پہنو شوپیاں میں اتوار 4مارچ کی شام نصف درجن معصوم اور
نہتے نوجوانوں کو بھارتی فوج نے اندھا دھند فائرن کر کے شہید کر دیا۔ کشمیر
قتل عام کے اس تازہ سانحہ کے بعد پھر سے لہو لہو ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔
لوگ ماتم کناں ہیں۔ یہ قتل عام کوئی نیا یا انوکھا واقعہ نہیں۔ گزشتہ 30سال
سے کشمیری میں اس طرح کے درد بھرے سانحات جاری ہیں۔ کبھی ایک علاقے میں اور
دوسرے دن کسی دوسرے مقام پر کشمیری لاشیں اٹھاتے ہیں۔ کشمیری اس قتل عام
اور بھارتی فورسز اس دہشتگردی کے عادی بن چکے ہیں۔ وہی نانے ، جس پر گزرے۔
دوسری طرف زندگی رواں دواں ہے۔ کشمیر کے نام پر اور کشمیریوں کے قتل عام کی
آڑ میں عیش و عشرت کرنے والے، سیاست اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے بھی اپنی
قسمت پر نالاں ہیں۔ مگر دردرد دل رکھنے والے اور انسانیت کے حامی بلا شبہ
کشمیریوں کی بے کسی اور مظلومیت پر خون کے آنسو روتے ہیں۔ بھارتی فورسز جب
بھی کسی کشمیری کو قتل کرتے ہیں تو معصوم اور نہتے کشمیری کو دہشگرد قرار
دیتے ہیں ۔ فوجی ترجمان دعویٰ کرتا ہے کہ فورسز پر حملہ ہوا۔ اور فورسز نے
اپنے دفاع میں گولی چلائی۔ جب کہ یہ دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز
بھی بھارتی فوج نے چار بار بیان بدلا۔ اتوار کی شام کو اس علاقے کے نوجوان
دو کاروں پر سوار تھے۔ جوں ہی گاڑیاں بھارتی فوج کی 44راشٹریہ رائفلز کی
چیک پوسٹ پر پہنچیں تو فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس سے چھ نوجوان
شہید ہو گئے۔ مگر فوج نے اپنے متضاد بیانات میں ان چھ میں سے دو کے جنگجو
ہونے اور چار کے اوور گراؤنڈ ورکر ہونے کا دعویٰ کیا۔اوور گراؤنڈ ورکر کا
مطلب کشمیر میں یہ ہے کہ کسی بھے طور پر مجاہدین کی مدد کرنے والے اور
گراؤنڈ ورکرز کہلاتے ہیں۔ اس طرح سارا کشمیر ہی اس زمرے میں آتا ہے۔ گزشتہ
چند برسوں میں جہاں مجاہدین بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مصروف ہوتے ہیں۔
تو آس پاس تمام شہر اور دیہات کے لوگ وہان پہنچ جاتے ہیں۔ خواتین اور بچے
تک جھڑپ کی جگہ آ کر بھارتی فورسز پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ مجاہیدن کو فورسز کے
محاصرے سے نکالنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ کئی بار عوام کی مدد سے چند
مجاہدین ہزاروں کی تعدادمیں بھارتی فورسز کا محاصرہ توڑ کر نکل گئے۔ جس کے
بعد فورسز نے لوگوں پر فائرنگ کی اور کئی افراد جن میں خواتین بھی شامل
تھیں، کو شہید اور زخمی کیا۔ مگر عوام کا جذبہ اور تعاون کم نہ ہو سکا۔
بھارتی فورسز کو جب بھی موقع ملتا ہے ، عوام سے انتقام لیا جاتا ہے۔
27جنوری2018کو بھی شوپیاں کے گنو پورہ علاقہ میں چند نوجوانوں نے بھارتی
فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ جو معمول کی نفرت کا اظہار تھا، جواب میں بھارتی
فوجیوں نے نشانہ لگا کر فائرنگ کر دی۔ جس سے جاوید احمد اور سہیل احمد سمیت
تین نوجوان شہید ہو گئے۔ ان کی عمریں 20, 22 سال تھیں۔ 24سال پہلے اسی دن
27جنوری 1994کو بھارتی فوجیوں نے کپواڑہ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے
27نہتے افراد کو شہید کیا تھا۔ ان میں کشمیر پولیس کے تین اہلکار بھی شامل
تھے۔ کشمیر میں اس طرح کے لا تعداد سانھات ہوئے۔ مگر کالے قوانین کی وجہ سے
بھارتی فوج کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ بلکہ انہیں ترقی اور میڈلز سے
نوازا گیا۔ مینر گوگوئی اس کی تازہ مچال ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ اس میجر
نے کس طرح ایک کشمیر نوجوان کو پکڑ کر اسے اپنی گاڑی کے بانٹ سے باندھجا
