ویل ڈن زرداری

پاکستان میں لمبے لمبے فوجی ادوار ہمیشہ کھایا پیا ہضم کی تصویر بنتے رہے ہیں۔اس سلسلے کی ایک کڑی پرویز مشرف ہیں۔سابق وزیر اعظم نوازشریف سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف جو سازشیں کی گئیں مقصد صرف اور صرف مشر ف اور ا س کے وابستگان کو بچانا ہے۔تاریخ میں پہلی بار نوازشریف کی شکل میں ایک بڑی مزاحمت سامنے آئی ہے۔ایسی مزاحمت جو سارے مشر ف کو بچانے والوں کی طرف سے تمام حیلے کر لنے کے باوجود کمزور نہیں پڑرہی۔جتنے پاپڑ نوازشریف کو راہ راست پر لانے کے لیے بیلنے پڑے ہیں کبھی نہ بیلنا پڑے۔کبھی کینڈین علامہ کو ریاست بچاؤڈراما کرنے کے لیے بلایا جاتاہے۔کبھی ایک گمنام اور غیر اہم شخص کو تبدیلی کی مشعل دے کر نوازشریف کے پیچھے لگادیاجاتاہے۔مسلسل ایک ایسا طریقہ کار اپنایا گیاجو آج نوازشریف کو بہت کچھ کہنے کے لیے مواد رکھتاہے۔ان کا بیانیہ بدتدریج مقبول ہورہا ہے۔وہ 70سال سے جاری مکروہ کھیل کے خاتمے کی تحریک چلارہے ہیں۔۔ان سترسالوں میں تین بڑے فریق حکومت پر قابض رہے۔مگر جواب دہی صرف اور صرف ایک کے کھاتے ڈالی جارہی ہے۔تمام فوجی آمر دودھ کے نہائے ثابت ہوئے ہیں۔پی پی کو اس کی تابع سیاست کے سبب سات گناہ معاف کی رعایت مل رہی ہے۔نوازشریف کا بیانیہ اس ناانصافی کے خلاف ہے۔یہ بیانیہ ایک دعوت عام ہے۔جو سابق وزیر اعظم نوازشریف ملک کے گلی کوچوں میں پھیلارہے ہیں۔ان کے جلسوں میں بڑھتی ہوئی عوامی حاضری اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم ان کی بات پر کان دھر رہی ہے۔

چئیرمین اور ر ڈپٹی چئرمین سینٹ کے الیکشن نے عوام میں مایوسی کی ایک نئی لہر پید اکی ہے۔ایک بار پھر ان کے نمائندوں نے انہیں دھوکہ دیا۔انہیں اعتماد تو کسی بات پر دیا گیا تھا۔مگر وہ کسی اور طرف لڑھک گئے۔ووٹر سے کیے گئے وعدے توڑ دیے گئے۔قیاادت کی غلطیوں سے بدظن قوم پر بار بار سدھر جانے کی امید لگاتی ہے۔ہر باروہ ان کی غلطی کو آخری غلطی سمجھ کر بھروسہ کرتی ہے۔مگر یہ امید پہلے سے بھی زیادہ بری طرح ٹوٹتی ہے۔ابھی کل ہی اس نے بلوچستان میں راتوں رات ممبران کی ہارس ٹریڈنگ دیکھی تھی۔ووٹر سے کہا گیا تھاکہ مجھے ووٹ دو میں نوازشریف کا وفادار رہوں گا۔پی پی اچھی جماعت نہیں ہے۔ووٹر نے اس وعدے پر ووٹ دیا۔وعدے کرنے والے زرداری کی گود میں جابیٹھے۔ووٹر کف افسوس نہ ملے تو کیا کرے۔اس کے سوا اس کے پاس اختیار ہی کیا ہے۔خیال تھاکہ شاید مکروہ کھیل احتتام پذیر ہوا۔جب سینٹ کے انتخابات ہوئے تو دوبارہ یہی کھیل کھیلا گیا۔کچھ جماعتیں جو اپنی عددی قوت کے حساب سے کامیاب ہونے سے قاصر تھیں۔کامیاب ہوگئیں۔اس دفعہ بھی ووٹ کسی سے وفاداری پر لینے والوں نے کسی اور سے وفانبھائی۔اب ہ چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینٹ کے الیکشن میں پچھلے دونوں ڈراموں سے بھی بد تر ڈرامہ ہوا۔پہلے تو ممبران بکا کرتے تھے۔اس دفعہ پوری کی پوری سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹرز سے دھوکہ دہی کی۔قوم کو شیطانوں کے خلاف جہاد کرنے کا کہہ کر ووٹ لینے والے شیطانوں کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے دیکھے گئے۔

سینٹ میں اپنے نامز د چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کو کامیاب کروانے میں ناکامی سے نواز شریف کو اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہوگا۔معاملات کو وہ جس قدر پیچیدہ تصور کررہے تھے۔وہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔عوام میں تو ان کے بیانئے کی قبولیت بڑھ رہی ہے۔مگرہم عصر قیادت تعاون نہیں کررہی۔ ان کے اپنے اتحادی کھسک رہے ہیں۔اس قدر مشکل صورت حال ہے کہ فنکشنل اور متحدہ جیسی جماعتیں بھی پی پی سے از حد مخالفت کے باوجود نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہونے کی جرات نہیں کرپارہیں۔ پتلی تماشہ کرنے والوں کے آگے بے بس ہوئی جارہی ہیں۔جے یوآئی انہیں چھوڑگئی۔ان کے ساتھ صر ف اچکزئی اور بزنجو کی دو اتحادی جماعتیں رہ گئیں ہیں۔

سینٹ کے الیکشن نئے ان کے بیانیے کو تقویت بخشی ہے۔قوم جن لوگوں پر اعتماد کرتی رہی ہے۔ایک ایک کر کے ان کے باطن عیاں ہورہے ہیں۔سب سے زیادہ مایوسی پی پی کی طرف سے ہوئی۔جس قدر یہ جماعت اب راج کرے گی خلق خدا کاراگ آلاپتی رہی ہے۔اس کے کردار سے اسی قدر نفی ہورہی ہے۔بھٹو۔اور بے نظیر دور میں بوجوہ معاملات چھپے رہتے تھے۔اب زرداری دور کی پی پی میں معاملات بگڑ رہے ہیں۔یہ پارٹی احتساب سے ڈرنے والا ایک ہجوم سا بنا ہواہے۔جو بھٹو کے نام پر اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنے میں مصروف ہے۔زرداری نے سینٹ الیکشن میں کما ل دکھا کر نوازشریف کا کام آسان کردیا ہے۔سابق وزیراعظم کے لہجے زمیں مذید تلخی آئے گی۔ان کا بیانیہ سر چڑھ کربولے گا۔سینٹ الیکشن قوم کے سر پر ایک تازیانہ ثابت ہوئے ہیں۔ویل ڈن زرداری۔ آپ نے 70 سال سے جاری اس مکروہ کھیل کے خاتمے کے لیے معقول سامان فراہم کیا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.