مدینہ منورہ کی مشک بار فضاؤں میں صاحبزادہ فیاض احمد اویسی سے ایک ملاقات

۱۸؍ فروری۲۰۱۸ء کی شام تھی۔ مدینہ منورہ کی مشک بار فضائیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا مشامِ جاں کو معطر کر رہی تھی۔ سبز گنبد کی زیارت سے نگاہوں کو نور اور دل کو سُرور مل رہا تھا۔چند ساعتیں گزریں کہ عالم باعمل صاحبزادہ فیاض احمد اویسی (مدیرماہ نامہ فیض عالم بہاول پور، منتظم جامعہ اویسیہ رضویہ بہاول پور) سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ موصوف علم دوست ہیں۔ مصنف کتبِ کثیرہ خلیفۂ مفتی اعظم علامہ فیض احمد اویسی رضوی علیہ الرحمہ کے لائق و فائق فرزند ہیں۔ صاحبِ علم و قلم ہیں۔ عاشقِ رسول و فدائے طیبہ ہیں۔ وارفتگی شوق نے نواز دیا۔ عطا کی بارشوں نے سرشار کیا۔ محبوب ﷺ کے جود و عطا کی نوازش ایسی کہ مدتوں سے طیبہ میں قیام۔ سبحان اﷲ! ؂
اسیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں
تمام عمر وہ رہائی کی دُعا نہ کرے

محبتوں کے رشتے بھی بڑے مضبوط ہوتے ہیں، دوریاں ختم کر دیتے ہیں، محبوب پاک ﷺکے درِ پاک پر ملے ۔ دیارِ محبوب ﷺ میں محبوب کی باتیں۔ رُوبرو جمالِ گنبد خضریٰ جہاں ہوائیں بھی مؤدب چلتی ہیں، فضائیں بھی مہکی مہکی، پروانے ہر وقت نثار، غباربھی پاکیزہ، جہاں ملائکہ بھی وارفتہ آتے ہیں اور حاضری و حضوری کے باہم ارتباط سے محبتوں کی معراج ہوتی ہے ؂
عنبر زمیں عبیر ہوا مشک تر غبار
ادنیٰ سی یہ شناخت تِری رہ گزر کی ہے

صاحبزادہ فیاض احمد اویسی کے والد علامہ فیض احمد اویسی عظیم مصنف گزرے ہیں جن کی کتابیں محبت رسول ﷺ کے جذبات سے لبریز ہیں۔ جن کی تحریر کتاب و سنت کی تعلیمات سے مرصع۔ جنھوں نے سیرت کے سیکڑوں پہلوؤں پراشہبِ فکر ایسا چلایا کہ ایمان کی کھیتی تازہ ہوگئی۔ نوری مشن مالیگاؤں نے علامہ اویسی کی کئی کتابیں محبوب پاک ﷺ کی تعظیم وسیرت کے حوالے سے شائع کر کے تقسیم کیں۔ ان کا تذکرہ فرماتے ہوئے صاحبزادہ فیاض احمد اویسی نے مشن کے لیے دعاؤں کی سوغات محبوب پاک ﷺ کے جلوؤں میں نذر کی۔راقم کے قلم کام کو سراہا۔

بات محبوب پاک ﷺ کے جود و عطا، نوازش و اکرام پر ہو رہی تھی۔ نعتوں کی سوغاتیں تھیں۔ جب نعت بیاں ہو تو گلشنِ نعت کے عندلیبِ خوش نوا اعلیٰ حضرت کا ذکر آ ہی جاتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کی نوازشات نے اعلیٰ حضرت کے نام و کام کو جاوداں کردیا؛ جب طیبہ کی یاد آتی ہے نعتِ رضاؔ کے لفظوں سے ہم اظہارِ قلبی کی ہمت پاتے ہیں۔ ابھی شب کا دامن دراز نہیں ہوا تھا۔ نورکی خیرات بٹ رہی تھی کہ ہم قیام گاہ آ گئے۔ مدینہ منورہ کی اقامت بھی سعادت کی بات ہے۔ صاحبزادہ فیاض احمد اویسی اس سعادت سے بہرہ ور ہیں؛ انھوں نے ماحضر کا اہتمام کیا۔ کچھ علمی باتیں رہیں۔اشعارِ رضاؔ پر گفتگو ہوئی۔ علامہ اویسی کی خدمات کا ذکر ہوا۔ جن کی پانچ ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود ہیں۔ فہرستِ کتب ’’علم کے موتی‘‘ مطبوع ہے۔ موصوف نے پیش کی۔ راقم نے ملاحظہ کی۔ سیکڑوں کتابیں ناموسِ رسالت ﷺ کے موضوع پر ہیں۔ آپ نے بیک وقت عقیدہ،تفسیر، سیرت، اصلاح، حدیث، رجال، علومِ دینیہ، فقہ، تزکیہ پر قلمی کام کیا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ تین ہزار کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ صاحبزادہ فیاض احمد اویسی نے بتایا کہ:

والد ماجد کی کتابوں پر تخریج کا کام مسلسل چل رہا ہے جن کی اشاعت تواتر سے ہو رہی ہے۔ تفسیر روح البیان کا ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا۔ہندو پاک سے کئی ایڈیشن چھپے۔ نغماتِ رضاؔ کی توضیح میں ’’شرح حدائق بخشش‘‘(۲۵؍ جلدیں) مقبول ہوئیں جن پر تخریج کا کام مکمل ہوتے ہی ضخیم مجلدات میں یہ اثاثہ نئی شان کے ساتھ منصۂ شہود پر ہوگا۔

یہاں کئی شخصیات سے متعارف کرایا۔ موصوف بزرگ ہیں اور علمی کاموں کا خاصا ذوق رکھتے ہیں۔ لیپ ٹاپ پر لکھنے پڑھنے، تصحیح و ترتیب کا کام کرتے رہتے ہیں۔ کئی مقالات قلم بند کر چکے ہیں۔ علامہ اویسی علیہ الرحمہ کی کتابوں کی اشاعت و توسیع کی نگرانی فرما رہے ہیں۔ راقم نے بتایا کہ مفتی سید محمد رضوان شافعی نے علامہ اویسی کی کتاب ’’تِرے دُشمن سے کیا رشتہ ہمارا یارسول اﷲ ﷺ‘‘ اردو/ہندی میں شائع کی۔ کتاب عمدہ ہے، مقبول ہوئی، ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لی گئی، اردو کتاب میلے میں نوری مشن کے اسٹال سے کم وقت میں تمام جلدیں ختم ہو گئیں۔ تکریم محبوب ﷺ کے ضمن میں کتاب کی مقبولیت روز افزوں ہے۔ صاحبزادہ فیاض احمد اویسی نے اظہارِ مسرت فرمایا اور کتاب کے ایک نسخے کی فرمائش کی۔ اشاعت پر مبارک و تہنیت پیش کی۔

فہرست کتب میں ایسی کئی کتابیں بھی ملیں جو ختم نبوت ﷺکے عنوان پر قادیانیت کی بیخ کنی میں تصنیف ہوئیں۔ راقم نے علامہ اویسی کی مزید کئی کتابوں کی اشاعت کی خواہش کی۔ فرمایا کہ جو کتاب درکار ہو بتائیں ہم اس کی اِن پیج (کمپوزنگ) فراہم کر دیں گے۔ یہاں دبستانِ بریلی کے مشہور نعت گو علامہ حسن رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کا ذکر رہا۔ رضویات کے عنوان پر علامہ اویسی علیہ الرحمہ کے علمی اثاثہ پر بھی تبصرہ ہوا۔صدسالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کی اشاعتی سرگرمیوں پر کئی پہلو زیر بیاں آئے۔ علامہ اویسی علیہ الرحمہ کی تصانیف کے اثرات، معیار و مقام پر بھی تذکرہ رہا۔ ابھی شبِ مدینہ کی نکہتیں دل و جاں کو مدہوش کر رہی تھیں۔ دیارِ محبوب ﷺ میں بارگہِ محبوب ﷺ میں حاضری کی تڑپ لیے ہم رخصت ہوئے۔ چند لمحے گزرے تھے کہ جلوؤں کی وادی سامنے تھی۔ سبز گنبد کا نور نگاہوں کو خیرہ کر رہا تھا جہاں ادب کے ساتھ عشاق سلاموں کے توشے نذر کر رہے تھے اور ہم بھی اُن گداؤں میں شامل ہو گئے ؂
کعبے کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.