اور درجنوں دیہات کا گشت کرایا۔ مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اسے
انعام دیا گیا۔ شوپیاں کے گنو پورہ میں بھارتی فوج کی فائرنگ اور نوجوانوں
کے قتل کا مقدمہ مقامی پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا۔ محبوبہ مفتی نے بیان
جاری کیا کہ اس بارے مین بھارتی وزیر دفاع نرملہ سیتا رمن سے ٹیلیفون پر
بات ہوئی اور احتجاج کیا گیا۔ مگر یہ سب ڈرامہ نکلا۔ کیوں کہ بھارتی فوج کو
لوگوں کو قتل کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ کوئی قانون گرفت نہیں کر سکتا۔ آج اس
دور میں کشمیریوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ بھارتی فورسز کو کالے قوانین
سے تحفظ دیا گیا ہے۔ میجر ادتیہ کمار نے فائرنگ کرا کر تین نوجوانوں کو قتل
کر دیا۔ مگر ایف آئی آر کے باوجود اسے گرفتار نہ کیا گیا۔ بلکہ اس ایف آئی
آر ک خلاف ہندو انتہا پسندوں نے مظاہرے کئے۔ اب بھارت سپریم کورٹ نے اس میں
مداخلت کی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے میجر ادتیہ کمار کو جو کہ قاتل ہیں،
کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ
بھارتی فوج کا میجر مجرم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ بھارتی فوج کے خلاف نئی
دہلی کی اجازت کے بغیر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ میجر ادتیہ کمار
کے والد لیفٹننت کرنل کرم ویر سنگھ نے سپریم کورٹ میں میجر کے خلاف ایف آئی
آر منسوخ کرنے کی درخواست دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے
سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو حکم دیا کہ
میجر کے خلاف انکوائری 24اپریل تک روک لی جائے۔ جس پر کشمیر کی ریاستی
حکومت کا کہنا ہے کہ میجر کا نام ہی ایف آئی آر میں شامل نہیں۔ محبوبہ مفتی
حکومت نے ہندو انتہا پسندوں کے مظاہروں کے دوران ہی شاید میجر کمار کا نام
ایف آئی آر سے نکال لیا تھا۔
بھارتی فورسز کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورزایکٹ(AFSPA)جیسے کالے قانون کا
شیلٹر دیا گیا ہے۔ ۔ جس کی دفعہ 7کے تحت اگر کوئی بھارتی فوجی کشمیر میں
ایک ہزار افراد کو بھی قتل کر دے، تو اس کے خلاف ایف آئی آر یا رپورٹ تک
درج نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے ڈسٹربڈ ایریا قرار
دے کر فورسز کو من مانی کا اختیار دیا ہے ہے۔ اگر کسی فورسز اہلکار کے خلاف
رپورٹ درج کرنی ہے۶۷ تو دہلی حکومت سے اجازت لینی ضروری ہو گی۔ اے ایف پی
ایس اے کی دفععات 4اور7کے تحت بھارتی فورسز کو مقبوضہ ریاست مین نہتیے اور
معصوم عوام کے قتل عام کا لائنسس دیا گیا ہے۔ اس قانون کی موجودگی تک
کشمیری قتل ہوتے رہیں گے۔ اور قاتل بھارتی فورسز کو عالمی عدالت انصاف یا
کسی انٹرنیشنل عدالت میں لے جانے سے بھارت شیلٹر لیتا رہے گا۔ سپریم کورٹ
آف انڈیا تک فرما رہی ہے کہ تین نوجوانوں کا قاتل میجر ادتیہ کمار آرمی
افسر ہے کوئی عام مجرم نہیں کہ اسے سزا دیں۔ اب شوپیان میں ایک بار پھر قتل
عام ہوا۔ ایف آئی درج ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ بھارتی
فورسز کشمیر میں ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہیں۔ کشمیری دنیا اور پاکستان
کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادایت مانگنے کی سزا قتل عام
کے طور پر دی جا رہی ہے۔ اس قتل عام کو جائز قرار دینے کے لئے بھارت نے
کالے قانون نافذ کر رکھے ہیں۔ جو دنیا کو دھوکہ دینے اور قاتل اور جرائم
پیشہ بھارتی فورسز کو کسی سزا سے بچانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ |