ٹپکتا خون، سسکتی آہیں، جلتی بستیاں، دہکتی آگ، بے
گوروکفن لاشیں، بلکتا بچپن، بھوک سے بے تاب ادائیں، تاراج ہوتی مقدس
قبائیں، لہو روتی لاچار ممتائیں، لہولہان گلیاں، انسانی خون کی بہتی ندیاں،
ویرانی وتاریکی میں تبدیل ہوتی بستیاں، ملبے کے نیچے دفن ہوتی معصوم کلیاں،
فضا میں بلند ہورہی روح فرسا چیخیں، اجڑتے محلے، جلتے مکانات، جی ہاں! ان
سب کو ملانے سے اگر کسی چیز کی تصویر بنتی ہے تو اس کا نام ملک شام اور اس
کا تاریخی شہر غوطہ ہے، اس وقت غوطہ شہر وہی نقشہ پیش کررہا ہے جس کی
ترجمانی اوپر کی سطروں میں کی گئی ہے، دنیا بھر کے درندوں کی درندگی ایک
طرف اور شام کے سفاک اور اس کے پشت پناہ ظالموں کی درندگی ایک طرف، دنیا
میں بڑے سے بڑے ظلم وجبر کے سورما گزرے، چشم فلک نے ہلاکوخان کی تباہی کو
بھی دیکھا اور چنگیز خان کی چنگیزی کا بھی نظارہ کیا؛ لیکن دور حاضر کے
ہلاکوؤں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، اقتدار کے بھوکے اسد رجیم کی بربریت نے
ظلم وجبر کے سارے ریکارڈ توڑ دئے، گذشتہ ایک ہفتہ سے شام کے شہر مشرقی غوطہ
میں بربریت کا جو ننگاناچ ہورہا ہے وہ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرار داد
کے باوجود تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، غوطہ کی گلیاں اور اس کی شاہراہیں
بے قصوروں کے خون سے رنگین ہیں، وہاں کی ہر شام ،شامِ غریباں اور ہر صبح،
صبحِ قیامت کا منظر پیش کررہی ہے، ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہیں، جگہ جگہ
انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں، محلے کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں، ملبوں کے
نیچے سے نعشوں کے نکالنے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے،غوطہ میں گذشتہ کچھ
عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی قیامت ِصغریٰ سے کم نہیں،قتل وغارت گری کا
بازار گرم ہے، رافضی بھیڑیوں کو آبادیوں پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو دن رات بے
قصور مسلمانوں کو ذبح کررہے ہیں، غوطہ شہر ،شہر خموشاں کا منظر پیش کررہا
ہے۔
جی ہاں! یہ سب اس ملک میں ہورہا ہے جو اپنے اندر تاریخی عظمت وتقدس کے
انگنت پہلو رکھتا ہے ،جس کے تقدس کا قرآن شاہد ہے اور جس کی عظمت پر احادیث
رسول ناطق ہیں، یہ وہی ملک ہے جس کے لیے رسول رحمتﷺ نے یہ یوں دعا فرمائی
کہ رب جلیل! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما(بخاری شریف:۱۰۳۷)ا
س سرزمین کو نبی رحمت ﷺ نے مسلمانوں کی آخری ہجرت گاہ قرار دیا؛ چنانچہ آپﷺ
نے فرمایا کہ جیسے مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی ہے ویسی ہی ایک اور ہجرت ہوگی،
یہ ہجرت وہاں ہوگی جہاں حضرت ابراہیم ؑ ہجرت کرکے پہونچے تھے، یعنی ملک
شام، وہاں ہجرت کرنے والے لوگ زمین کے سب سے نیک لوگ ہوں گے(ابوداؤد
شریف:۲۴۸۲)یہ وہ خطہ ہے جہاں قیامت سے پہلے حضرت عیسی ؑاتریں گے، حدیث میں
