سینٹ الیکشن کو لے کر سابق وزیر اعظم فکرمند ہیں۔عوام میں
تو ان کا بیانیہ بڑا مقبول ہورہاہے۔لوگ بجا طور پر ان کی باتوں پر کان
دھررہے ہیں۔جو باتیں کل تک کہنا جرم بنارہا تھا۔آج دھڑلے سے ہورہی ہیں۔جن
لوگوں کی طر ف نوازشریف انگلی اٹھارہے ہیں۔عوام الناس ادھر دیکھ رہی
ہے۔بیانیہ مقبول ہورہاہے۔مگر نوازشریف کے ہم عصر لیڈران مائل نہیں
ہوپارہے۔جس طرح سینت الیکشن میں پارلیمانی جماعتوں کی اکثریت نے نوازشریف
کی مخالفت کی اس سے یہ مایوسی پیداہوئی۔سابق وزیر اعظم حیران ہیں کہ
پارلیمنانی جماعتیں اپنی راہ میں حائل قوتوں کا ذکر تو کرتی ہیں۔مگر اس کے
حل کے لیے ہمت نہیں ہورہی۔انہیں متحدہ۔فاٹااور بلوچستان کی نمائندگی سے گلہ
ہے۔جتنی بے چینی ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔اس کا تقاضہ تو یہی تھاکہ وہ
سابق وزیر اعظم کی کال پر لبیک کہتے۔ان کی طرف سے عدم تعاون کی سمجھ نہیں
آرہی۔نوازشریف اپنے خطابات میں پتلی تماشہ کرنے والوں پرکھل کر بر س رہے
ہیں۔ دبے دبے لفظوں میں اپنی ہم عصر قیادت سے شکوے کا اظہار بھی ہورہا
ہے۔ان کے گلے کے باوجود ہم عصر قیاد ت منہ دھیان کولہو کا بیل بنی ہے۔اس
قدر لاتعلق ہے گویا اسے ملی معالا ت سے متعلق پورا اطمینان ہو۔جیسے یہاں سب
اچھا ہے۔ریاست کے معاملات سموتھ انداز میں چلائے جارہے ہیں۔اور عوام
خوشحالی کی بلندیاں سر کررہے ہوں۔
سینٹ چئیرمین اور ر ڈپٹی چئرمین کے الیکشن کے بعد وضاحتوں کا ایک لمبا چوڑ
ا سلسلہ جاری ہے۔ہارنے والوں نے تو گلے شکوے کرنے ہی تھے۔جیتنے والے بھی
شرمندہ شرمندہ سے ہیں۔اپنی مرضی کا چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین بنوانے والی
پی پی کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔گتنی کے کچھ لوگ تو بھنگڑے ڈال رہے
ہیں۔مگراکثریت چپ سادھے ہوئے ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں جس کوتاہی نے پچھلا
الیکشن گنوایا تھا۔وہ کوتاہی انتہا کو پہنچ رہی ہے۔انہیں اندازہ ہے کہ۔قوم
نے زرداری سیاست سے بیزاری کے سبب مستردکیا تھا۔غیرسنجیدہ اور غیر محترم
انداز سے معاملات حکومت چلاناپسند نہ آیا۔نوازشریف دور میں پی پی کا ووٹر
اس امید پرتھاکہ ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔جو اگلے الیکشن میں بھٹو کی
جماعت کو دوبارہ ان کرنے کا باعث بن جائے۔یہ امید بھی ٹوٹ رہی ہے۔ جناب
زرداری نے اگر ایک طویل لاابالی پن ترک کیا بھی تو بھرپور مفاہمتی سیاست کے
ساتھ۔بلوچستان اسمبلی میں میں جو ہوا۔اسے کسی نے بھی پسند نہیں کیا۔سینٹ
الیکشن میں مفاہمتی سیاست کی جیت نے مذید بدظن کردیا۔ ایک بڑاکلیر کٹ میسیج
یہ ملا کہ جناب زرداری بدلنے پر آمادہ نہیں۔پارٹی کانظریاتی دھڑا سینٹ میں
اس بھان متی کنبے جیسی جیت سے ناخوش ہے۔یہ جیت اسے آنے والے جنرل الیکشن
میں کسی بڑی ہار سے دوچار کرسکتی ہے۔ جس زرداری سیاست سے پارٹی نے پانچ سال
تک زخم کھائے۔سنجیدہ طبقہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سیاست اگلے الیکشن میں بھی
کوئی بدمزگی دکھا سکتی ہے۔
ستر سال سے جاری جمہوری قیادت کی کوتاہیوں نے اسے کمزور اور بزدل بنادیا
ہے۔کم سے کم اختیار کی اس بولی نے انہیں دیوار سے لگارکھا ہے۔نوازشریف کو
اگرہم عصر جمہوری قیادت بزدل نظر آرہی ہے توتعجب کیسا۔بھلا چوروں اور
ٹھگوں۔اور اپنے اپنے مفاد میں ہجوم کا حصہ بنے لوگوں سے دلیری کی توقع کیوں
کر کی جائے۔سیاسی جماعتیں ایسے ہی کسی ہجوم کی عکاسی کررہی ہیں۔بجائے کسی
ڈسپلن کے یہ ہجوم مفاد پرستی کی ڈور سے بندھا ہے۔یہاں اصولوں سے زیادہ وقتی
معاملات مقدم ہیں۔ہر پارٹی میں اکثریت کے مفادات پارٹی کے باہر سے طے ہوتے
ہیں۔یہی میران جعفر وصادق ووٹ کے تقدس کی بحالی میں رکاوٹ ہیں۔جتنے مفادات
وہ اس عدم تقدس کے نظام میں پارہے ہیں۔تقدس بحالی کے بعد مل پائیں
گے۔نوازشریف کا بیانیہ بڑا تلخ ہے۔شاید اسی لیے وہ تنہائیوں کے شکارہیں۔جو
لوگووٹ کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔وہ نوازشریف کی توقع سے کہیں زیادہ
بااثر ہیں۔یہ کام جتنا سیدھا سادا سمجھا گیا تھا۔ایسا ہے نہیں۔ اگر
نوازشریف میدان میں کھڑے رہے تو انہیں بیسیوں مذید آمائشوں سے گزرنا پڑے
گا۔بے مثال پلاننگ اور بے انتہاجدوجہد درکارہے۔ یہ راستہ آپ نے چنا
ہے۔دوسری کون سی جماعت بھلا اس جوکھم میں کودنے کا دعوی کرتی ہے۔وہ تو آپ
کوحسب ضروت تعاون نہ دیں گی۔ہم عصر قیادت تب تک آپ کے ہمراہ نہ ہوگی۔جب تک
وہ آپ کو جیت کے قریب نہ دیکھ لے۔آپ نے جیت کے اس قریب تک اپنے بل بوتے پر
ہی پہنچنا ہے۔آ پ کو کسی کی طرف سے کسی قسم کی آس نہیں ہونی چاہیے۔اگر آپ
کے کندھے یہ وزن نہیں اٹھا نے کی سکت نہیں رکھتے تھے تو آپ کو یہ پنگا ہی
نہیں لینا چاہیے تھا۔ |