت سے مثالیں موجود ہیں۔۔ ان دنوں سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بھی خبر ہو وہ اخبار یا ٹی وی پر نشر ہونے سے پہلے سوشل میڈیا کی زنیت بن جاتی ہے جو یقیناً اس تیز رفتار دور میں مثبت ہے لیکن سوشل میڈیا کے اس قدر عام ہونے سے بہت سے ناتجربہ کار لوگ میں میدان میں کود چکے ہیں جیسے عید قربان میں موسمی قصاب سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں ایسے ہی آج کل خود ساختہ صحافیوں سے ملاقاتیں ہو جاتیں ہیں جن کا نہ تو کسی ادارے سے تعلق ہوتا ہے اور ان کہ کوئی تجربہ‘ صرف پتہ چلتا ہے کہ یہ جناب کسی ویب ٹی وی میں کام کرتے ہیں یہ ویب ٹی وی کب آیا اس کا ایڈیٹر کون ہے اس میں کون لوگ کام کرتے ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا یہ خود ساختہ صحافی نہ صرف ہماری برادری کو بدنام کرنے کا سبب ہیں بلکہ ایسی ایسی حرکات کرتے ہیں جو ایک صحافت کا طالب علم ہونے کی حییثت سے میں تحریر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہوں۔ لوگوں کو صحافت کا کارڈ بنانے کے لیے ان سے پیسے بٹورنا ان کا شیوہ ہے ۔ ۔ میری سب سے اپیل ہو گی کہ صحافت کی عزت اور وقار کو بحال رکھنے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گیا اور اپنی برادری میں خود ساختہ صحافیوں کو باہر نکالنا ہو گا کیونکہ یہ چند لوگ ہم سب کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ میری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی اپیل ہے کہ وہ سوشل میڈیا پرچلنے والے خود ساختہ ویب ٹی وی کے خلاف کارروائی کریں اور ان کے لیے کوئی قانون وضابطہ اخلاق مرتب کریں تاکہ جیسے ایک اخبار کا مدیر اس کے اخبار میں شائع ہونے والی خبر کاذمہ دار ہوتا ہے جیسے ایک نیوز چینل پر نشر ہونے والی خبر کی ذمہ دار ان کی انتظامیہ ہوتی ہے ایسے ہی ان ویب چینل پر نشر ہونے والی خبر کا کوئی والی وارث ہو اور اب وقت کی ضرورت ہے کہ زرد صحافت کرنے اور صحافت کو بدنام کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔

Ali Akbar
About the Author: Ali Akbar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.