آتا ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر اتریں گے تو آپ کا نزول دمشق
کی مسجد میں ایک سفید مینارہ کے پاس ہوگا(مسلم شریف: ۳۹۲)یہی ارضِ محشر ہے،
یہ وہ مبارک جگہ ہے جہاں قیامت کے قریب اﷲ کے مقبول بندے جمع ہوں گے، اتنا
ہی نہیں بلکہ فتنوں کے زمانے میں نبی رحمتﷺ نے ارضِ شام میں پناہ لینے کی
تاکید فرمائی؛ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے قریب ایک آگ حضر موت سے
نکلے گی اور لوگوں کو ہکاتے ہوئے لے جائے گی، اس وقت تم لوگ شام میں پناہ
لو، یہ وہی شام ہے جس سے آثار ِقیامت وابستہ ہیں، جہاں حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے ہجرت فرمائی اور جوانبیاء واتقیاء کا مسکن رہا ہے، یہ وہی شام ہے
جو عہد ِقدیم میں سلطنت روما کا حصہ تھا، جس کی طرف سب سے پہلے صدیق اکبرؓ
نے حضرت اُسامہ کی قیادت میں پہلا فوجی قافلہ روانہ کیا تھا، اور جس کی طرف
خالد ابن ولیدؓ نے پیش قدمی کی تھی، پھر پندرہویں ہجری میں جنگ یرموک سے
قبل ہی جہاں اسلام کا پرچم لہرایا تھا، یہ وہی شام ہے جو حضرت معاویہؓ
کاپایہ تخت رہا ہے، اسی شام اور اس کے غوطہ شہر کے بارے میں نبی رحمت ﷺ یوں
گویا ہوئے: عنقریب تمہارے ہاتھوں شام فتح ہوجائے گا، جب تمہیں وہاں کسی
مقام پر ٹھہرنے کا اختیار دیا جائے تو دمشق نامی شہر کا انتخاب کرنا؛ کیوں
کہ وہ جنگوں کے زمانے میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوگا، اور اس کا مرکز غوطہ
نامی علاقہ میں ہوگا(مسند احمد:۱۷۲۷۰) غوطہ کے تعلق سے ابوداؤد شریف کی
حدیث ہے کہ مسلمانوں کا خیمہ جنگ کے روز غوطہ (وہی شہر جہاں اس وقت خونی
کھیل کھیلا جارہا ہے)میں ہوگا، مدینہ کی طرف جسے دمشق کہا جاتا ہوگا ، مسند
حاکم میں ہے کہ دمشق مسلمانوں کے منازل میں سب سے بہترین منزل ہوگی، نیز
نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ فتنوں کے دور میں مومنوں کا ٹھکانہ شام ہوگا،
ایک اور حدیث میں نبی رحمتﷺ نے شام کو اہل حق کا مرکز قرار دیتے ہوئے
فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اﷲ کے حکم پر قائم رہے گا، ان کو رسو
کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں سے کوئی نقصان نہیں پہونچے گا،
قیامت تک وہ اسی حالت پر قائم رہیں گے، حدیث کے راوی حضرت عمر ابن ہانی
مالک بن یخامر کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: یہ
لوگ ملک شام میں ہوں گے، ایک حدیث میں ہے کہ عنقریب معاملہ اتنا بڑھ جائے
گا کہ بے شمار لشکر تیار ہوجائیں گے، ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں
اور ایک عراق میں، صحابی رسول حضرت ابن حوالہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!اگر
میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا راستہ اپناؤں، آپﷺ نے فرمایا: شام کو لازم پکڑ
لو، کیوں کہ یہ اﷲ کی بہترین زمین ہے(ابوداؤد شریف: ۲۴۸۳)ایک موقع پر رسول
رحمت ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک عراق کے بہترین لوگ
