پاکستان ایک مرتبہ پھر واچ لسٹ میں

گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پیرس میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کے مالی معاملات پر کڑی نظر نہ رکھنے اور ان کی مالی معاونت روکنے میں ناکام رہنے یا اس سلسلے میں عدم تعاون کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی.تاہم پاکستان کو اس گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کے فیصلے کو جون تک مؤخر کردیا گیا. شروع شروع میں پاکستان کے چند دوست ممالک نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کردیا. لیکن یہ فیصلہ بعد میں اتفاق رائے کے بعد ہی سامنے آیا۔ ایف ٹی ایف آخر ہے کیا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔اس ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک 'پالیسی ساز ادارہ' ہے جو سیاسی عزم پیدا کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔اس کے ارکان کا اجلاس ہر تین برس بعد ہوتا ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔گرے لسٹ ایف ٹی ایف ہی مرتب کرتا ہے اور اس کے بعد اس فہرست میں شامل ممالک سے تجارتی سفارتی تعلقات کے لیے سخت لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے.امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔ پیرس میں تنظیم کے اجلاس میں اس معاملے پر چین، ترکی اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی مخالفت کی وجہ سے اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا تاہم بعد کی اطلاعات کے مطابق چین اور خلیج تعاون کونسل کی نمائندگی کرتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ واپس لے لیا اور اس مشکل وقت میں سوائے ترکی کے پاکستان کے ساتھ اور دوسرا کوئی ملک کھڑا نہیں رہ گیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے مطابق صرف ایک ملک کی مخالفت قرارداد کی منظوری میں حائل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ پاکستان کو تین سال بعد ایک مرتبہ پھر اس فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پاکستان 2012 سے 2015 تک بھی اس فہرست میں شامل رہ چکا ہے۔اس لسٹ میں نام آنے سے پاکستان کو اقتصادی، سفارتی اور سماجی دھچکا لگ سکتا ہے۔سب سے بڑا اثر تو پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات پر پڑے گا، پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ، پاکستانی مالی ساکھ، ان سب کو بڑا دھچکا لگے گا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی برادری میں پاکستانی ساکھ کو بھی کافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔امن بحال ہونے کے بعد سرمایہ کاروں کو اپنے یہاں لانے کی جو کوشش اب تک کی گئی، اسے بھی نقصان پہنچے گا۔اس کے علاوہ پاکستان کی طرف جو بھی پیمنٹ، یا سافٹ لون آنے والے ہوں گے اس کی زیادہ کڑی چھان بین ہو گی جبکہ اسی سال جولائی میں نیپال میں ایشیا پیسیفک گروپ کا اجلاس ہو گا جس میں پاکستان شمولیت کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اگر پاکستان کا نام گرے لسٹ میں فائنل کردیا جاتا ہے تو یہ پاکستان کے حق میں بالکل بہتر نہیں ہوگا۔گرے لسٹ میں پاکستان کے نام کو شامل ہونے سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا اس کے بارے میں کیے گئے پروپگینڈے سے ہوا ہے۔ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں نے بھی اس میں اہم رول ادا کیا جس کا فائدہ بھارت نے خوب اٹھایا۔حالانکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اجلاس سے بہت پہلے ہی پاکستان میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان تمام تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جنہیں اقوامِ متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ اور ایسی تمام تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عمل پہلے سے شروع کردیا گیا تھا۔

ٹرمپ کی طرف سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن کے سلسلے میں اب تک کی گئی تمام کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا اور پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ پاکستان اپنی کوششوں میں مخلص نہیں اور اب تک کی لی جانے والی ساری امداد جو اس مد میں دی گئی استعمال ہی نہیں ہوئی۔اس جارحانہ ٹوئیٹ کے بعد غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اس شک کو مزید تقویت دی اور نتیجتا پاکستان کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ چونکہ اب وزارت خارجہ کی طرف سے بھی اس کی تصدیق ہوچکی ہے تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کو دی گئی مہلت یا مدت صرف تین ماہ ہے۔جس میں پاکستان اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات بہتر کرکے کالعدم تنظیموں کے لیے سخت لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر فوری عمل درآمد شروع کرے. دوسری طرف امریکہ نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ایک اور تجویز سامنے رکھی ہے جس کے مطابق پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کی روک تھام اور خاتمے کے لیے اپنا بھرپور اور مؤثر کردار ادا کرے۔

واضح حکمت عملی اور منصوبے کے بغیر پاکستان چھوٹی چھوٹی رعایتوں کے جال میں پھنس کر مزید دباؤ اور مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔امریکا کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے لیے پاکستان کی اہلیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے مقاصد، ترجیحات اور آخری حدوں کی واضح نشاندہی کرے، امریکا کو اس بات پر قائل کرے کہ اگر اس نے آخری حد عبور کی تو پاکستان اس کے تمام مطالبات یکسر مسترد کردے گا اور یہی نہیں بلکہ اپنے موقف پہ وہ چین، روس، ترکی،ایران اور ان جیسے دیگر دوسرے بڑے ممالک سے بھی تائید حاصل کرے۔تبھی پاکستان خطے میں اپنی ایک علیحدہ شناخت اور مقام قائم رکھ سکتا ہے صرف امریکہ سے پاکستان کے احترام کا مطالبہ پاکستان کے کمزور سفارت کی لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پاکستان کو امریکہ کے سامنے اپنی پوزیشن مضبوط رکھنی ہوگی ورنہ کل کو کوئی بھی دوسرا ملک پھر سے پاکستان پہ کوئی سوال اٹھاسکتا ہے.

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 13545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.