پچھلے دنوں ایک بہت اہم مسئلہ پیش آیا کہ ہندوستان میں
کسانوں کی بڑھتی ہوئی خود کشیاں انڈین حکومت کے لیے بہت بڑی پریشانی کا
باعث بن گئیں مجھے ایک ہندوستانی نے جو ایک ورکشاپ میں بیٹھا ہوا تھا مجھے
اپنے پاس بیٹھنے کا حکم دیا میں اس کے قریب بیٹھ گیا اس وقت مجھے یہ نہیں
پتا تھا کہ بندہ ہندوستانی باشندہ ہے اور پاکستان میں سیاحت کے ویزہ پر آیا
ہوا ہے اس نے مجھے کہا کہ ہم نے خبر پڑھی ہے کہ ہندوستان کے ڈیرھ کروڑ کسان
پچھلے پانچ سالوں میں خود کشیاں کر چکے ہیں اس کا کوئی کیسے سدّ باب کرے تو
میں نے کہا کہ ان کو اسلام قبول کر لینا چاہیے اور سود سے توبہ کر لینی
چاہیے کیونکہ سود سے انسان بہت سارے مسائل کا شکار ہوکر ذلّت و رسوائی کی
دلدل میں پھنس جاتا ہے اور آخر کار نتیجہ خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا
ہے تو اس بندے نے ہندوستان میں جاکر چینلز کے ذریعہ سے لوگوں کو آفر کی کہ
وہ خود کشیاں نا کریں ان کو سود کے بغیر قرض دیا جائے گا اور حکومت ان کے
قرضے معاف کر دے گی اس بات کا بہت اچھا اثر ہوا اور لوگوں سے خود کشیوں کا
رجہاں جاتا رہا اور میں نے ایک ہندوستانی چینل میں ایک وزیر کی سطح کے
اعلٰی عہدے دار کو مشورے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سنا لیکن مجھے اس بات کا
پتہ نہیں تھا ایک ہمارے ملک کو کینیڈا اور دوسرے ممالک کی زلزلہ پر دی گئی
امداد کو ہندوستان میں بھیج دیا گیا اور وہ زلزلہ کی امدادی رقم کروڑوں
بلین ڈالر بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا غبن اور گھپلا بھی ہوسکتا ہے
جس کا مجھ سے مسئلہ پوچھ کر ناجائز فائدہ اٹھایا گیا یہ بھی ہوسکتا ہے ایک
بہت بڑی امانت مین بہت بڑی خیانت بھی ہوسکتی ہے جس کا حساب ہمارے ملک کے
حکمرانوں کو دینا ہوگا کیونکہ سودی کاروبار کی موجودگی میں ایسی بڑے پمانے
پر کاروائیوں کا ہونا کوئی اچمبے کی بات نہیں ہے -
ایسی کاروائیاں کرنا ہمارے سیاست دانوں سے بعید نہیں ہے جن کے ہندوستان کے
ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور وہاں پر بینکوں میں ان کے شئرز ہیں بھارت سے
دوستی کا یہ بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے اسی لیے تو اللہ پاک نے مسلمانوں کو
قرآن میں حکم دے رکھا ہے کہ وہ مشرکوں یہودیوں عیسائیوں سے دوستی نہ لگائیں
کیونکہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کا نقصان کریں گے اور مسلمانوں کے خزانے لوٹ کر
لے جائیں گے اور پھر پاکستانی میڈیا پر طارق فتح جیسے انتہا پسند اور بے
وقوف انسان اسلامی تعلیمات پر سرعام تنقید کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ
پاکستان کے راہنما اردو کے علاوہ دوسری زبانوں والوں سے نا انصافی کر رہے
ہیں پنجابی والوں سے ظلم ہو رہا ہے سندھی زبان سے ظلم ہو رہا ہے اور
پاکستان کے حالات تب ٹھیک ہو سکتے ہیں جب پاکستان بکھر جائے گا اور پاکستان
کی فوج اور گورنمنٹ سے ملک کے خزانے سنھالے نہیں جائیں گے اور ہم آہستہ
آہستہ بغیر نہائے کلمہ سنا کر اور نا نماز نا روزہ اور ناعقل نا موت اور
پاکستان کا مال بھارت میں منتقل کرتے جائین گے اور پاکستان دنیا والوں سے
قرضے اٹھاتا رہ جائے گا یہ پاکستان کی تباہی کی بہت بڑی پیش رفت کر دی گئی
ہے کہ صاف صاف کہا جاتا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش سے 10 گنا بڑا منصوبہ
پاکستان کے لیے تیار کیا ہے اس میں بنگلہ دیش سے 10 گنا زیادہ فوج قید کی
جائے گی اور سکولوں سے لڑکے لڑکیاں لاکھوں کروڑوں بھیڑ بکریوں کی طرح
ٹرکّوں بھر کر لے جائیں گے اور پاکستان کے اسلحہ پر بھی قبضہ کر لیا جائے
گا اور ہمارے حکمران خود بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور
دوسروں کو بھی یہ حکم جاری کرتے ہیں کہ جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں
کرے گا اس کو دہشت گرد قرار دے کر قید کر دیا جائے گا یا مار دیا جائے گا
اور یہ حکم کوئی عام لوگ نہیں دے رہے بلکہ فوج کے جرنیل اور اعلٰی عہدے دار
دے رہے ہیں کہ ہم نے جو آنکھیں بند کر رکھی ہیں تو سارے مسائل کا حل یہی ہے
کہ پوری قوم آنکھیں بند کر لیں اور بڑے بڑے جرنیل یہ کہہ رہے ہیں کہ جب بھی
ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو سبز لباس والے اولیاء کرام کافروں کے گولے
کیچ کر کر کے واپس کافروں کے اوپر برسا رہے تھے تو اسلحہ اور فوج کی ضرورت
ہی نہیں ہے کیونکہ اولیاء کرام جو ہیں وہ ہماری تمام مشکلیں حل کر دیں گے
لیکن یہ بات ہمارے مسلمانوں کو نظر نہیں آرہی ہے کہ عراق مین تو گیارویں
والا پیر موجود ہے لیکن وہاں مسلمانوں کا کیا حشر ہوا ہے اور کربلا بھی نجف
عراق مین ہے جہاں شہیدان کربلا کے مزارات موجود ہیں اور را کے ایجنٹوں کو
ہمارے مسلمانوں پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی کہ صرف اتنا کہنا پڑتا ہے کہ
شہیدان کربلا کے تو روضے ہیں ان کو مزارات کہہ کر آل رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی توہین کی گئی ہےاور عوام اس بات پر مظاہرے کرنے شروع ہو جاتی ہے
ہمارے مسلمانوں کا اور یہ حال ہے ہمارے سیاست دانوں کا اور یہ حال ہے ہماری
فوج کا کہ طارق فتح جو ڈسکہ کی کسی خفیہ پناہ گاہ میں بیٹھ کر پاکستان کو
توڑنے کی سازشیں کرتا پھر رہا ہے اور میڈیا پر ایسے بیانات دے رہا ہے کہ
پاکستان کا وجود غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور پاکستان کو جلد صفحہ ہستی
سے مٹا دیا جائے گا اور بنگلہ دیش کی طرح اس کانم بھی بدل دیا جائے گا اور
ایسی مسجدیں بنائی جائیں گیں جن کا قبلہ مشرق اور ہندوستان کی طرف ہوگا اور
جو تھوڑے بہت مسجدوں مین نمازی ہیں ان کومسجدوں سے بھگا کر یہ بات منوائی
جائے گی کہ پہلے سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوا کرتا تھا اگر نیں مانیں گے
تو ان کی جائدادیں ضبط کر لی جائیں گی اور ان کو مار ڈالا جائے گا جو ہمارے
ملک میں مسجدوں میں حاضری کی صورت حال ہے کیا ہم ہندوستان کو ایسے ناپاک
عزائم سے روک سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں موجود راء کے ایجنٹوں کا ٹھکانہ
زیادہ تر مسجدیں ہیں کہ ان کے امام بن کر اور مدرسوں کے لیڈر بن کر قابض ہو
چکے ہیں اور فرقہ پرستی پھیلا رہے ہیں اور کیا جب 10 لاکھ پاکستانی فوج
گرفتار ہوگئی اور سکولوں سے لڑکے لڑکیان گرفتار کرکے ہندو اپنے ملک میں لے
جائیں گے تو کیا ان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے-
یہ سب ہونے والا ہے ان تلخ حقائق کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ حکومت
پاکستان پالیسیاں ہی بوگس ہیں اور فوج کی پاوریں سیاست دانوں نے ختم کر دیں
ہیں ہمارے ملک کی فوج کی تعداد اور صلاحیّتیں بہت کم ہوتی جارہی ہیں اور جو
باقی ماندہ فوجی قوّت ہے اس پر بھی باہر ملکوں کے ذر خرید کالم نگار اور
دانشور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ پاکستان میں
تٰعصّب اور انتہا پسندی فوج کی وجہ سے اس بنیاد پر مجاہدین کو دہشت گرد کہا
جاتا ہے حالانکہ شدید تنقید کے زہریلے تیر پھینک پھینک کر مجاہدین کو فوجی
جرنیلوں سے مروانے والوں کا اصل ٹارگٹ مجاہدین نہیں بلکہ فوج ہے جو لوگ یہ
کہتے ہیں کہ جہادی تنظیموں والے دہشت گرد ہیں ان کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے
پاکستان کی فوج دہشت گرد ہے اس پر فوج کو ایکشن لینا چاہیے اور اپنی تعداد
میں اضافہ کرنا چاہیے اور یقین جانیں جو لوگ کہتے ہیں کہ فوج کے برسر
اقتدار آنے سے باہر سے قرضہ جات میں کمی واقعہ ہو جاتی ہے اور ملک کے خزانے
خالی ہو جاتے ہیں ان کو ان کی جائدادوں سے بے دخل کرکے فوج کو اپنی قید اور
