پاکستان کے تناظر میں بنیادی تعلیم کی اہمیت طارق محمود مرزا ۔ آسٹریلیا [email protected] ایک مرتبہ سڈنی میں میری ایک ایسی دیہاتی خاتون سے ملاقات ہوئی جس کا فارم ہاؤس قریبی گاؤں سے سو میل دور واقع ہے۔ اس کے دوبچوں کے لیے حکومت الگ سکول نہیں بنا سکتی تھی لہذا بچوں کو گھر میں پڑھانے کے لیے ہفتے میں دو مرتبہ ٹیچر بذریعہ ہیلی کاپٹر جاتی ہے ۔ ڈاکٹر کی ضرورت پڑے تو بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ علاج بھی یہاں مفت اور حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ آسٹریلیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی بچہ چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو تعلیم سے محروم رہ جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سولہ سال کی عمر تک ہر بچے کا سکول جانا لازم ہے۔ اگر کوئی والدین ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو انھیں سزا ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح ہر بچے کے لیے سکول، استاد اورکتابوں وغیرہ کا بندوبست حکومت کی ذمہ داری ہے چاہے یہ بچہ کسی جنگل میں کیوں نہ رہ رہا ہو۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے اور اس ستون کی مضبوطی کا آغاز بنیادی یا ابتدائی تعلیم سے ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ترقی کا سفر مضبوط تعلیمی بنیادوں سے شروع کیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے بھی بنیادی تعلیم کی اہمیت ناقابلِ انکار ہے، کیونکہ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں بچہ نہ صرف پڑھنالکھنا سیکھتا ہے بلکہ اس کی شخصیت، سوچ، اخلاق اور معاشرتی رویوں کی بنیاد بھی رکھی جاتی ہے۔ اگر بنیادی تعلیم مضبوط ہو تو اعلیٰ تعلیم، معاشی ترقی اور سماجی بہتری کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بنیادی تعلیم کو آئینی طور پر ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، مگر عملی میدان میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ خواندگی کی شرح اب بھی تشویشناک حد تک کم ہے۔ بہت سے علاقوں میں اسکولوں کا فقدان ہے، اساتذہ کی کمی پائی جاتی ہے، سہولیات ناکافی ہیں اور قصبات و دیہی علاقوں میں والدین میں بھی تعلیمی شعور کی کمی موجود ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری اور نجی تعلیمی نظام میں بڑا فرق پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سماجی عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح بھی زیادہ ہے کیونکہ غربت، گھریلو ذمہ داریاں، دور دراز اسکول، وسائل کی کمی اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی جیسے عوامل بچوں کو تعلیم سے دور لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بنیادی تعلیم کی بہتری قومی ضرورت بن چکی ہے۔ جدید دور میں معاشی ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک پڑھا لکھا فرد بہتر روزگار حاصل کرتا ہے، بہتر فیصلے کرتا ہے اور ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ بنیادی تعلیم بچے کو آگے بڑھنے کے لیے پہلا زینہ فراہم کرتی ہے۔ اگر ایک بچہ پہلی کلاس ہی سے مناسب علم اور تربیت سیکھے تو آگے چل کر وہ زیادہ مفید، باصلاحیت اور ذمہ دار شہری بنتا ہے۔ ایک پڑھے لکھے معاشرے میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ شہری اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ملکی ترقی میں بہتر کردار ادا کرتے ہیں۔ بنیادی تعلیم سیاسی و سماجی شعور کو ابتدائی عمر ہی سے پروان چڑھاتی ہے۔تعلیم یافتہ قوم صحت مند قوم ہوتی ہے۔ بنیادی تعلیم بچوں میں صحت، صفائی، ماحول اور غذائیت کے بارے میں مثبت عادات پیدا کرتی ہے۔ ایسے بچے آگے چل کر صحت مند خاندان اور صحت مند معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ میں اکتیس برسوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہوں ۔دنیا بھر میں آسٹریلیا کا تعلیم کا نظام بہترین اور موثر سمجھا جاتا ہے۔ ان کا بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ خاص طور پر قابلِ تقلید ہے۔ اگر پاکستان اپنے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو بہتر کرنا چاہتا ہے، تو آسٹریلیا کے کچھ اصول ہمارے لیے روشن مثال بن سکتے ہیں۔ 1۔آسٹریلیا میں بنیادی تعلیم ہر بچے کے لیے یکساں ہے۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، شہری علاقے کا ہو یا دور دراز قصبے کا، تعلیمی معیار ہر جگہ تقریباً یکساں ہے۔ حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر اسکول میں اساتذہ، نصاب، سہولیات اور ٹیکنالوجی برابر سطح پر میسر ہوں۔یہ ماڈل پاکستان کے لیے سبق ہے کہ تعلیم صرف دستیاب ہونا کافی نہیں، بلکہ ’’معیاری تعلیم‘‘ سب کے لیے برابر ہونی چاہیے۔ 2۔آسٹریلیا میں ابتدائی جماعتوں کے اساتذہ خاص تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف تدریسی مہارت سکھائی جاتی ہے بلکہ بچوں کی نفسیات، سماجی رویوں اور سیکھنے کے طریقوں پر بھی مکمل تربیت دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ دورانِ ملازمت بھی ان کی ٹریننگ جاری رہتی ہے۔پاکستان بھی اپنے بنیادی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دے سکتا ہے۔ 3۔آسٹریلیا کے بیشتر اسکولوں میں ڈیجیٹل ٹولز، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، انٹرایکٹو بورڈز اور جدید تدریسی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ بچے کم عمری میں ہی ٹیکنالوجی سے تعلیمی فائدہ اٹھانا سیکھتے ہیں۔پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی کو متعارف کرا کے تعلیم کو زیادہ دلچسپ، سستا اور قابلِ رسائی بنایا جاسکتا ہے، خاص طور پر دور دراز علاقوں کے لیے۔ 4۔آسٹریلیا کے اسکولوں میں بچوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سہولیات پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسکول کونسلر ہر بچے کی ذہنی کیفیت، گھر کے مسائل اور سیکھنے میں آنے والی رکاوٹوں کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔پاکستان میں بھی اگر اسکولوں میں کونسلنگ سسٹم متعارف کرایا جائے تو بہت سے بچے تعلیمی کارکردگی بہتر دکھا سکتے ہیں۔ 5۔آسٹریلیا میں نصاب صرف کتابی نہیں ہوتا، بلکہ عملی سرگرمیوں، گروپ ورک، کھیل، فیلڈ ٹرپ اور ریسرچ پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے بچوں میں اعتماد بڑھتا ہے، ٹیم ورک سیکھتے ہیں اور حقیقی زندگی کی مہارتیں حاصل کرتے ہیں۔پاکستان کے لیے بھی یہ نقطہ انتہائی اہم ہے کہ بچے صرف رٹّا نہ لگائیں، بلکہ تعلیمی عمل کو عملی سرگرمیوں کے ذریعے سیکھیں۔ پاکستان کے تعلیم نظام کے لیے یہ قابلِ عمل تجاویز ہیں ۔ 1۔ترقی پذیر ملک کے لیے تعلیم پر سرمایہ کاری مستقبل پر سرمایہ کاری ہے۔ پاکستان کو بنیادی تعلیم پر بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ 2۔اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس، ٹیکنالوجی اور بچوں کی نفسیات کے حوالے سے تربیت دینا نہایت ضروری ہے۔ 3۔آسٹریلیا سمیت ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعلیمی معاہدے، اسکالرشپس اور ٹریننگ پروگرام پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ 4۔آن لائن کلاسز، ای-لرننگ پلیٹ فارمز، اور کم قیمت ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ذریعے دور دراز علاقوں تک تعلیم پہنچائی جاسکتی ہے۔ 5۔والدین کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ بنیادی تعلیم بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ غرضیکہ بنیادی تعلیم کسی قوم کی ترقی کا پہلا اور سب سے اہم زینہ ہے۔ پاکستان میں اگر ہم اس مرحلے کو مضبوط کرلیں تو معاشرتی، معاشی اور اخلاقی ہر سطح پر ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کا تعلیمی نظام ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے کہ اگر حکومت، اساتذہ، والدین اور معاشرہ مل کر تعلیم کے لیے سنجیدہ کوشش کریں، تو کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ پاکستان بھی اسی اصول کو اپنا کر اپنے بچوں کو روشن مستقبل دے سکتا ہے۔کیونکہ مضبوط بنیادیں ہی مضبوط عمارتیں کھڑی کرتی ہیں۔
|