کشمیر میں خاند ان جموں کی حکومت کا دوسرا دور۔۔۔۔ایک نظر میں

راجہ نل سین کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر لوگوں نے اس کو بیٹوں کے ہمراہ محل میں جلا کر نشان عبرت بنا تے ہوئے 1625 ق م گودھر خاندان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔اس کے بعد کشمیر میں اتفاق رائے سے خاندان جموں کے فرد گھوکرن کو 1625ق م میں کشمیر کا حکمران بنا دیا گیا۔راجہ گھوکرن عدل و انصاف اور امن وامان کا دور واپس لایا۔اس راجہ کو تیرتھوں کی زیارت کا بڑا شوق تھاجس کے لیے وہ ہندوستان کے لیے روانہ ہوا۔ قنوج پہنچنے پر راجہ قنوج نے اس پر فوج کشی کی ٹھان ی تو اس نے بات چیت اور صلح صفائی سے معاملات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔تیرتھوں کی زیارت کے بعد یہ راجہ تقریبا3سال بعد واپس کشمیر وارد ہوا۔"کوہ ماران"میں" شارکا دیوی"کا مندر تعمیر کروایا۔اس مندر کے اخراجات کے لیے"موضع برنڈر"وقف کیا۔آخر کا 36سال کی حکمرانی کے بعد 1589ق م کو راجہ گھوکرن دنیا فانی سے چل بسا۔

راجہ گھوکرن کی وفات کے بعد 1589ق م کو پرہلاد تخت نشین ہوا۔راجہ پرہلاد ایک متقی، پرہیز گار، فقیر دوست، عابد اور عادل حکمران تھا۔ایک فقیر کی ملاقات نے اس کو دنیا سے منہ بھیرنے پر مجبور کردیا۔اس راجہ کے دور میں "کوہ شیر کوٹ"پر "مندر پرتی شور"تعمیر کروایا۔11سال کی حکومت کے بعد یہ راجہ قپنے وزیر بمبورکو تاج پہنا کر خود دنیا کے آرام و آسائش چھوڑ کر چل بسا۔

راجہ پرہلاد کے بعد وزیر بمبور نے عدل و انصاف اور جود وسخا سے حکومت کی۔بمبور کا تعلق بھی جموں خاندان سے تھا ۔راجہ بمبور اپنے چچا زاد بھائی کی بیوی"لولری"کا عاشق ہو گیا۔دل بے تاب کو یہ راجہ نہ سنبھال سکااور اس کے عشق کا چرچہ پورے کشمیر میں پھیل گیا۔لولری کے عشق میں یہ غزلیں گانے اور نظمیں پڑھتے ہوئے مجنون کی حالت اختیار کر گیا۔آج تک "لولو، لولری اور بمبر"کے ترانے آج بھی مشہور ہیں۔اس خبر نے لولری کو بھی جوابا عشق کرنے پر مجبور کر دیااور لولری بمبور پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو گئی۔لولری کے خاندان نے اس کو گھر میں محبوس کر دیا۔بمبورلولری کے عشق میں8سال کی حکومت کے بعد1570ق م کو بادشاہی کو ترک کرتے ہوئے فقیرانہ حالت میں ویرانے کی طرف چل پڑا۔کچھ ہی عرصہ بعد بمبور کی زندگی کا چراغ گل ہو گیااسی وقت قید خانے میں لولری بھی مر گئی۔یوں دونوں عاشق اور معشوق کا قصہ تمام ہوا۔بمبور کے تارک الدنیا ہو کر مر جانے کے باعت کشمیر پر سے جموں خاندان کے دوسرے دور کا خاتمہ ہوا

AMAR JAHANGIR
About the Author: AMAR JAHANGIR Read More Articles by AMAR JAHANGIR: 33 Articles with 30404 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.