شام اور شام کے بدترین لوگ عراق منتقل نہ ہوجائیں، آپﷺ نے فرمایا کہ شام کو
لازم پکڑ لو(مسند احمد) حضرت زید ابن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم
رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: ملک شام کے لیے
خوشخبری ہے، ملک شام کے لیے خوشخبری ہے، میں نے پوچھا کہ شام کی کیا خصوصیت
ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ملک شام پر فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں، افسوس ایسی
مقدس سرزمین پر تباہی دندنارہی ہے اور انسانیت سسک سسک کر آخری سانسیں گن
رہی ہے، اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی تباہی کے پیچھے صلیبی وصہیونی سازشیں کار
فرما ہیں، گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے تمام طاقتور مسلم ممالک کے حصے
بخرے کیا جانا طے ہے، سب سے پہلے عراق کو تباہ کردیا گیا، پھر لیبیا کی
طاقت توڑ دی گئی،اور اب گذشتہ ۷؍ برسوں سے شام کو تباہ وتاراج کیا جارہا
ہے، شام کے ایک ایک شہر کو ویران کردیا جارہا ہے، صلیبی ومغربی طاقتوں کی
پالیسی ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہمیشہ مسلم ملکوں اور مسلم
معاشروں کو میدان جنگ بناتی ہیں، پوری دنیا پر نظر ڈالئے کیا یہ بات حیرت
انگیز نہیں کہ پوری دنیا میں اس وقت مسلم ممالک ہی میدان کارزار کا منظر
پیش کررہے ہیں، مغربی معاشرے سب محفوظ ہیں، وہاں آپ کو زندگی مسکراتی نظر
آئے گی، یورپ میں ہرجگہ چین وسکون نظر آئے گا، آخر صرف مسلم اور عرب ملکوں
ہی کو جنگ کا ایندھن کیوں بناجارہا ہے؟ ملک شام سے امریکہ اور روس دونوں کے
مفادات وابستہ ہیں، روس بشار کی پشت پناہی کررہا ہے،اور امریکہ آزادی کی
جنگ لڑنے والوں کو شہ دے رہا ہے، عجیب بات ہے کہ شطرنج کے اصل کھلاڑی تو
کوئی اور ہیں، لیکن جنگ کی چکیوں میں مسلمان پس رہے ہیں، بشار الاسد اپنے
ہی شہریوں کے خلاف کلورین گیس اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرتا ہے، جب اس
کا معاملہ اقوام متحدہ میں آتا ہے تو روس ویٹو کرتاہے، روس کو اپنے مفادات
سے مطلب ہے، شام کے بے قصور مسلمانوں کی ہلاکت سے اسے کوئی سروکار نہیں،
صلیبی وصہیونی ملکوں کی پالیسی ہے کہ وہ مغربی معاشروں کو جنگوں سے محفوظ
رکھتے ہیں؛ لیکن خود کے ذاتی مفادات کی خاطر مسلم ممالک کو میدان جنگ میں
تبدیل کردیتے ہیں، افغانستان میں روس اور امریکہ کی لڑائی تھی؛لیکن میدان
جنگ افغانستان کو بنایا گیا، اور لاکھوں مسلمان جنگ کی نذر ہوگئے، اس وقت
مشرق وسطیٰ میں جو کچھ جنگ بھڑک رہی ہے وہ در اصل روس اور امریکہ کے مفادات
کی رسہ کشی ہے؛ مگر مسلمان اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں؛ البتہ یہ بات درست
ہے کہ مغربی طاقتوں کی اس مکروہ پالیسی کو کامیاب بنانے میں مسلم حکمرانوں
کا بھر پور تعاون ہوتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ملکوں کے آمر مسلم
حکمرانوں کو اپنے اقتدار اور عیاشی سے مطلب ہے، انھیں اس کی کوئی پرواہ
