اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ
اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش میں 28 جولائی 2017ء کو پاکستان کے منتخب
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا۔ اس کے بعد میاں محمد
نواز شریف کے حامیوں کے بیانات کا سلسلہ شروع ہوا، اس کی زد میں ایک کارکن
رہنما سینیٹر نہال ہاشمی آئے جن پر توہین عدالت لگائی گئی، اُن کی سینیٹر
شپ ختم کی گئی اور اُن کو ایک ماہ سزا اور پانچ سال کے لئے نااہل قرار دے
دیا گیا۔ اس کے بعد دو وزراء دانیال عزیز اور طلال چوہدری بھی توہین عدالت
کی زد میں آگئے۔ ان کے فیصلے ابھی آنے ہیں۔ سابق سینیٹر نہال ہاشمی ایک ماہ
کی سزا کاٹ کر باہر آئے تو ایک بار پھر اپنے جوشِ خطابت کو قابو نہ کر سکے
اور ایک بار پھر توہین عدالت کی زد میں آگئے، اب دیکھتے ہیں اُن کے ساتھ
کیا سلوک ہوتا ہے۔ توہین عدالت تو اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں کئی اور
لوگوں نے بھی کی ہے مگر ابھی مسلم لیگ (ن) زیر عتاب نظر آتی ہے۔ پہلے میاں
محمد نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا پھر اُن سے پارٹی کی
صدارت کا منصب بھی چھین لیا گیا حالانکہ اُن کو یہ منصب پارلیمنٹ کی منظوری
کے بعد ملا تھا۔ یعنی عدالت کا نااہل کیا گیا شخص پارٹی صدر بن سکتا ہے مگر
عدالت عظمیٰ نے اس کو بھی قبول نہ کیا اور فیصلہ اس کے خلاف دے دیا۔ مگر
مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے
تمام فیصلوں کو من و عن قبول کیا۔ البتہ میاں محمد نواز شریف نے عوامی مہم
کو زیادہ مؤثر انداز میں شروع کیا۔ عدالت عظمیٰ کی نااہلی کے فیصلے کے بعد
جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے اُن میں اکثریت میں مسلم لیگ (ن) کو واضح
کامیابی ملی۔ سینیٹ کے الیکشن سے قبل بھی عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ سنایا
اور اپنے فیصلے میں کہا کہ سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے نامزد
اُمیدواران آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے
واضح کامیابی حاصل کی۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد میاں
محمد نواز شریف عدالت عظمیٰ کے تقدس اور احترام کا خیال کر رہے ہیں۔ ہر جگہ
اور ہر عدالت میں خود کو پیش کر رہے ہیں مگر کیا پارلیمنٹ آف پاکستان کی
کوئی عزت نہیں ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کی کوئی عزت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کا کام
کیا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہوتا ہے۔ جب قانون سازی ان کا کام
ہے تو پھر ان کی کی گئی قانون سازی کو عزت و احترام کیوں نہیں مل رہا۔
ارکانِ پارلیمنٹ کو پاکستان کے عوام منتخب کرتے ہیں۔ ان کے ووٹ کی بھی عزت
و توقیر ہونی چاہئے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔
پاکستان سب کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جب ووٹ کے تقدس کا خیال نہیں رکھا
جائے گا تو پھر کیا توہین عوام نہیں ہو گی۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہو گا۔
اس سے پاکستان کے دُشمن فائدہ اُٹھائیں گے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی
کوشش کریں گے۔ عدالت عظمیٰ کو قانون کی بالادستی کے لئے کام کرنا چاہئے۔
پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہوتا ہے اس کو اس کے لئے مخلصانہ کوشش کرنی
چاہئے اور عوام کا کام اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے نمائندوں کو منتخب کرنا جو
ملک خداداد پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکیں۔
جناب چیف جسٹس آف پاکستان! کاش آپ پانامہ میں شامل تمام پاکستانیوں کا
احتساب کرتے۔ کاش آپ جس جس پاکستانی کا پیسہ بیرون ملک کے بینکوں میں پڑا
ہوا ہے اُس کو واپس پاکستانی بینکوں میں لاتے۔ کاش جس جس آمر نے پاکستان کا
آئین توڑ کر جمہوریت پر شب خون مارا اُن کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاتے۔
کاش جس جس جج نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا اُن کو بھی آپ سبق سکھا سکتے
اور کاش جو جو سینیٹر بھیڑ بکریوں کی طرح بکے اُن کو بھی آپ راہِ راست پر
لا سکتے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |