میں واللہ صدر پاکستان ہوتا‘ حبیب جالبؔ رخصت ہوئے 25سال بیت گئے

میں صدر پاکستان ہوتا ‘ شاعر عوام حبیب جالبؔ کی مشہور نظم ہے ۔
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
میری انگلش بھی بلا کی ہوتی
بلا سے جو نہ میں اردو دان ہوتا
سر جھکا کے جو ہوجاتا ’سر‘ میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں و اللہ صدر پاکستان ہوتا

مجھ میں اور حبیب جالب ؔ میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ جالب24 مارچ1928ء کو دنیا میں آئے اور1993ء میں 12 کو مارچ کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ میں بھی مارچ کی 25 کو لیکن1949ء کو اس دنیا میں آیا سرِ دست واپسی کی تاریخ نہیں معلوم کیا ہوگی، شاید مارچ ہی ہو۔جالبؔ کو جن لوگوں نے دیکھا اور سنا ان لوگوں میں مَیں بھی شامل ہوں۔ اس قدر بے باک مزا حمتی لہجہ اور خوبصورت انداز ، لہن میں سوز اور درد، میں نے اپنی زندگی میں کوئی اور ایسا دیکھا نہ سنا۔ جالبؔ نے ہندوستان کی سرزمین مشرقی پنجاب کے علاقے میانی افغاناں ضلع ہوشیار پور میں دیہاتی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کی جب کے سیکنڈری تعلیم دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں حاصل کی۔ جالبؔ کو پیدائشی شاعر کہا جوئے تو غلط نہ ہوگا۔پہلا شعر ہفتم جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے کہا وہ یہ تھا ۔اسی طرح دوسرے شعر کی وجہ نمازیوں کو نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگتے دیکھ کر جو کیفیت جالبؔ کے ذہن میں آئی جالب نے اسے شعر میں اس طرح بیان کیا ؂
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے

حبیب جالبؔ کی شاعری میں میٹھا میٹھا سوز و گداز اور دل میں اتر جانے والی ایسی ٹھنڈنک ہے جس کی حساسیت اور چاشنی کو وہی لوگ بہتر طور پر محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اس ٹھندک کامزا حبیب جالب ؔ کو بھرے مجمع میں ترنم اور لے سے شعر پڑھتے ہوئے سنا ہو۔حبیب جالب کے اشعار ہی میں گہرائی و گیرائی نہیں ہے اس کی آواز میں بھی شیرینی تھی، میٹھاس تھا، سحر تھا، مقناطیسیت تھی۔بقول فراق گورکھپوری ’’میرابائی کا سوز اور سورداس کا نغمہ جب یکجا ہوجائیں تو اسے حبیب جالب کہتے ہیں‘‘۔ لیکن جالب اپنا تعارف اپنے ایک شعر میں
بہت ہی خوبصورت انداز سے کراتے ہوئے کہتے ہیں ؂
وہ جو ابھی اس راہ گزرسے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب ؔ جالبؔ کہتے ہیں

حبیب جالب ایک عوامی شاعر تھا، اس نے عوام الناس کے خیالات اور جذبات کی ترجمانی انتہائی خوبصورت انداز سے کی۔ دل میں اتر جانے والے اشعار لوگ اٹھتے بیٹھتے گن گنا یا کرتے تھے۔ عوام نے ہی اپنے محبوب شاعر کو ’’شاعرِ عوام ‘‘ کا خطاب دیا تھا ۔ جالب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ہندوستان میں ہی محنت مزدوری سے کردیا تھا۔ پاکستان ہجرت کی تو یہاں بھی انہیں مزدوری ہی کرنا پڑی۔ شاعری اور مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ 1948ء سے شروع ہوا۔ نام حبیب احمد تھا مستؔ تخلص کیا کرتے تھے اس طرح وہ شروع میں حبیب احمد مستؔ میانوی کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی ہجرت کی اور گورنمنٹ سیکنڈری اسکول جیکب لائن میں درجہ دہم میں داخلہ لیا۔ اورینٹل کالج لاہور میں بھی پڑھا ۔ عملی زندگی میں بطور پروف ریڈر کے کام کیا ،1952ء میں ھاری تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اسی تحریک کے رکن کی حیثیت سے پہلی بار گرفتاری عمل میں آئی۔1956ء میں نیشنل عوامی پارٹی جو اب اے این پی ہے میں شمولیت اختیار کی اور آخر تک اسی جماعت میں رہے۔

حبیب جالب ؔ پر تحقیق و توصیفی کام کرنے والوں میں یوں تو کئی نام لیے جا سکتے ہیں لیکن ان میں مجاہد بریلوی ایک ایسا نام ہے جس نے جالب سے حق تعلق و دوستی کو خوب خوب نبھایا۔ ان کی کتاب ’’جالب جالب‘‘ جالب کا تعارف نامہ کہی جاسکتی ہے۔ اس کے علا وہ ’کوئی تو پرچم لے کرنکلے‘،’ بیادِ جالبؔ ‘،’حبیب جالبؔ فن اور شخصیت‘ مجاہد بریلوی کی تصانیف ہیں۔جالب ایک بہت بڑا شاعر، نفیس انسان، حوصلے اور ہمت کا مالک تھا ۔ اس پر تحقیق و تصنیف کا عمل اس کی زندگی سے جاری ہے اور یہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہے گا۔ جالبؔ پر سعید پرویزنے بہت کام کیا کئی کتب مرتب کیں،ان کے علاوہ طاہر اصغر، ضیا ساجد، ظہور احمد خان اور عبد الرحمان اور دیگر کے کام منظر عام پر آچکے ہیں۔ حبیب جالب کے جو مجموعے منظر عام پر آئے ان میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے، عہد سزا، حرف حق، اس شہر خرابی میں ،جالب نامہ، حرف سردار، کلیات حبیب جالب اور فلمی گیتوں کا مجموعہ رقصِ زنجیر شامل ہے۔

مجھے حبیب جالبؔ کو نذدیک سے دیکھنے ، مشاعروں میں سننے اور جنرل محمد ایوب خان،جنرل محمد یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومتوں میں جلسے جلوسوں اور بڑے بڑے ا جتماعات میں حکومت کے خلاف ان کی نظمیں سننے کا بار ہا اتفاق ہوا۔’’دستور‘‘ حبیب جالب کی ایسی نظم تھی کہ جس نے عوام الناس کو حبیب جالب کے عشق میں گرفتار کردیا۔ اس نظم سے ہی جالب کی انقلابی شاعر کے دور کا آغاز ہوا۔ اس نظم نے حکومت وقت کو بھی ہلاکر رکھ دیا۔اگر یوں کہا جائے کہ اس نظم نے حبیب جالب کو زندہ جاوید کردیا تو غلط نہ ہوگا۔ ایوب خان نے جو دستورقوم کو دیا تھا یہ نظم اس کے خلاف اعلان بغا وت تھا حبیب جالب نے اپنی یہ نظم سب سے پہلے مری کے ایک مشاعرہ میں پڑھی تھی، پھر کیا تھا، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر ایک زبان پر یہی شعر ہوا کرتا، حبیب جالب جس مشاعرہ میں جاتے ، اجتماعات میں ہوتے یہی فرمائش ہوا کرتی کہ آپ اپنی وہی نظم ’دستور‘‘ سنائیں اور حبیب جالب اپنے مخصوص انداز، آواز اور لب و لہجہ کے ساتھاپنی یہ نظم سنایا کرتے، لاکھوں کے مجمعے میں حبیب جالب کی آواز لوگوں کے دلوں میں اتر جایا کرتی ؂
دیپ جس کا محلات ہی میں چلے..........چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے.................... ایسے دستور کو صبح بے نور کو
................................................میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا

حبیب جالبؔ کو اس نظم کی پاداش میں جیل جانا پڑا ، جھوٹا مقدمہ بنا یا گیا تھا، مقصد یہ تھا کہ حبیب جالب آزاد نہ رہیں لیکن حکومت وقت کو پسپہ ہونا پڑا، اب حبیب جالب ان کی نظمیں اور جیل لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ نظریاتی طو پر حبیب جالب سرخے تھے یعنی سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے، سخت گیر نظریاتی انسان تھے۔ انہوں نے ولی خان کی جماعت نیشل عوامی پارتی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی تھی اور آخر وقت تک اسی جماعت سے وابستہ بھی رہے۔ ایوبی دور حکومت میں حبیب جالب کے مجموعہ کلام ’’سر مقتل ‘‘ پر پابندی لگا دی گئی۔ جالب کب چپ رہ سکتے تھے پکار اُٹھے ؂
مرے ہاتھ میں قلم ہے، مرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا دبا سکے گا ، کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امنِ عالم ، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں ، تُو غروب ہونے والا

