بہت فرق ہے کتابی باتوں اور زمینی حقیقتوں
میں۔خصوصاًہمارے جیسے کم ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی چیز آ ئیڈیل نہیں ہوتی۔
زبانی تو ہم آسمان کو چھونے کی باتیں کرتے ہیں مگر پاتال سے باہر نکلنے کو
تیار نہیں ہوتے۔باشعور ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود عملی طور پر ہم خود کو
ہمیشہ بے شعور ثابت کرتے ہیں۔آج کل سیاسی حالات میں گرما گرمی انتہا پر ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا ہے۔ نا
اہلی کی بنیادی وجہ کرپشن قرار دی گئی ہے۔عجیب بات ہے کہ کرپشن عموماً ثابت
کرنا مشکل ہوتی ہے۔ کرپشن کرنے والا اور اپنے فائدے کے لئے کرپشن کروانے
والاونوں کرپشن چھپانے کی پوری سعی کرتے ہیں ۔ مگر کرپشن خود بولتی ہے۔
حالات اور واقعات بولتے ہیں۔پتہ نہیں یہ کیسا عوامی شعور ہے کہ لوگ سب
جانتے ہیں مگر بت پرستی سے باز نہیں آتے۔ افسوسناک بات یہ کہ ان کے نزدیک
وہ جس کے پرستار ہیں اس کے لئے اس ملک میں کچھ بھی کرنا جائز ہے۔ اس کی کی
ہوئی کرپشن بھی ان پرستاروں کے نزدیک ایک خوبصورت ادا سے زیادہ نہیں۔
آئین وہ دستاویز ہے کہ جس کے ذریعے کوئی بھی قوم ،کوئی بھی ملک اور کوئی
بھی معاشرہ اپنے شہریوں اور اپنے اداروں کو تحفظ بھی دیتا ہے اور انہیں ایک
خاص وضع کردہ اصولوں اور ضابطوں کے مطابق عمل کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے
اور آئین کے تحت قائم کردہ اداروں کی مدد سے عمل کرواتا بھی ہے۔ قدیم تاریخ
کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ انسان ہر دور میں بے
ایمان رہا ہے اور حکومتیں ہر دور میں بد عنوان۔ان حالات میں مختلف اداروں ،
مختلف طبقوں اور قوتوں کے درمیان ہمیشہ کشمکش رہی ہے کہ انسان کی بد دیانتی
کو جہاں تک ممکن ہو روکا جائے اور حکومتو ں کی بد عنوانی ایک حد سے بڑھنے
نہ پائے۔آج بھی نام نہاد جمہوری دور میں جو بظاہر عوام کی حکومت کہلاتی ہے
صورت حال کچھ ایسی حوصلہ افزا نہیں۔ خصوصاً ترقی پذیرملکوں میں عوام کا صرف
نام ہوتا ہے۔ مختلف اقلیتی طبقات آپس میں برسر پیکار ہوتے ہیں اوراکثریت
ایک اقلیت کو ہٹا کر دوسرے کو خود پر مسلط کر لیتی ہے فقط اپنے چھوٹے موٹے
مفادات کے لئے۔افلاطون اپنی کتاب ’’جمہوریہ‘‘ میں اپنے استاد سقراط کے
الفاظ کو دھراتا ہے۔سقراط کہتا ہے،
’’جمہور کے لوگ اعتدال کو نامردی قرار دے کر حقارت کے ساتھ مسترد کرتے
ہیں۔وہ سرکشی کو افزائش، طوائف الملوکی کو آزادی اور بے شرمی کو جرآت کہتے
ہیں۔ ۔۔۔۔ شہری ذرہ برابر اتھارٹی کا اظہار ہونے پر بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔وہ
قوانین کی پرواہ نہیں کرتے، چاہے وہ تحریری شکل میں ہوں یا زبانی۔یہ وہ
عادلانہ نظام ہے جس میں سے آمریت جنم لیتی ہے۔کسی بھی چیز کی زیادتی مخالف
سمت میں رد عمل
پیدا کرتی ہے۔ایسی جمہوریت میں سے آمریت پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ آزادی کی
انتہائی صورت میں سے بد ترین آمریت اور غلامی جنم لیتی ہے۔‘‘
آج وطن عزیز کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ نام نہاد اشرافیہ کی ایک
اقلیت ملک پر حکمران ہے۔ ملک کی اکثریت غریب ہے اور غریب تر ہے۔ مگر اپنے
جمہوری حکمرانوں کے پیار میں اسیر ہے۔ نام نہاد اشرافیہ کی اقلیت دو تین
حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ دو تین اقلیتی حصے لوگوں کو بے وقوف بناتے اور
جمہوریت کے نام پر باری باری کامیاب ہوتے اور ملک کو جی بھر کر لوٹتے
ہیں۔یہ لوٹ مار اب حد سے تجاوز کر چکی۔ اب تویہ صورت حال ہے کہ وہ لوگ جو
لوٹ مار کرتے ہیں ، کھلے لفظوں میں اقرار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی
اور کو اس سے کیا سروکار۔ کسی ادارے کاوقار انہوں نے نہیں رہنے دیا، فطری
عمل ہے کہ جب لوٹ مار حد سے بڑھ جائے تو اس کو انجام کو پہنچنا ہوتا ہے۔ اس
انجام کوکوئی روک نہیں سکتا۔اس انجام کو روکنے کا واحد راستہ یہی ہوتاہے کہ
نام نہاد اشرافیہ اپنی مراعات سے دست بردار ہو جائے مگر زوال نعمت کوئی
قبول نہیں کرتا۔ اشرافیہ مزاحمت کرتی ہے اور کسی اصول اور ضابطے کو نہیں
مانتی۔مگر فطری اصول اٹل ہوتے ہیں۔ آمریت کی صورت میں کچھ مخالف قوتیں
ابھرتی ہیں اورہر چیز لپیٹ لیتی ہیں۔
ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جا چکا ہے۔ان پر کرپشن کے الزامات ہیں
جنہیں وہ ماننے سے اس لئے انکار کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان الزامات کو
ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اپنے ہاتھ کی صفائی پر بہت بھروسہ ہے۔ عدلیہ
کو انہوں نے اپنا حدف بنایا ہوا ہے۔یقیناً عدلیہ بہت دباؤ میں ہے کیونکہ
ادارے پوری طرح اس اشرافیہ کے تسلط میں ہیں ۔سرکاری ملازم عملی طور پر ان
کے غلام ہیں ۔ کسی سرکاری ملازم میں ان کے سامنے انکارکرنے اور اصولوں کو
اپنانے کی جرآت نہیں۔ ہر اہم عہدے پر ان کے پروردہ تعینات ہیں۔ اداروں کے
درمیان کھینچا تانی کا سماں ہے اور ہر چیز اس ہنگامے کی وجہ سے جمود میں ہے۔
نظام ہستی چلانے والا اس ملک کو کیسے ایک لمبے جمود میں دیکھ سکتا ہے۔وہ
وقت قریب ہے کہ اس کشمکش کا کوئی فطری انجام ہو گا اور وہ انجام میرے خیال
میں کسی ان دیکھی آ مریت کی شکل میں ظاہر ہو گا۔
ملک کی صورت حال اس قدر کشیدہ ہے کہ اب تو اہل درد آسمان کی طرف دیکھنا
شروع ہو چکے۔مگر نام نہاد اقلیتی اشرافیہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ان کا
پبلک کو بے وقوف بنانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس اشرافیہ کی اپنی ایک
تہذیب ہے وہ تہذیب جس کے بارے منشی پریم چند کہتا ہے، ’’ تہذیب صرف ہنر کے
ساتھ عیب کرنے کا نام ہے، آپ برے سے برا کام کریں لیکن آ پ اس پر پردہ ڈال
سکتے ہیں تو آپ مہذب ہیں، جنٹلمین ہیں، شریف ہیں۔اگر آپ میں یہ وصف نہیں تو
آپ غیر مہذب ہیں، دہقانی ہیں، بدمعاش ہیں۔ یہی بہذیب کا راز ہے۔‘‘ ایسی
تہذیب اور ایسے شریفوں کو بہر حال کبھی نہ کبھی اپنے انجام سے دو چار ہونا
ہوتا ہے۔ |