ثنااللہ صاحب کی حکومت کی تختہ پلٹ کے بعد میر قودس بزنجو
چیف منسٹر بنے اور سینٹ الیکشن بھی قریب تھے ،اچانک اتنی تبلی دیکھ کر
بلوچستان کی جمہوریت پے کچھ یکین نہیں ہو رہا تھا ، اور میڈیا پے چاہے سوشل
ہو پرنٹ ہو یا پھر الیکٹرانک میڈیا ہر طرف میر صاحب کی کار کردگی کی
سرکھیاں تھی ایسے معلوم ہو رہا تھا جمہوریت تو اب دیکھنے میں آئی ہے اور
رہنماؤ کا سرداریت سے عوام کی خدمات کی طرف موڑ گیا ہے. جب بھی نیوز اور
سوشل میڈیا پ نظریں پڑھتی تو میر صاحب ک ساتھ وزیر داخلہ صاحب کبھی شہرہ کی
صفائی کا نوٹس لیتے دکھائی دیتے تو کبھی چیک پوسٹ پے پولیس کو رشوت لینے پے
ڈانتے تو کبی STN پاس امیدوار کے آرڈر جاری کرتے جو کہ پچھلے 2 سال سے
محروم تھے اور ان کو اتنا متحرک دیکھ کر زبان سے ماشاللہ اور دل سے دعا
نکلتی، لیکن ایک سوال ذہن مے اٹھا تھا کہ سابق وزیراعلی اور موجودہ وزیر
داخلہ صاحب تو ایک ہی پارٹی کے ممبران تھے تو کیا چیز تھی جو ان کو لوگوں
کے مسائل اور عوام مے جانے سے اور نوٹس لینے سے روک رہی تھی اور سابق
وزیراعلی کی ہربات شروع اور ختم CEPC پے ہوتی تھی، خیر جو بھی تھا دیرسے
ائے درست ائے، اور بلوچستان مے تبدیلی دیکھ کر خوشی ہوئی بس اسی خوش فہمی
مے ہی تھے کہ سینیٹ الیکشن ہوئے اور اس سے پہلے پیپل پارٹی بلوچستان مے
سرگرم دکھائی دی اور میڈیا میں وفاداریاں خریدنے کی باتیں ہو رہی تھی. خیر
الیکشن نتائج نے حیران کر دیا کہ جو پیپل پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو گئی
تھی ، دوسرے نمبر پے تھی.اور ہارس تیڈنگ کی سب سے بری مارکیٹ بلوچستان مے
سجی. اور جو خوش فہمی تھی وہ مایوسی مے تبدیل ہو گئی کہ بلوچستان میں حکومت
تبدیل بیشک نہ ہوئی ہو لیکن وفاداریاں ضرور بدل گئی. |