اس سے قبل جالب ایک ایسا شعر کہہ چکے تھے کہ جو جالبؔ کی پہنچان بن گیا تھا۔ کسی بھی مشاعرہ میں یا اجتماع میں جہاں جالب کو شرکت کرنا ہوتی، تو یہ شعرضرور تحریر ہوا کرتا ؂
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جا نب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

حبیب جالب ایک جانب عوام کی ترجمانی کر رہے تھے تو دوسری جانب سنجیدہ شاعری کی جانب بھی ان کی بھر پور توجہ تھی۔ فلمی شاعری بھی کی ان کے بعض بعض فلمی گانے بے انتہا مقبول ہوئے۔ ۱۹۶۶ء میں انہیں گریجویٹ ایوارڈ دیا گیا ان کا لکھا ہوا گانا احمد رشدی نے
گایا اور موسیقار مصلح الدین تھے اور فلم تھی ’’جوکر‘‘ ؂
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی

نگار ایوارڈ سے بھی انہیں نوازا جاتا رہا، ۱۹۶۹ء، فلم ’’زرقا‘‘ گلوکار مہدی حسن ، موسیقی کار رشید عطرے تھے ۔ اس گیت کو عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی ، یہ جالب کی معروف نظم تھی جس کا عنوان تھا ’’نیلو‘‘ ؂
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی...............رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار د ر کی جرأت ہوئی تو کیونکر............سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جا تا ہے

بعد کے سالوں میں بھی نگار ایوارڈ جالب صاحب کو ملتے رہے، ان کے علاوہ انجمن تحفظ حقوق نسواں ایوارڈ ، گریجویٹ ایوارڈ، حسرت موہانی ایوارڈ ، جمہوریت ایوارڈ ، سوھن سنگھ جوش ایوارڈ، قومی فلم ایوارڈ ، نگار ایوارڈ اور ، نشان امتیاز1994ء میں بعد از مرگ حکومت پاکستان نے عطا کیا۔ایوب خان نے اقتدار اپنے ہم منصب جنرل محمد یحییٰ خان کے سپر د کردیا۔ ایوب خان کے اقتدار کا سورچ غروب ہو چکا تھا اس کے باوجود حبیب جالب کی نظم دستور کی مقبولیت میں کمی نہ آئی تھی کہ انہوں نے دوسرے آمر کو اُسی لب ولہجہ میں مخاطب کیا ، ان کی یہ نظم بھی اسی رح مقبول ہوئی ؂
تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
چھوڑ نا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا

مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا، بھلا جالب کیسے برداشت کرسکتے تھے، وہ پکار اٹھے ؂
محبت گولیوں سے بو رہے ہو............وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گما ں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے...........یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

مغربی پاکستان اب صرف پاکستان تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی بر سرِ اقتدار آئی، بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیں لیکن جالب تو اصولوں کے بنے ہوئے تھے۔ نظریاتی انسان تھے، اپنے اصولوں اور نظریات پر قائم رہے جس کانتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو صاحب اور حبیب جالب ؔ کے راستے بھی جدا ہوگئے۔حبیب جالب ؔ نے لاہور سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن اپنی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا، بھٹو کا طلسم گلی گلی کوچے کوچے عام تھا، اس سیلاب نے تو بڑوں بڑوں کی ہوا نکال دی تھی۔ بھلا حبیب جالب اس طوفان سے کیسے مقابلہ کرسکتے تھے۔ ہار تو یقینی تھی لیکن جالب کے لیے ایک اور کٹھن وقت شروع ہوگیا۔ جالب توظلم و ستم بر داشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا تھا، وہ تو یقین و ایمان کی منزل پر تھا، جہد مسلسل اور ہر کٹھن سے کٹھن مرحلہ کو اپنی جان پر جھیلنے کا حوصلہ اس میں موجود تھا۔ اپنی اس قوت کے بارے میں ہی اس نے کہا تھا ؂
غم اٹھانے میں ہے کمال ہمیں
کر گیا فن یہ لازوال ہمیں

جالب کو1976ء میں حیدر آباد سازش کیس میں جیل جانا پڑا۔مجاہد بریلوی نے لکھاکہ گرفتاری کے بعد ڈی ایس پی نے حبیب جالب سے کہا ’’آپ کے دیگر کامریڈوں سے بات ہوگئی ہے انہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے اگر آپ بھی ولی خان کے خلاف بیان لکھ دیں تو ہم آپ کو ابھی چھوڑ دیں گے ورنہ عمر بھر حیدر آباد جیل میں سڑتے رہیں گے۔یہ ایسا کیس ہے جس میں آپ شاید ہی زندہ بچیں‘‘۔ جالب ؔ نے ڈی ایس پی سے کہا ’’جیل میں تو شاید چند سال جی بھی لوں مگر معافی نامہ لکھ کر میں چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا بہتر ہے کہ آپ اپنی کاروائی کریں‘‘، ڈی ایس پی نے بڑے غصے سے حوالدار سے کہا ’’اس کو ہتھکڑی ڈالو ۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر حیدر آباد روانہ کردیا‘‘۔یہ تھا ایک نظریاتی ، بااصول اور نڈرانسان کا کردار۔اس دور میں حبیب جالبؔ کی ایک نظم ’’ممتاز‘‘ لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو ہر خاص و عام کی زباں پر عرصہ دراز تک عام رہی بلکہ آج بھی لوگ اسے نہیں بھولے، حبیب جالبؔ کی اس نظم نے بہت مقبولیت حاصل کی ؂
......قصر شا ہی سے ، یہ حکم صادر ہوا ، لاڑکانے چلو
.................................... ورنہ تھانہ نے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلو
....................................ورنہ تھانہ نے چلو

حبیب جالب ؔ کے کردار اور اصولوں کی شفافیت ، اعلیٰ ظرفی اور جرت اظہارکا اندازہ اس واقع سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ جس شخص نے انہیں جھوٹے مقدمہ میں جیل بھجوایا، جب تک وہ بر سر اقتدار رہا ، جالب ؔ صاحب اس کے غلط اعمالوں اور برائیوں کی نشان دھی اپنی نظموں میں کرتے رہے اور بانگ دھل کرتے رہے۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کا سورج با لآخِرتمام ہوا۔ حبیب جالب ایک مشاعرہ میں پہنچے ، لوگوں نے ’’لاڑکانے چلو ، لاڑکانے چلو ‘‘کی صدائیں بلند کرنا شروع کیں، حبیب جالب کو اپنے سامعین کی یہ فرمائش با کل پسند نہیں آئی ۔ آپ نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ’’میں حکمرانوں کے خلاف اس وقت شعر پڑھتا ہوں جب وہ اقتدار میں ہوں‘‘۔ بھٹو صاحب اس وقت جیل میں ہیں ان پر مشکل وقت ہے ۔ اعلیٰ ظر فی اورمعاف کردینے کی یہ اعلیٰ مثال جس کا عملی مظاہرہ جالبؔ نے کیا۔ہماری سیاست میں کم کم پائی جاتی ہے۔اب ملک پر ایک اور آمر مسلط ہوچکا تھا۔ بھٹو صاحب جیل جاچکے تھے۔ ان پر قتل کا مقدمہ چلایا جارہا تھا حبیب جالبؔ نے نئے آنے والے آمر جنرل ضیاء الحق کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار پھر انہیں یاد دلا یا ؂
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صباء ، بندہ کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اور پھر یہ بھی کہا ؂
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
کہاں تک دوستوں کی بے رخی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سر مقتل نکلتے ہیں

ضیاء الحق کے دور میں سیاسی لوگوں کے علاوہ ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کو بھی پابند سلاسل کیاگیا۔ مافی ناموں پر لوگوں کو رہائی کے احکامات صادر کئے گئے۔ حبیب جالبؔ کوٹ لکھپت جیل میں تھے ، انہوں نے وہاں سے مافی نہ مانگنے کا مشورہ دیا ۔ ان کی یہ نظم جیل سے باہر چلی گئی اور مقبول ہوگئی، حکام بالا کے علم میں یہ بات آئی تو جیل میں آپ کی سرزنشت ہی نہیں ہوئی بلکہ آپ کو میانوالی جیل منتقل کردیا گیا۔ جالبؔ صاحب نے کا کہنا تھا کہ میانوالی جیل میں ہم اس کمرہ میں رہے، جہاں جواہر لعل نہرو، مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو رہے تھے۔ جالب کی اس نظم کے چند اشعار یہ تھے ؂
دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو.................موت مانگو رہا ئی نہ مانگو
عمر بھر سر جھکائے پھرو گے.....سب سے نظریں بچائے پھروگے
اپنے حق میں برائی نہ مانگو.................موت مانگو ، رہائی نہ مانگو

