پردیسی کی کہانی

روز کی طرح آج بھی ریحان کی توجہ دور بیٹھے اس باریش شخص کی طرف مبذول ہوگئی جو نماز کے بعد دیر تک دعا میں ہاتھ اٹھائے رکھتا اور اس کے آنسو ایک تواتر سے بہتے رہتے.

ریحان کو ابھی ٹورانٹو پہنچے دو مہینے ہی ہوے تھے، نیا ملک، نیا معاشرہ، بیوی اور معصوم بچے کا ساتھ اور پیچھے پاکستان میں موجود ذمہ داروں کا احساس نے اس کے دن اور راتوں کو پہیا لگا دیا تھا. دو نوکریاں کرنے کے باوجود وه کینیڈا اور پاکستان کے اخراجات کے توازن میں لگا ہوا تھا.اس کے باوجود اس کی کوشش ہوتی کہ اپنی دو نوکریوں کے بیچ کے وقت میں کم از کم ایک نماز وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرے. وہ گزشتہ کافی روز سے ان صاحب کو دیکھ رہا تھا اور روز وقت کی کمی کے باعث ان سے پوچھ نہ پاتا.

آج ہفتے کا دن تھا اور اس نے کام سے بہت دنوں کے بعد چھٹی لی تھی، ویسے تو ہفتہ، اتوار ویک اینڈ کہلاتا تھا لیکن وہ آمدنی کی کمی کے باعث یہ دو دن بهی پارٹ ٹائم نوکری کی نظر کرتا تھا. آج اس کو پھر وہی صاحب نظر آے لیکن آج ان کے انداز و اطوار میں ایک سکون تھا. قرآن پاک پڑهتے ہوئے ان کی آنکھیں چھلک جاتیں مگر وہ حوصلے سے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے. ریحان ان کے قریب بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگا. تهوڑی دیر بعد جب وہ صاحب اور ریحان دونوں فارغ ہوئے تو ریحان نے ان کو مخاطب کر کے کہا :
میں آپ کو گزشتہ دو مہینے سے مسجد میں روز دیکھتا ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے بھی یہ راز بتائے کہ آپ کی آنکھیں ہر وقت پرنم کیوں رہتی ہیں؟
وہ صاحب ٹهنڈا سانس لے کر بولے :
میری کہانی لمبی ہے اور یہاں زندگی مصروف. کیا اتنا وقت نکال پاوگے. "
ریحان بے تابی سے بولا :
پلیز!
آج میرے پاس وقت ہے. آپ مجھے اپنا حال سنائے. "
وہ صاحب بولے :

میرا نام شفیق الرحمان ہے. میں اور میری بیوی شادی کے فورا بعد امیگریشن کے زریعے کینیڈا آگے. اللہ نے ہمیں دو بچوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے نوازا. میں اور میری بیوی دونوں نوکری کرتے کیونکہ پاکستان میں میری پانچ بہنوں کا میں اکلوتا بهای تھا اور ان کی شادی بیاہ کی زمہ داری میرے سر تهی.میرے والدین اور بهائی کی خواہش تھی کہ ایک بڑی کوٹھی جلد از جلد خرید کر رشتہ داروں کو متاثر کیا جائے نیز بهائی کے کاروبار کے لئے پیسوں کا بندوبست، ماں باپ کا حج کی خواہش غرض خواہشات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا اور ہم تهے. ان تمام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے میں اور میری بیوی ڈالر چھاپنے کی مشینیں بن گئے جب ان ذمہ داروں سے فارغ ہو کراپنی طرف دھیان دیا تو ٹورانٹو میں گھروں کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوگیا تھا چنانچہ ہم نے ادھر اپارٹمنٹ خرید لیا. میرے بچے اب یونیورسٹی کے طالبعلم تهے. ہماری آنکھیں اس دن کهلیں جب ہمارے بیٹے نے اپنی ایک کلاس فیلو سے شادی کا اعلان کیا. ہم نے اس کو لاکھ سمجھایا کہ ایک غیر مسلم سے اس کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے. جوان خون بغاوت پر آگیا ،عشق کا بهوت سر پر ناچ رہا تھا لہذا ہمیں سزا دینے کے لے اس نےپانچویں منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی. اللہ کو اس کی زندگی منظور تھی اور جس لڑکی کے عشق میں وہ پاگل ہو کر زندگی چھوڑنے پر راضی تھا، وہ اس کے معذور ہونے کی خبر سن کر اس سے ملنے بھی نہیں آئی لیکن میں اللہ کا احسان مند ہوں کہ اس نے میرے بیٹے کو حرام موت سے بچایا. میں روز سوره رحمان کی تلاوت کرتا ہوں اور جب اس آیت پر پہنچتا ہوں :
فبای الاء ربکما تکذبان.
تو اللہ سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں شکر گزاروں کی صف میں داخل کردے.
مسجد سے نکلتے ہوئے انہوں نے ریحان کو گلے لگا کر کہا :
بیٹا! روزگار کے چکر میں اولاد کی تربیت نہ بهول جانا. ہر شخص کو اللہ دوسرا موقع نہیں دیتا. میرا بیٹا فزیوتھراپی کے لمبے عرصے کے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گا. مگر اللہ نہ کرے کہ کسی اور ماں باپ کو دیار غیر میں یہ دن دیکھنا پڑے.
ریحان نے ارادہ کیا کہ وہ یہ غلطی نہیں دہراے گا.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281206 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More