نہیں کہ اقتدار کے تحفظ کے لیے دین وملت ہی کو قربان کرنا پڑے، عرب ملکوں
کا ایک ایک حکمراں برسوں اقتدار سے چمٹا رہتا ہے، اس کے برخلاف یورپ اور
مغربی ملکوں کے حکمران ہیں کہ ان کے یہاں اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کرنا
کوئی بڑی بات نہیں، معاصر تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب یورپی
ملکوں کے حکمرانوں نے قوم وملک کے مفاد میں اقتدار سے دست برداری اختیار
کرلی، ۲۰۱۰ء میں لیبر پارٹی کی شکست کے بعد برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن
اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے، جب کہ وہ چاہتے تو مزید پارلیمنٹ میں رہ سکتے
تھے، اسی طرح حال میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم میں شکست
کے بعد اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا، امریکہ میں کوئی بھی صدر دوسری میعاد
کے بعد انتخاب نہیں لڑتا؛ جب کہ وہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے، ہندوستان کے
سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ نے اقتدار سے دستبرداری قبول کرلی، لیکن مسجد کے
انہدام کے منصوبہ کو کامیاب ہونے نہیں دیا، یہ غیر مسلم حکمرانوں کی صورت
حال ہے، مسلم حکمرانوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، صدام حسین اور
قذافی کو دیکھئے آخری وقت تک اقتدار سے چمٹے رہے، شام کے موجودہ المیہ کی
اصل وجہ بھی بشار الاسد کی ہوس اقتدار ہے، اس نے اپنی کرسی صدارت کو بچانے
کے لیے سارے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کردیاہے، دشمن کی مدد سے خود اپنی ہی
عوام کو لاکھوں کی تعداد میں گاجر اور مولی کی طرح کٹوادیا، بشار کے باپ
حافظ الاسد نے بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے ہزاروں شامیوں کو موت کے
گھاٹ اتار دیاتھا، گذشتہ ہفتہ مذہبی تقدس کے حامل ایک مسلم ملک میں ایک
مسجد کے خطیب کو دوران خطبہ ہی سیکوریٹی نوجوانوں نے انتہائی بے دردی کے
ساتھ دبوچ لیا، جس کا قصور بس یہ تھا کہ اس نے شام کے موجودہ حالات پر لب
کشائی کی تھی۔
عالم عرب اور مسلم ممالک کا اصل المیہ وہاں کے بددین ،مفادپرست اور یہود
ونصاریٰ کے پٹھو مسلم حکمران ہیں،ان کی نگاہوں میں نہ خون مسلم کی کوئی
قیمت ہے اور نہ ہی دین ومذہب کامفاد کوئی اہمیت رکھتا ہے، انھیں تو بس
اپنااقتدار عزیز ہے، دنیا بھر میں اسلامی اتحاد کی دہائی دینے والا ایران
آج شام میں اپنے ہی مسلم بھائیوں کے قتل میں سفاک الاسد کا ساتھ دے رہا ہے،
شام میں سنی مسلمانوں کو باغی کہہ کر تباہ کرنے والا ایران بحرین میں شیعہ
باغیوں کی مکمل پشت پناہی کرتے نہیں شرماتا، کیا یہی اسلامی اخوت ہے؟ اور
کیا عالم اسلام میں اسی طرح اتحاد قائم ہوگا؟ مسلک ومشرب کو بنیاد بنا کر
امت کو بانٹنے کے یہ مجرم حکمران ضرور کیفر کردار کو پہونچیں گے، آج وہ
اپنے ہی مسلم بھائیوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے جن دشمنوں سے مدد لے رہے