ضیاء الحق کے بعد بے نظیر اور پھر میاں نواز شریف کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ حبیب جالب کی عمر بڑھتی جارہی تھی، وہ بیمار رہنے لگے تھے لیکن انہوں نے اپنی شاعری کے توسط سے مسائل اور مشکلات کی نشادھی ، ظلم و زیاتی کے خلاف شعر کہنا ترک نہیں کیا۔ بے نظیر نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں جالب صاحب کو ان کی کتاب ’’حرف سردار‘‘ کے لیے انعام و اکرام سے نوازا ۔ آپ نے حکومت سے دیگر مراعات لینے سے انکار کردیا۔ بے نظیر کی حکومت کے دوران ان کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے غریبوں کے حالات تبدیل نہ ہونے کا گلا
کیا۔ ؂
وہی حا لات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

بے نظیر کی پہلی حکومت تو چلی گئی ، پر حالات تبدیل نہ ہوئے۔ نواز شریف کا دور حکومت شروع ہوا، جالب صاحب میں وہ تن تناؤ نہیں رہ گیا تھا۔ بیماریوں اور پریشانیوں نے انہیں گھیر لیا تھا ،پر اندر کا شاعر توانا تھا ۔ نواز شریف نے بلند بانگ دعوے کیے، عوام کی فلاح کے لیے بہت کچھ کرنے کی باتیں کیں، ایک موقع پر انہوں نے عوام کی خاطر اپنی جان دینے کی بات بھی کی، جب کے عمل اس کے برعکس دکھا ئی دیا جالبؔ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے ایک نظم کہی جو بہت مقبول ہوئی ؂
نہ جان دے دو، نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دو
زیاں جو کرچکے ہو قوم کا
تم اس کا بل دے دو

جالبؔ کو دکھوں اور بیماریوں نے گھیر لیا تھا، ان کی صحت دن بدن گرتی ہی جارہی تھی، کبھی ایک اسپتال میں کبھی دوسرے اسپتال میں، حتیٰ کہ انہیں علاج کے لیے ملک سے باہر بھی لے جایا گیا، یکے بعد دیگرے بیماریاں ان پر حملہ آور ہوتی گئیں۔ ایک نڈر ، بے باک، بہادری کا پیکر جس نے بڑے بڑے فوجی آمروں اور حکمرانوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اپنی بیماری کے ہا تھوں بے بس ہوگیا تھا۔ اپنی اسی بے بسی کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ؂
..............بہت تذلیل تو کرلی ہماری زندگانی کی
اجازت موت کی اب ہم کو بن کے رحم دل دے دو

عوام کے دلوں کی ترجمانی کرنے والا یہ نڈر، بے باک، با ہمت،حوصلہ مند ، شاعر ۱۳ ارچ ۱۹۹۳ء کو۶۵ برس اس دنیا میں گزارنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔جالب ؔ کا ہی شعر ؂
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
جالب ؔ نے اپنے دنیا سے رخصت ہونے پر یہ نوحہ ازخودلکھا ؂
اپنے سارے درد بھلا کر اوروں کے دکھ سہتا تھا
ہم جب غزلیں لیتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا
آخر چلا ہی گیا وہ روٹھ کر ہم فرزانوں سے
وہ دیوانہ جس کو زمانہ جالب جالب کہتا تھا

امجد اسلام امجد نے جالب کی رخصتی پر جو نظم کہی اس کے چار مصرے درج ہیں ۔ اﷲ جالب کی مغفرت کرے۔ آمین ؂
جس آوارہ دیوا نے کو جالب کہتے تھے
ہستی کی اس راہ گزر سے اب وہ جاتا ہے
اے مٹی، اے ارض و طن، لے اپنی باہیں کھول
تیری جانب لوٹ کے تیرا شاعر آتا ہے

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437253 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More