خوشید حسن خورشید آزاد ریاست جموں کشمیر کے پہلے منتخب
صدر تھے اور سردار مسعود احمد خان موجودہ صدر ہیں۔ کے ایچ خورشید کی تیسویں
برسی ۱۱ مارچ کو منائی جارہی ہے ۔ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری کی حیثیت
سے انہوں نے تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور میں شب و روز کام کیا۔1944سے
1947 تک خلوت اور جلوت میں وہ قائد اعظم کے ساتھ رہے ۔قیام پاکستان کے
بعد18 اگست 1947 کو پہلی عید الفطر کی نماز میں وہ قائداعظم کے بالکل پچھلی
صف میں سردار عبدالرب نشتر اور علامہ غلام احمد پرویز کے ساتھ بیٹھے ہوئے
نظر آتے ہیں۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے بھی چشم دید گواہ تھے اور اُن حقائق
کوبڑی اچھی طرح جانتے تھے۔ آزادجموں کشمیر میں جمہوریت کی داغ بیل انہوں نے
ہی ڈالی اور پھر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے آزاد جموں
کشمیر کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطا لبہ کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے
بہترین روڈ میپ دیا۔خورشید ملت سے میری پہلی ملاقات1984 میں میرے بھائی
طارق چوہدری کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ کے عقب میں ٹرنر روڈ پر ان کے
دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ ایک یاد گار ملاقات تھی جس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ
جاری رہا۔ خورشید حسن خورشید ریاست جموں کشمیرکی تمام اکائیوں یعنی وادی
کشمیر، صوبہ جموں، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور مہاجرین جموں کشمیر میں
یکساں مقبول تھے اورسب کے مابین ایک رابطہ تھے، یہ امتیاز کسی اور کشمیری
رہنماء کے حصہ نہیں آیا۔ خورشید صاحب کا موقف تھا کہ سیاسی اور سفارتی
جدوجہد سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا چاہیے اوراس مقصد کے لیے آزادکشمیر
حکومت کو پاکستان تسلیم کرے اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تسلیم کرائے اور
اس طرح آزادکشمیر حکومت خود بین الاقوامی سطح پر مقبوضہ جموں کشمیر کی
آزادی کا مقدمہ پیش کرے جسے دنیا ضرور اہمیت دے گی۔ 1986میں انہوں نے
زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے کا دورہ کیا اور وہاں ہونے والی غیر جانبدار
ممالک کی سربراہ کانفرس کے موقع پرعالمی راہنماؤں کے سامنے مسئلہ کشمیر پیش
کیا۔ بیشتر ممالک کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پاکستان پہل کرے اور آزادجموں
کشمیر کی ریاست کو تسلیم کرکے تو وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں۔عالمی سیاست کے
تناظر میں وہ اہم موقعہ اس وقت کی حکومت پاکستان نے ضائع کردیا۔ کے ایچ
خورشید نے اپنی زندگی کا آخری خطاب وکلاء کنوینشن میرپو ر میں10مارچ 1988ء
کو کرتے ہوئے کہا کہ انسان آتے جاتے رہتے ہیں مگر اُن کے اصول ہمیشہ زندہ
رہتے ہیں اور جو لوگ اصولوں کی خاطر زندہ رہتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے امر
ہوجاتے ہیں ۔ بلاشبہ انہوں نے بالکل درست کہا تھا۔ وہ آج بھی لوگوں کے دلوں
میں زندہ ہیں اور اُن کے لیے جو احترام اور عزت ہے وہ شائد کسی اور کو نصیب
نہیں ہوا۔ اُن کے مخالفین بھی اُن کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ ان
کادامن ہر طرح کی کرپشن، لالچ اور مالی بد دیانتی سے پاک رہا جو آج کل کے
سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ قائد اعظم کے سیکریٹری، آزادکشمیر کے صدر اور
قائد حزب اختلاف رہنے کے باوجود بیرسٹر کے ایچ خورشید وہ پوری عمر کرائے کے
مکان میں رہے، وفات پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے ہوئی ا ور مرتے وقت
جیب سے صرف 37روپے نکلے۔ کیا آج پورے پاکستان اور آزادجموں کشمیر میں کوئی
ایک بھی سیاسی راہنماہے جو اُن جیسا ہو؟
موجودہ صدر ریاست آزادجموں کشمیر جناب سردار مسعود احمد خان بین الاقوامی
امورکے ماہر ہیں۔وہ چین اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں
اوربین الاقوامی حالات کو بہت اچھی طرح سمجھنے کے ساتھ مشکل حالات میں
سفارت کاری کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔سویڈن کے حالیہ دورہ میں ان کے ساتھ
تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ وہ بہت نفیس اور زیرک انسان ہیں۔جب انہیں آزادجموں
کشمیر کی کرسی صدارت پر بٹھایا گیا تو لوگوں کو ان سے بہت زیادہ توقعات
تھیں کہ وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں گے کیونکہ وہ بین
الاقوامی امورکے ماہر ہیں اور ان کا اپنا تعلق بھی ریاست جموں کشمیر سے ہے۔
مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے انہوں نے کئی ممالک کے دورے کیے ہیں لیکن
افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑے گا کہ یہ دورے بھی ماضی میں ہونے والے دوروں
جیسے ہی ہیں اور ان سے مسئلہ کشمیر کے لیے کوئی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر نہیں
آتی۔ اپنے ان دوروں میں ان کی زیادہ تر سرگرمیاں مقامی پاکستانی اور کشمیری
برادری کو ملنے پر مرکوز ہوتی ہیں اور اگرچہ کہیں کہیں مقامی سیاست دانوں
اور میڈیا سے بھی غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں لیکن ایسی ملاقاتیں تو
ستر سال سے دوسرے کشمیری راہنما بھی کررہے ہیں۔ سردار مسعود احمد خان سے
توقع تھی کہ وہ جن ممالک کا دورہ کریں وہاں کے سربراہوں اور وزراء خارجہ سے
سرکاری طور پر ملاقاتیں کریں گے اور انہیں مظفرآباد کے دورہ کی دعوت دیں گے۔
وہ میزبان ملک کی وزارت خارجہ کے حکام سے سرکاری سطح پر مذاکرات کریں گے۔
وہ آزادجموں کشمیر کے صدر کی حیثیت سے اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی
کانفرس اور دیگر عالمی اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کو
پیش کریں گے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے ۔سردار مسعود احمد خان اپنے ذاتی
اوصاف اور خوبیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر نہیں کرسکے
اور اس میں ان کاکوئی قصور نہیں بلکہ اصل مسئلہ حکومت آزادجموں کشمیر کی
حیثیت کا ہے۔ عالمی حمایت حاصل کرنے سے قبل آزادکشمیر حکومت کی حیثیت کا
تعین اور اسے بااختیاربنانابہت ضروری ہے تاکہ وہ خود عالمی سطح اپنا مقدمہ
پیش کرسکے۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر
اجاگر کیا جاسکتاہے ۔سردار مسعود احمد خان کوآزادجموں کشمیر کے منصب صدارت
پر بٹھایا گیا تب بھی اپنے کالموں ’’ صدر بنایا ہے تو کردار بھی دیں‘‘ اور
’’صدر ریاست اور مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری ‘‘ میں انہی خدشات کے پیش نظر
گذارشات کیں تھیں کہ انہیں صدر کے عہدے کا کردار اور اختیارات بھی دیئے
جائیں بصورت دیگرسفارت کاری کا تجربہ اور ذاتی صلاحتیں کسی کام کی نہیں
کیونکہ بقول علامہ اقبال عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بنیاد ۔ |