ہیں ،کل کویہی صہیونی وصلیبی آقا ان کی گردن ناپیں گے، ایک ایسے وقت جب کہ
مسلم حکمرانوں کی امت ِمسلمہ کے تئیں بے حسی نے عام مسلمانوں کو مایوسی کے
گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پہونچا دیاہے، ماضی قریب کے ایک مسلم حکمران شاہ
فیصل کی یاد رہ رہ کر آتی ہے، وہ موجودہ دور کے حکمرانوں کی طرح
یہودونصاریٰ کے وفادار اور اپنی قوم وملت کے غدار نہیں تھے، اُنھوں نے ضمیر
فروشی اور ملت فروشی کا سبق نہیں پڑھا تھا،ان کے اندر ملی حمیت اور دینی
غیرت تھی، ۲؍ نومبر ۱۹۶۴ء میں جب وہ تخت سلطنت پربراجمان ہوئے تو ان کے
پہلے ہی خطاب نے اہل مغرب کے کان کھڑے کردئے،انھوں نے اپنے اولین خطاب میں
کہا: میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا بھائی اور خادم
سمجھیں؛ کیوں کہ بادشاہت تو صرف اﷲ کا حق ہے، جو دونوں جہانوں کا حقیقی
بادشاہ ہے، شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی مدینہ منورہ میں عظیم
اسلامی یونیورسٹی قائم کی، اس زمانہ میں شاہ فیصل کی تقریروں کے عام
موضوعات تین چیزیں ہوتی تھیں، عالم اسلام، آزادی فلسطین اور الحادوکمیونزم
کا رد، شاہ فیصل اتحاد ِامت کے نقیب اور اس کے عظیم داعی تھے، پہلے خانہ
کعبہ میں ائمہ اربعہ کے چار مصلے ہوا کرتے تھے اور چاروں مسالک کے مسلمان
علیحدہ علیحدہ نمازیں ادا کرتے تھے، شاہ فیصل نے سب کو ایک امام پر اکٹھا
کیا، ۱۹۶۷ء میں جب بیت المقدس پر اسرائیل قابض ہوا تو اسرائیل کے ساتھ جنگ
میں اُردن، شام اور مصر کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا، یہ وہ دور تھا
جب ابھی شاہ فیصل کا اقتدار غیر مستحکم تھا، سعودی افواج بھی کمزور تھیں؛
لیکن غیرت ِاسلامی کے حامل اس بندۂ خدا نے ایسی تدبیر اختیار کی کہ سب
حیران رہ گئے، اس نے روس وامریکہ کی کشمکش کو صرف نظر کرکے تنظیم اسلامی
کانفرنس کی شکل میں مسلم ملکوں کا اتحاد تشکیل دیا، اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ء
میں رباط میں تنظیم اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی، اتنا ہی نہیں شاہ فیصل کے
اصل قائدانہ جوہر تب کھلے جب ۶؍ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو اسرائیل کے مذہبی تہوار
یوم کپور کے موقع پر مصر وشام کے ساتھ اسرائیل کی جنگ چھڑ گئی، ابتدا میں
اسرائیل کے خلاف مصر وشام کو فتح ہوئی اور ان کی پیش رفت میں اضافہ ہونے
لگا، اس جنگ میں شام کے پاس گیارہ سو ٹینک تھے، جب کہ اسرائیل صرف ۱۵۷
ٹینکوں کا مالک تھا، یہ ایسی ہولناک جنگ تھی جس میں اسرائیل کے ۱۵۰ جہاز
تباہ ہوئے، گولان کی پہاڑیوں پر شام دوبارہ قابض ہوگیا، لیکن ۱۰؍ اکتوبر
۱۹۷۳ء میں جوں ہی امریکی جہازوں نے اسلحہ کی کھیپ آئی اچانک جنگ کا رخ بدل
گیا، اور اسرائیل کا پلڑا بھاری ہوگیا،اسرائیل شام سے دوبارہ گولان کی
پہاڑیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، حتی کہ ۲۱؍ اکتوبر کو نہر سویز عبور
