اسٹیفن ہاکنگ اپنی تمام تر جسمانی معذوری، نیورون موٹر
جیسی جسمانی طور پر تباہ کن حد تک اپاہج بنا دینے والی بیماری اور قوت
گویائی سے محرومی کے باوجود نہ صرف ایک طرف اپنی زندگی کے لیے لڑتے رہے،
بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے نہایت طاقت ور دماغ کے ذریعے انہوں نے ریاضی اور
طبعیات کی نہایت پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں بھی کارہائے نمایاں انجام
دیے۔
مگر بدقسمتی سے چوں کہ وہ مسلمان نہیں تھے، اس لیے ہم نے طے یہی کیا ہے کہ
وہ نوجوانی سے لے کر اپنی آخری سانس تک انسانی علم میں اضافہ کرنے، کائنات
کے پیچیدہ راز کھوجنے اور پھر آنکھین بند کر لینے کے بعد جہنم میں جا پہنچے
ہوں گے۔
سوال لیکن یہ ہے کہ مشکل سوالات میں سرکھپانے والے اسٹیفن ہاکنگ جنت اور
جہنم کو کیا سمجھتے تھے ساری زندگی ؟
اس سوال کا جواب کم از کم انہوں نے بلیک ہول کے مرکزے میں سنگولیرٹی یا
نکتہء یکتائیت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن
(بلیک ہول کے باہر کی جانب موجود سیاہ چھلا، جس کو چھونے کے بعد کوئی شے
واپس نہیں لوٹ سکتی، روشنی بھی نہیں) کو چھو کر اسپیگیٹی بننے کا عمل محسوس
کر چکے تھے، نوڈلفیکیشن تک کو جذب کر چکے تھے۔
وہ بلیک ہول کو اس کائنات سے کسی دوسری کائنات کے اندر داخل ہونے کا دروازہ
تک سمجھ رہے تھے، پھر وہ اس میں گر گئے۔ سنگولیرٹی میں مادے کے ہمیشہ باقی
رہنے (قانون بقائے مادہ) کی دھجیاں اڑاتے، آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر
قہقہے برساتے، بیلز بوہر کے کوانٹم مکینکس کا مذاق اڑاتے وہ موت کی
سنگولیرٹی میں جا گرے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں موت کا خوف نہیں مگر انہیں
موت کی کوئی جلدی بھی نہیں۔ وہ آخری لمحے تک سوچنا چاہتے تھے اور شاید یہی
ان کے اور ہمارے درمیان کا اختلاف بھی تھا۔ اور امید کا عالم یہ کہ وہ اس
مادے، خلا اور وقت کو نگلتے بلیک ہول کو بھی سب کچھ کھا جانے والے دائرہ کی
بجائے اس کے منہ سے بھی تاب کار ذرے اگلوانے کے قائل تھے۔
اسٹیفن ہاکنگ خدا یا کسی غیرمرئی مخلوق یا اس کائنات کے خالق کے وجود سے
مکمل طور پر انکاری تھے۔ وہ خدا بھی بے پناہ توانائی والے ’صفر‘ کو سمجھتے
تھے، جو نہ ہو کر بھی قائم ہے اور جو کائنات کی ہر طاقت اور توانائی کا
ماخذ ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا خدا سزا و جزا کا خدا نہیں تھا، کیوں کہ اس کا
کوئی وجود نہیں تھا، وہ بس تھا، بغیر کسی وجود کے۔
اسٹیفن ہاکنگ کا خدا عجیب سا تھا، جو کوانٹم سے بھی کم جگہ پر تھا اور جہاں
کچھ نہ ہوتا، مکمل صفر ہوتا، وہاں وہ آ جاتا۔ پوری توانائی کے ساتھ اور ایک
لمحے میں بگ بیگ یا عظیم دھماکا کر کے ایک کائنات پیدا کر دیتا، یا بلیک
ہول کی سنگولیرٹی میں ایک نئی کائنات کی تخلیق کر رہا ہوتا، کسی نئی کائنات
میں کھل رہا ہوتا۔
مرنے کے بعد اس وقت (ہمارے بہت سے دوستوں کے مطابق) اسٹیفن ہاکنگ، اپنی
پوری عمر کی فکر، سائنسی خدمات، انسانی علم میں اضافے، مشکل سوالات کے
جوابات ڈھونڈنے کی تگ دو میں دن اور رات برباد کرنے اور ایک ویل چیئر پر
بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے بول کر اپنی سوچوں کو اظہاریہ پہناتے زندگی جیسا
عذاب جھیل لینے کے بعد جہنم پہنچے ہوں گے۔ یہ وہی جہنم ہے جہاں انسانی
تاریخ کے بہت بڑے بڑے دماغ پڑے سڑ رہے ہوں گے۔ ایک طرف آئن اسٹائن، گلیلیو
اور نیوٹن تجاذبی قوت کے کائنات پر انطباق اور کوانٹم گریوٹی کے بے ہودہ
مسئلے پر محو گفت گو ہوں گے۔ دوسری طرف شکیسکپئر، کافکا اور ووڈورتھ بیٹھے
کسی فضول اظہاریے کا ماتم کر رہے ہوں۔کچھ فاصلے پر کارل مارکس، ہیگل، کانٹ
اور نتشے انسانی تہذیب کے پیچ و خم کی گتھیوں میں پھنسے ہوں گے اور کسی اور
سرے پر سگمنڈ فروئڈ خوابوں کے نفسیاتی یا جسمانی ہونے پر کسی ماہر اعصابیات
سے جھگڑے میں مصروف ہو گا۔ جہنم میں ایدھی، رتھ فاؤ اور ٹیریسا اس بات پر
ماتم کر رہے ہوں گے کہ عمر میں دو چار سال اور لگ جاتے، تو مزید دو چار
انسانوں کا بھلا ہو جاتا۔
اسٹیفن ہاکنگ اس بے تحاشا جھلسا دینے والی آگ میں اپنی ویل چیئر کے ساتھ
پہنچیں گے۔ ان کے پورے جسم میں توانائی فقط اتنی ہی ہو گی، جتنی ان کے
ہونٹوں میں باقی ہے۔ وہ اپنے مڑی تڑی انگلیوں کے ساتھ جہنم کی آگ کو چھوئیں
گے۔ ان کی آنکھوں کو انگارے جھلسائیں گے اور وہ باقی ماندہ بدن کے اندر
دھنسے دماغ میں اس آگ کی ماہیت اور نوعیت سے سنگولیرٹی میں جا نکلیں گے۔
دیوار کے دوسری جانب بہت سے مولوی صاحبان حوروں اور شراب کے ساتھ دودھ کی
نہر میں ہاتھ پھیر رہیں ہونگے اور اپنی عظمت پر سر اٹھا کر خدا کا شکر ادا
کررہیں ہونگے کہ انہوں نے سائنس، انسانوں کی فلاح، کائناتی گتھیاں سلجھانے
اور مشکل سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی بجائے، سائنس کے بنائے ہوئے
لاؤڈاسپیکر پر سائنس کی بنائے ہوئے مائیک کے ذریعے، سائنس کے ایجاد کردہ
سیمنٹ اور ٹائل والے منبر پر بیٹھ کر سائنس جیسے فضول اور بے ہودہ مضمون کو
گالی دی تھی اور دنیا پر لعنت بھیج کر اپنی جنت ہری کی تھی۔ مولوی صاحب جنت
میں بیٹھ کر جہنمی دماغوں پر دوبارہ پوری قوت سے لعنت بھیج رہے ہونگے اور
زور زور سے قہقہ لگا رہے ہونگے۔ |