ہمارا اُلٹا سفر

ہمارے آباؤاجداد جنگل سے نکلے اور غاروں سے ہوتے ہوئے عالیشان محلوں میں رہنے لگے ۔جانوروں کےشکار کے ساتھ عورتوں کا شکار کرتے ہوئے دَدھیالی رشتہ داروں نے تو عورتوں کو شٹل کاک نما برقعے میں قید کر دیا اور ننھیالی رشتہ داروں نے عورت کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے مادر پدر آزاد سڑکوں پر اپنے جسموں کی نمائش کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔جانوروں کے سوکھے گوشت اور پتھر کے اوزاروں کے خزانے کی ہوس نے تمام زمین سمندر سمیت کھود کر ہر قسم کی نعمتوں کے حصول کے لئے جنگیں لڑتے ہوئے آدھی زمین پر سرمایہ دارانہ نظام اور آدھی پر سوشلٹ سسٹم نافذ کرتے ہوئے مل بیٹھ کر نام نہاد جمہوری نظام کی بنیاد رکھی تاکہ آئندہ ان کے علاوہ کوئی اور نسل ان کی صدیوں کی خون پسینے کی کمائی میں حصہ دار نہ بن پائے۔
سچ تو یہ ہے کہ آج کا انسان نام کا ترقی یافتہ کہلاتا ہے ۔ اپنی جان، مال اور عزت و ناموس اپنے محلوں میں بھی محفوظ نہ رکھ پانے کی صورتِ حال سے نبرد آزما ہے کیونکہ آسمان کو چھوتی ہوئی انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کے کمال کو پہنچتی ہوئی دہشت گردی ہر دم ان کا پیچھا کرتی ہوئی گنجان آباد شہروں میں جنگلوں سے زیادہ خوف و حراس بپا کئے ہوئے ہے۔ ان کے قائم کردہ نظام کو کسی بھی شے سے خطرے کی بُو آئے تو اس کو دہشت گردی اور نظام سے غداری کا لیبل لگا کر مقدس اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں خواہ صحافت کا میدان ہی کیوں نہ ہو۔دلچسپ بات یہ ہے ایسی جنگوں میں دونوں طرف مارے جانے والے افراد کو شہید کا رتبہ اور ایک یاد گار طمغہ عطا کیا جاتا ہے۔"فلسفہ اور ثقافت میں تہذیبی زوال"،اس فقرے کو استعاراتی طور پر انسانی تہذیب میں زوال، "ابتدائی" یا کم نفیس ریاستوں کی طرف واپسی، اکثر ایک بڑے سماجی زوال کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور عام طور پر ایک سائنسی نظریہ کے بجائے افسانوی کاموں یا سماجی تبصروں میں ظاہر ہوتا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ تمام دنیا میں جمہوریت کمزور ، آزادئی صحافت میں کمی اور اتھاریٹیرین طرزِ حکمرانی میں اضافہ نظر آتا ہے ۔جدید جمہوری نظام کی تشکیل کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل، صدیوں پر محیط عمل تھا، جو قدیم یونانی براہ راست جمہوریت (5ویں صدی قبل مسیح) سے فلسفیانہ بنیادوں (لوکے، 17ویں صدی) سے انقلابی لہروں (18ویں/19ویں صدی کے اواخر) تک ارتقا پذیر ہوا، بالآخر عالمی سطح پر پھیل گیا اور جنگ کے بعد موجودہ جنگ بندی کے ذریعے عالمی سطح پر پھیل گیا 200سے زائد سالوں میں توسیع، تطہیر (جیسے آفاقی حق رائے دہی)، اور جاری چیلنجوں میں مسلسل ترقی پر مشتمل تھا۔گویا موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ ممالک کہلانے میں صدیا ں لگیں گی کیونکہ 2025 سے یہ عمل اُلٹا چل پڑا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ ہم وہاں کب پہنچیں گے جہاں سے روانہ ہوئے تھے۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 336 Articles with 252974 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More