دانش رحمان تاریخ اشاعت 5 دسمبر 2025 پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والا دنیا کا دسواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں حالیہ برسوں میں سیلاب خشک سالی اور شدید بارشیں عام ہوگئی ہیں۔ 2025 میں یہ بحران مزید گہرا ہوا جب اگست اور ستمبر میں سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی بارشیں آئیں جن سے ہزاروں گھر تباہ ہوئے اور فصلیں برباد ہوگئیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو ہر سال موسمیاتی واقعات کی وجہ سے تقریباً دس ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو غریب کسانوں اور شہری آبادی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے امداد کا اعلان کیا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو پائیدار ترقی پر مبنی ہو۔ یہ صورتحال نہ صرف ماحول بلکہ صحت تعلیم اور معاشی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے جہاں دیہی علاقوں میں پانی کی قلت اور شہروں میں آلودگی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ حالیہ موسمیاتی بحران کی جڑیں گلوبل وارمنگ میں ہیں جہاں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کاربن اخراج میں کم حصہ ڈالتے ہوئے بھی اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد 2025 میں کلاؤڈ برسٹ اور طوفانوں کی تعدد میں اضافہ دیکھا گیا خاص طور پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں جہاں برفانی تودے گرنے سے درجنوں جانیں ضائع ہوئیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں 20 فیصد کمی آئی ہے جو غذائی بحران کو جنم دے رہی ہے۔ شہری مراکز جیسے کراچی اور لاہور میں ہوا کی آلودگی کا انڈیکس اکثر خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے جو سانس کی بیماریوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہونے سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ فوری طور پر جنگلات کی کٹائی روکنا اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک محفوظ ماحول محفوظ رہے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں جو امید کی کرن ہیں۔ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 کو 2025 میں اپ ڈیٹ کیا گیا جس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ شامل ہے جو سبز توانائی پروجیکٹس پر مرکوز ہے۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں سولر پینلز کی تنصیب اور پنجاب میں واٹر کنزرویشن پروگرام شروع ہوئے ہیں جو مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنا رہے ہیں۔ نجی شعبے نے بھی حصہ ڈالا جہاں کمپنیاں جیسے انگرو اور ٹیلی نار نے ماحولیاتی کونسلز قائم کیے جو کمیونٹی ٹری پلانٹیشن ڈرائیو چلا رہی ہیں۔ تاہم چیلنجز برقرار ہیں کیونکہ فنڈنگ کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پروجیکٹس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی مدد جیسے گرین کلائمیٹ فنڈ سے ملنے والی امداد کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو موسمیاتی انصاف کی جنگ میں مضبوط بنائے۔ تعلیم اور آگاہی مہمات بھی اہم ہیں جہاں سکولوں میں ماحولیاتی نصاب کو شامل کرکے نئی نسل کو تیار کیا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عوامی سطح پر بھی کردار ادا کرنا ہوگا جہاں ہر شہری چھوٹے اقدامات سے فرق پیدا کر سکتا ہے۔ پلاسٹک کا استعمال کم کرنا پانی کے ضیاع کو روکنا اور عوامی ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینا ایسے اقدامات ہیں جو مجموعی طور پر بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ 2025 میں لانچ ہونے والی ایپلیکیشنز جیسے کلائمیٹ پاکستان جو ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کرتی ہیں نے لوگوں کو اپنے علاقے کی صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ مستقبل میں پاکستان کو کاربن نیوٹرل ہونے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے 2030 تک 30 فیصد قابل تجدید توانائی کا استعمال یقینی بنانا ہوگا جو معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ دونوں کو یقینی بنائے گا۔ یہ بحران ایک خطرہ تو ہے مگر موقع بھی کہ پاکستان عالمی سطح پر سبز ٹیکنالوجی کا مرکز بن سکتا ہے۔ |