کرکے مصری فوج کو گھیرے میں لے لیا،ایسے نازک مرحلہ میں شاہ فیصل نے اپنی
مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے ان ۹ ملکوں کا تیل بند کردیا، جنھوں نے اس
جنگ میں اسرائیل کاساتھ دیا تھا،شاہ فیصل کے اس اقدام سے عالمی معیشت میں
بھونچال آگیا، اچانک دنیا بھر میں تیل کی قیمت گر کر ۳ ڈالر فی بیرل ہوگئی،
عالمی اسٹاک مارکٹیں تہ وبالاہوگئیں،یورپ کے مختلف شہروں میں پٹرول پمپوں
پر کئی کلو میٹر لمبی قطاریں لگ گئیں، قریب تھا کہ عالمی مالیاتی نظام
بدترین بحران کا شکار ہوجاتا، امریکہ ایمر جنسی پٹرولیم ایکٹ لانے پر مجبور
ہوا، آخر کار اندورن تین ماہ عالمی طاقتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوگئیں، اس
وقت کے امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کو منانے کے لیے دوڑے دوڑے پہونچے،
بالآخر اسرائیل کو اس معاہدہ پردستخط کرنے پڑے جس کی رو سے اسرائیلی افواج
کو نہ صرف نہر سویز کے مشرقی کنارے سے اپنی اصل پوزیشن پر واپس آنا
پڑا؛بلکہ مقبوضہ صحرائے سیناکو بھی خالی کرنا پڑا،اس کے بعد ۵؍ اپریل
۱۹۷۴ء کو اسرائیل کاآخری سپاہی مصر سے نکل گیا، یہ سب ایک مرد مومن کی
فراست کا کرشمہ تھا،جس کا دل جذبۂ ایمانی سے سرشار تھا، شاہ فیصل کا یہی وہ
کردار تھا جس نے صلیبی طاقتوں کو مجبور کردیا کہ وہ شاہ فیصل کو راستہ سے
ہٹھائیں؛چنانچہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی پشت پناہی سے ۲۵؍ مارچ ۱۹۷۵ء
میں خود ان کے سگے بھتیجہ کے ہاتھوں انھیں شہید کردیا گیا۔
موجودہ عرب حکمراں جب تک صہیونی وصلیبی آقاؤں کی غلامی سے خود کو آزاد نہیں
کرتے، نیز جب تک انھیں ذاتی اقتدار سے زیادہ امت ِمسلمہ اور دین اسلام کا
مفاد عزیز نہیں ہوگا، جب تک ان میں اسلامی حمیت نہیں جاگے گی اور وہ اپنی
بے لگام عیاشیوں کے خول سے باہر نہیں آئیں گے ان کی خارجہ پالیسی خود مختار
اور صلیبی آقاؤں کی گرفت سے آزاد نہیں ہوگی،جب تک مسلک ومشرب کے بجائے کلمہ
کی بنیاد پر وہ دشمنوں کے خلاف متحد نہیں ہوں گے اور سائنس وٹیکنالوجی اور
دفاعی ضروریات میں خود مکتفی نہیں ہوں گے تب تک مسلمان اسی طرح کٹتے رہیں
گے، اور ان کے معصوم بچے یوں ہی تڑپ تڑپ کر جان دیتے رہیں گے، ظلم وفساد
اور قتل وغارت گری کا بازار اسی طرح گرم رہے گا، مسلم ملکوں میں پائی جانے
والی شیعہ سنی خلیج جتنی گہری ہوتی جائے گی دشمن ایک ایک کرکے سارے مسلم
ممالک کو تباہ کرتے جائیں گے، شیعہ سنی اختلاف کو بھڑکانے کا اصل مقصد اپنے
مفادات کی تکمیل ہے، فی الحقیقت نہ انھیں شیعہ برادری سے ہمدردی ہے اور نہ
ہی وہ سنیوں کے مخلص ہیں، ایران کو شام میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے
تھا، لیکن اس نے محض مسلک کی بنیاد پر سفاک الاسد کی پشت پناہی کی، اس کی
یہ ایسی سنگین غلطی ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، اگر مسلم حکمراں
اتحاد کا مظاہرہ کرتے اور پٹرول جیسی دولت کا صحیح استعمال کرکے اسے دشمنوں
کے خلاف ہتھیار بنالیتے توآج نقشہ کچھ اور ہوتا،اس وقت دنیا کے ۵۸ ممالک
بشمول سعودی عرب، امارات، کویت، ایران وعراق یومیہ آٹھ کروڑ چھ لاکھ بیرل
تیل نکالتے ہیں، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ او آئی سی کی حالیہ
استنبول کانفرنس میں کسی ایک ملک نے بھی دشمن کے خلاف تیل روکنے کی بات
نہیں کہی،اور کیسے کہتے جب کہ ان کے کھربوں کے اثاثے امریکہ اور اس کے
حواری ممالک کے کھاتوں میں جمع ہیں، اور جن کی کھربوں ڈالر کی غیر منقولہ
جائدادیں مغربی ملکوں میں ہیں، جن کی عیاش اولاد ہر سال تعلیم کے بہانے
یورپ اور امریکہ میں اربوں ریال اڑاتی ہے،خیر یہ تو حکمرانوں کا رونا تھا،
شام کے موجودہ حالات میں دنیا بھر کے عام مسلمانوں کو بھی اپنا کردار ادا
کرنا چاہیے، سب سے پہلے اس حقیقت کو ذہن نشیں کرنا چاہیے کہ اُخوت ِاسلامی
امت ِمسلمہ کاسب سے بڑاامتیازہے، دنیا کا ہر مسلمان دوسرے مسلمانوں کا
بھائی ہے، اور ان کی مثال ایک جسم کی طرح ہے،جس کے ایک عضو کو تکلیف
پہونچتی ہے تو سارا جسم درد سے کراہ اٹھتا ہے، شام میں ہونے والے ظلم کا
احساس ہر مسلمان کو ہونا چاہیے،اور امت ِمسلمہ کے ہرفرد کو اپنے مظلوم شامی
بھائیوں کے لیے دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، فرض نمازوں میں قنوت
ِنازلہ کا بھی اہتمام کیا جائے،ملک کی مسلم سیاسی قیادت اور مختلف ملی
ودینی تحریکات اوراداروں کو چاہیے کہ وہ شام میں ہونے والی بربریت کے خلاف
قانونی دائر ہ میں رہ کر صدائے احتجاج بلند کریں،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا
ہے کہ ملک کے مسلم سیاسی قائدین اس سلسلہ میں سرد مہری کا شکار ہیں، وطن
عزیز میں موجود ظالم ملکوں کے سفارت خانوں میں ہم ای میل کے ذریعہ اپنا
احتجاج درج کرائیں،نیز شام میں جاری تشدد کے خلاف ملکی رائے عامہ کو ہموار
کرنے کے لیے سوشیل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے، مسلم قائدین حکومت
ِہند سے مطالبہ کریں کہ وہ شام کے سفاک کو ظلم سے روکنے کے لیے اپنا اثر
ورسوخ استعمال کرے،اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ ان عرب
حکمرانوں کو جھنجھوڑیں جنھوں نے اپنے اوپربے حسی کی دبیز چادرتان رکھی
ہے،نیز ملک کی شیعہ برادری کو چاہیے کہ وہ شام کے مسئلہ میں ایران کے موقف
پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرے، اس وقت عام مسلمانوں کو جس چیز پر سب سے
زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اعمال کی اصلاح اور رجوع إلی اﷲ کا اہتمام
ہے، دنیا بھر میں ظلم وفساد کی جو صورت ِحال ہے اس میں انسانوں کے اعمالِ
بد کا بڑا دخل ہوتا ہے، وہ مسلمان کس قدر بے حس ہیں جن کی خوشیوں اور فضول
خرچی پر مشتمل تقریبات میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا،شام میں بچے بلک بلک کر
دم توڑ رہے ہیں اور ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے عیش وعشرت میں مگن
ہیں، حالات کی سنگینی ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر آمادہ کرنا چاہیے۔ |