تحویل میں لے لینا چاہیے اور ہر صورت ملک کے خزانوں کو ہندوستانی ایجنٹوں
سے بچانا ہوگا کیونکہ دوستی کے نام پر بے بہا سرمایہ ہنوستان میں منتقل کیا
جانے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور میڈیا پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان نے
پاکستان کو مالی امداد بھیجی ہے اور کاغذی کاروائی کرکے ملکی خزانوں کو
دشمنوں کے حوالے کیا جارہا ہے-
زلزلہ بحران کے دوران غیر ملکی تعاون نقصان سے 30 سے 35 گنا زیادہ تھا لیکن
کیسے سازشوں پہ سازشیں کر کر کے بڑے بڑے مگر مچھّوں نے اتنا بڑا خزانہ خرد
برد کر دیا ہے اور باہر ملکوں میں اپنے اکاونٹوں میں منتقل کر لیا ہے
حالانکہ وہ سارا مال خزانہ اور تعاون بے کس بے بس زلزلہ زدگان کا حق تھا جس
کو اللہ کے عذاب سے نا ڈرتے ہوئے ناجائز دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے
اور اب پھر سے بڑے زلزلہ کے آثار رونما ہو رہے اور زمین کی شدید گرومنگ ہو
رہی ہے -
ایسی صورت حال میں فوج صرف ڈیوٹی پر حاضری اور تنخواہوں کے حصول اور
نوکریوں پر ڈٹے رہنے کے علاوہ کوئی کا نہیں کر رہی ہے جو کام ہو رہے ہی وہ
غلط سمت اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو رہے ہیں کیا فوج ساری
کی ساری صرف اس کام کے لئے رہ گئی ہے کہ وہ صرف اور صرف نوکری کی فکر میں
رہے کہ ہم نے کوئی قدم اٹھایا تو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اس لئے شرافت
سے 90 پرسینٹ کرپشن میںلتھڑے ہوئے سیاست دانوں کی سیکورٹی کرتے رہو خدا کے
لئے فوج کو ملک سنبھالنا ہی ہوگا اپنی اسلحہ اور تعداد کی قوّتوں کو بڑھانا
ہی ہوگا اگر ایسا نا ہوا تو اب زرداری بر سر اقتدار آکر ہندوستان سے دوستی
کا ہاتھ بڑھانے کا پلان لے کر آیا چاہتا ہے ممکن ہے سال دو سال کا موقع پھر
سے نوازشریف کو مل جائے لیکن ذرداری کا انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ شروع
دور شروع ہونے جارہا ہے جس میں فوج کو وہ اپنے ہاتھوں انڈیا کے حوالے کر دے
گا پر قیمت پر کشش ہونی چاہیے سب جانتے ہیں کہ ذرداری کی حکومت میں نوکریوں
کی قیمتیں مقرّر ہو گئیں تھیں کہ چپڑاسی کی نوکری کے اتنے لاکھ اور واچ مین
کی نوکری کے اتنے لاکھ کلرک کی نوکری کے اتنے لاکھ اور افسر کی نوکری کے
اتنے لاکھ اور وہ پیسے کے بل پر عوام جمع کرکے ایسے سیاست چمکاتا ہے کہ
ہمارا دور حکومت شفاف ہے ہم نے کرپشن کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس کی جھوٹی
تقریریں کوئی نہیں روک سکتا ہے اسی طرح افواج پاکستان کے ریٹ مقرّر کرکے
ہندووں کے ہاتھوں فروخت کر دینے والا ہے ایک لاکھ فوج اتنے ارب ڈالر کی اور
پانچ یا دس لاکھ فوج اتنے کھرب ڈالرز کی اور پھر مسلمانوں کی ناکامیوں کا
سلسلہ شروع ہونے میں کتنا فرق باقی ہے یہ ہمارے فوجی جرنیل خود اندازہ لگا
سکتے ہیں جو انسان برسراقتدار کر ہر قیمت پر ہندووں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا
عزم رکھتا ہو جس کا یہ کہنا ہو کہ ہم پاکستانی ترنگے اور ہندوستانی ترنگے
میں موجود فرق کو مٹا دینا چاہیے ہیں اور یہ ناکامی نہیں بلکہ کامیابی ہے
اس سے کسی بھلائی کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے میں یہ بات جان ہتھیلی پر رکھ
کر لکھ رہا ہوں اور میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تمام بنیادی
سہولیات سے اس لیے نہیں محروم کیا گیا کہ میں اسلام پسند محبّ وطن ہوں اور
اللہ نے مجھے صاحب کرامت بنایا ہے کیا جس ملک میں صاحب کرامت کو یہ کہہ کر
نظر انداز کیا جائے کہ جس اللہ نے صاحب کرامت بنایا ہے جس رب کے دین کی
خدمت کر رہے ہو وہ ہی تمھیں تنخواہ بھی دے کیا کوئی اعزاز کوئی الاونس کوئی
بونس اللہ کے دین کی خدمت کرنے والوں کو دینا اس ملک میں کوئی اہمیّت نہیں
رکھتا - |