معروضی حالات سے یہ اخذ کرنا آسان ہوگیا ہےکہ،آج جناب
نواز شریف صاحب کی سیاست تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اور ان کے مستقبل
میں حاکم رہنے کی اُمیدوں پر پانی پھرا جارہا ہے۔
سیاست اتنا بدنام لفظ نہیں تھا جتنا اسے پاکستانی سیاستدانوں نے بدنام کیا۔
اور اب کوئی کسی کے ساتھ دوغلا پنی کرے کوئی چال بازی کرے اور کوئی دونمبری
کرے تو اس کام کو ہم سیاست سے تعبیر کرتے ہیں کہ بھائی فلاں شخص میرے ساتھ
سیاست کررہا ہے۔ مملکت کی باگ ڈور سبنھالنے یا کسی کو بھی کسی کام کی ترغیب
دینے اور یہاں تک کہ اچھائی اور بھلائی کی طرف رغبت دلانا بھی اصول سیاست
میں آتا ہے مگر کیا کیجیئے ان نیم حکیموں کا کہ ہم سب بحیثیت قوم بحالت
مریض انہی نیم حکماء کے چنگل میں بُری طرح سے پھنس چکے ہیں۔ ان سے جان
چھڑانے کا طریقہ ہمارے پاس ہے ان سے کنارہ کش رہنے کا حل بھی ہمارے پاس
موجود ہے اس کے باوجود ان کی چکنی چپڑی باتوں میں معلوم نہیں کیا جادو ہے
کہ ہم پھنسے جارہے ہیں۔ اپنا حال برباد کرچھوڑا ہے اور مستقبل تباہ کرنے کی
کوششوں میں ہیں۔ ہمیں دانشوران قوم کئی دفعہ باور کرا چکے ہیں کہ بھائی بہت
ہوگیا اب کچھ اپنا بھلا سوچو۔لیکن ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں۔ ایک بےچارہ
عمران خان اپنا سب کچھ داو پر لگا کر اپنا بڑاپے کا وقت جو آرام کرنے
اوریورپ شورپ کی میموں کے ساتھ مزے سے گزارنے کا تھا ان پاکستانیوں کی
عاقبت سنوارنے میں گنوا رہا ہے اور بےچارے کو یہ زعم بھی ہے کہ وہ اس قوم
کو سیاسی ناسوروں کی چنگل سے آزاد کروا کر ایک آزاد قوم کی شکل دینے میں
کامیاب ہوجائے گا۔ آپ نے دن کا چین رات کی نیند حرام کرکے قوم کو بتا یا کہ
بھائی یہ جدی پشتی لٹیرے ہیں ان سے بچو اور اپنا ووٹ جس کا دیانتداری سے
استعمال اپکا قوم فریضہ ہے مگر وقت آنے پر پھر انہی لوگوں کی جھولی ڈال
بیٹھے۔ قوم کی اجتماعی شعور کا لیول اس بات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سپریم
کورٹ میں ان سیاسی ناسوروں کے کالے کرتوت طشت از بام ہوا اور قوم کے جذبات
کو ٹھیس پہنچانے اور ووٹ کی عزت کو سرعام رسوا کرنے کے جرم میں جب نااہل
ہوا تب بھی لوگ لاکھوں کی تعداد میں ان پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔ آج
جن لوگوں نے ووٹرز کو عزت نہیں دی وہ نعرہ بلند کروا رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت
دو تو ہزاروں لوگ اسی نعرے کو مقدس فرمان سمجھ کر ملنگ بنے نعرے لگارہے ہیں۔
ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ووٹ کی عزت ووٹرز کی عزت کے ساتھ وابستہ ہے جب
تک ووٹرز رسوا ہوتے رہینگے ووٹ خود بخود رسوا ہوتا رہے گا۔ووٹ کی اُس وقت
بھی کوئی عزت نہیں رہتی جب یہ اس کے حقدار کو نہیں ملتا۔ ووٹ کی اُس وقت
بھی وقعت ختم ہوجاتی ہے جب اسے چند ٹکوں کے لیے بیچ دیا جاتا ہے۔ کون انہیں
سمجھا ئے کہ بھائی ووٹرز کا حق پہلے آتا ہے یہ قدرت کا قانون ہے جو چیز
بوئی جاتی ہے اُسی کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ آج کتنے لوگ ملک عزیز میں خود
کُشیاں کررہے ہیں۔ کتنے لوگ ڈگرریز ہاتھوں میں لے کر در در رسوا ہورہے ہیں۔
جن لوگوں نے عزت کی روٹی کی خاطر اپنا کل برباد کیا تھا ان کا آج بھی برباد
جارہا ہے اور آنے والا کل بھی نااُمیدی بادلوں میں ہے۔ ایسے میں آپ پر
لاکھوں ووٹرز کی آہ پڑی ہے۔
،،
|