سوشل میڈیا قریب لایا یا دور لے گیا؟

( ہماری ویب رائٹرز کلب کی تقریب میں "سوشل میڈیا وقت کی اہم ضرورت " کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے بتاریخ 10 جولائی 2015)
آج سے دو دہائی پہلے جب سوشل میڈیا آیا تو ہم بہت خوش ہوئے کہ ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے ہمارے خونی رشتے ہماری ایک وڈیو کال کے ذریعے ہماری ہتھیلی پر آگئے، اور تو اور دور دراز کے ہمارے دوستوں کے دوست بھی ہماری گڈمارننگ میں شریک ہو گئے اگرچہ دن ورات کی گردش کے باعث ایک کو گڈ مارننگ کہنے کے فوراًبعد ہی دوجے کو گڈ نائٹ کہنا پڑتاہے۔کسی سے اپنے دل کی بات نہایت اطمینان سے کہنے کا ایسا موقع ملا کہ یہ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی کہ "بہن کسی کو بتانا نہیں، یہ میں نے صرف تمہیں اپنا سمجھ کر بتایا ہے"، حالانکہ چند گھنٹوں کے بعد ہی وہ بات گھومتی ہوئے واپس اپنے پاس ہی آنے لگی، ہائے رے ہماری خوش فہمی!ایک سے ایک سوشل میڈیا کے رابطے کی ایپلیکیشن اس دعوے کے ساتھ آئی کہ " بے فکر رہیں آپ کی راز داری کی آپس کی باتیں محض آپ دونوں کے درمیان ہی محفوظ رہیں گی ، کسی تیسرے کو آپ کی گفتگو کی بُو بھی نہیں آسکتی، اور تو اور ہم بھی آپ کی آپس کی گفتگو آپ کی اجازت کے بغیر سن نہیں سکتے اور نہ ہی آپس کے محبت نامے پڑھ پائیں گے لیکن اس ایپلیکیشن کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے ہم جیسے ہی اپنا فون نمبر، ای میل یا کوئی دیگر خاندانی نام اور یا پھر اپنی پسند کا رنگ یا اپنا بچپن میں پکارے جانا والا نام بتاتے ہیں تو ہمارا تمام ڈیٹا ان تک پہنچ جاتا ہے ورنہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں ایسی فخریہ باتیں جو ہم دنیا کو بتا کر مشہور ہونے کی خواہش رکھتے ہیں وہاں سے ساری دنیا کو ہماری اس بچگانہ خواہش کے ذریعے ہماری تمام خوبیاں ( جو ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں) ان کو معلوم ہو جاتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ پھر کیا ہوتا ہے؟
ہمیں کیا ہماری حکومتوں کو بہت فخر ہے کہ ہم ڈیجیٹل ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگئے ، اتنی بڑی دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کرنے میں کامیابی پر جتنا فخر کریں ،کم ہے لیکن افسوس صد افسوس! گاؤں میں انسانیت درندگی میں تبدیل ہوتے نہ روک سکے، چوریاں ایسی ڈکیتیوں میں پروان چڑھنے لگیں کہ ہمارے بینک ایک ہی کِلک میں خالی ہو گئے۔ ہمارے بچے ایسے اغوا ہونے لگے جیسے گاؤں میں آم چوری ہؤا کرتے تھے۔گاؤں میں بازار سے واپسی پر کسی اجنبی سے سلام دعا ہوتی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی گھر لاکر اس کی خاطر تواضع کرنے والا سب سے اچھا انسان جانا جاتا لیکن آج سوشل میڈیا پر فرینڈز ریکوئیسٹ بھیجنے والے کو قبول کرتے ہوئے یوں ڈر لگتا ہے کہ اس کا کہیں کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ہو۔ سال کے سب سے بڑے تہوار عید، کرسمس، دیوالی یا نئے سال کی مبارکباد اور تحفہ بھیجنے کے لئے کوئی ہم سے گھر کا پوسٹل ایڈریس مانگتا ہے تو اس کو ہم فوراً بلاگ کر دیتے ہیں مبادا کہیں وہ ہمیں ایٹم بم کا پارسل ارسال نہ کر دے۔ہم خود بھی کسی زمانے میں ہر سال اپنے ادارے کے کیلنڈر اور عید مبارک کے کارڈ درجنوں دوستوں کو ڈاک خانہ جا کر خود رجسڑی کراکر ایکنالجمنٹ کی وصولی کی رسید کی یقین دہانی کے ساتھ واپس لوٹتے۔
افسوس اب کوئی واپسی کا راستہ نہ رہا!
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 334 Articles with 252117 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More