بہاول پور میاں نواز شریف کا دوسرا گھر ہے۔ یہ خبر
خود انہوں نے ہی دی ہے، یقینا محاورتاً ہی کہا ہوگا، سیاستدان اپنے عوام کو
خوش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ تاہم بہاول پور کے ساتھ میاں
صاحب کے مراسم بہت پرانے ہیں، جب وہ پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو
انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق بہاول پور کے قریب ہی لال سوہانرا نیشنل پارک
کے ساتھ موجود ایک محکمہ کے گیسٹ ہاؤس کو اپنے لئے پسند کیا، وہاں جھیل
بنائی گئی، اس کے گرد جنگل تو پہلے سے ہی تھا، دوسری طرف گیسٹ ہاؤس تھا،
سرِشام ہی ہُو کا عالم ہوتا، بڑی نہر کا کنارہ ماحول کو مزید دلکش بناتا
تھا، جنگل ، نہر اور جھیل کی وجہ سے گرمیوں میں بھی موسم نہایت خوشگوار ہو
جاتا تھا۔ تب بہاول پور سے ایم پی اے پی پی کا تھا، موصوف نے کچھ ہی عرصہ
بعد وزیراعلیٰ کے خلاف اسمبلی میں ہنگامہ آرائی شروع کردی، کہ صاحب آئے روز
لال سوہانرا کیا کرنے جاتے ہیں؟ کچھ ہی عرصہ بعد وہ ایم پی اے پی پی کے
فارورڈ بلاک کا حصہ تھے اور خاموش بھی۔ جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی سزا
کاٹ کر واپس آئے تو بھی انہوں نے اپنے ایک ایم این اے دوست کے ڈیرے پر
چولستان میں کئی روز گزارے۔
جب سے میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا بیانیہ جاری کیا ہے، اور قریہ
قریہ جاکر ووٹر کو آگاہی دے رہے ہیں کہ ان کے ووٹ کی قدر نہیں، انہوں نے
ووٹ دیئے مگر پانچ لوگوں نے انہیں مسترد کردیا، اب وہ عدل کے حصول اور ووٹ
کے تقدس کی بحالی کے لئے حالتِ جنگ میں ہیں۔ ایسے میں بہاول پور کا نمبر
بھی آگیا ہے۔ دیگر بہت سے شہروں کی طرح بہاول پور کو بھی مسلم لیگ ن کا
قلعہ کہا جاتا ہے، تاہم اس قلعہ میں وقتاً فوقتاً دراڑیں پڑتی رہتی ہیں۔ اس
وقت اس شہر سے ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزیر ہیں، میاں صاحب کے مرحوم دوست
کے بیٹے کو پارلیمانی سیکریٹری بنایا گیا ہے۔آگاہی مہم کے لئے اس وقت پورا
شہر جہازی سائز کے سائن بورڈ سے اٹا پڑا ہے، تمام شاہراہوں پر فلیکس کے
بینرز آویزاں ہیں، کھمبوں پر بھی استقبالی بینر لٹک رہے ہیں۔ بڑے بورڈز
پرمیاں نواز شریف اور مریم نواز کی بڑی تصویروں کے ساتھ ’کارکنوں‘ کی چھوٹی
تصاویر بھی لگی ہوئی ہیں۔ پی ایچ اے کی جانب سے شہر میں بینر لگانے پر
پابندی ہے، جب یہ پابندی نہیں ہوتی تھی تب ان کا بھاری کرایہ وصول کیا
جاتاتھا۔ بڑے بورڈوں کا بھی لاکھوں روپے کرایہ لیا جاتا ہے۔ میاں صاحب کی
نااہلی کے باوجود ان کے تمام معاملات چونکہ سرکاری سطح پر ہی چلائے جاتے
ہیں، اس لئے لاکھوں کروڑوں کے چھوٹے موٹے حساب کسی کھاتے میں نہیں آتے۔ اور
تو اور ان بورڈز ، بینرز اور فلیکسز کو لگانے میں بھی کارپوریشن نے ہی
خدمات سرانجام دی ہیں، کیونکہ برادرِ خورد پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور
کارپوریشن کے مئیر بھی میاں برادران کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ محسن کے آنے پر
تھوڑی بہت خدمت کا بھی حق تو بنتا ہے۔
میاں صاحب تو ووٹ کے تقدس کی مہم کے سلسلے میں بہاول پور آرہے ہیں، مگر
’’بہاول پور صوبہ بحالی‘‘ کے بہت سے علمبردار بھی اس موقع پر احتجاج وغیرہ
کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ میاں صاحب اپنے جلسے میں بہاول کے صوبہ کی
بحالی کا اعلان کریں۔ اگرچہ بہاول پور کے عوام اپنے صوبہ کی بحالی کے
خواہشمند ہیں، بہت بھاری اکثریت اس عمل کی حامی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ جب
ووٹ وغیرہ کا موقع آتا ہے، تو وہ کسی اور کے پلڑے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
گزشتہ قومی الیکشن کے موقع پر صوبہ بحالی کا کارڈ بہت سے افراد استعمال کر
رہے تھے، مگر جو لوگ صرف صوبہ بحالی والے تھے،انہیں عوام نے اپنی نمائندگی
کے قابل نہیں جانا۔ اب بھی میاں صاحب کوئی سیاسی بیان تو شاید اس ضمن میں
دے جائیں، تاہم کسی واضح اعلان وغیرہ کا کوئی امکان نہیں۔ رہ گیا ووٹ کا
تقدس، تو جن لوگوں نے اسمبلیوں، نمائندوں اور عوام کو کبھی اہمیت ہی نہ دی
ہو، کبھی ان میں گھلے ملے نہ ہوں (سوائے مشکل وقت کے) وہ ووٹ کے تقدس کی
تحریک چلا رہے ہیں۔ چلیں جمہوریت میں ووٹ کی بہت اہمیت ہے، اس کا تقدس ہونا
چاہیے، جس طرح نمائندوں کا استحقاق ہوتا ہے۔ مگر ووٹر کے بارے میں کیا خیال
ہے، اگر اس کو بھی احترام دیا جائے، ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے،
انہیں بھی انسان جانا جائے تو ’مجھے کیوں نکالا‘ سمیت بہت سے سوالوں کے
جواب مل سکتے ہیں۔ |