جیت اور ہار انتخابات کا حسن ہوتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے
کہ انتخابات میں کبھی ایک جماعت جیتتی ہے ، کبھی دوسری جماعت فتح کا تاج سر
پر سجاتی ہے اور اسی طرح جمہوریت کی گاڑی آگے کی جانب رواں دواں رہتی
ہے۔جیت اور ہار کا یہ کھیل اسی طرح جاری رہنا چائیے تاکہ جمہوریت کی روح
زندہ رہے اور حکمران اپنی حدود میں رہیں اور جیت کے نشے میں آمر بننے کی
کوشش نہ کریں۔ اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور فتح و شکست میں تحمل اور
بردباری کا دامن تھامنا جمہوریت کی روح ہے۔سچ یہ ہے کہ ہارانسان کو صبر اور
برداشت کا درس دیتی ہے لہذا ہار سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے مستقبل پر نظر
رکھنی چائیے ۔ کچھ دن پہلے قومی اسمبلی میں ناا ہلی بل پر مسلم لیگ (ن)
فاتح ٹھہری تھی تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی فتح کی خوب تشہیر کی تھی اور اس کا
اسے حق بھی حاصل تھا جبکہ ۱۲ مارچ کو چیرمین سینیٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ
(ن ) کو شکست کاسامنا کرنا پڑا ہے تو اسے اپنی ہار کو کھلے دل کے ساتھ قبول
کرنا چائیے۔سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے بہتر حکمتِ عمل کا مظاہرہ کیا
لہذا فتح انکا مقدر بنی ۔اس بات سے کسی کو کئی مفر نہیں کہ نادیدہ قوتیں
پاکستان میں ہمیشہ سے سرگرمِ عمل رہی ہیں اور آئیندہ بھی اسی طرح سرگرمِ
عمل رہیں گی کیونکہ یہی پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا سچ ہے لہذا ان کی پشت
پناہی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک وقت تھا کہ میاں محمد نواز شریف
اسٹیبلشمنٹ کے منہ زور گھوڑے تھے لیکن پھر دو تہائی اکثریت کے خمار،
اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے اور حقیقی وزیرِ اعظم بننے کی حواہش نے انھیں
اسٹیبلشمنٹ سے دور کر دیا۔ اب وہ مختلف محاذوں پر اسٹیبلشمنٹ سے نبرد آزما
ہیں اور عوامی طاقت، پذیرائی اور مقبولیت سے ۷۰ سالوں سے جاری اس کھیل کا
خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہنوز دہلی دور است کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو مات دینا
آسان نہیں ۔،۔
باعثِ حیرت یہ ہے کہ سینیٹ نتائج کو ایک طرف پی ٹی آئی اپنی جیت قرار دے کر
اپنی فتح کا ڈھول پیٹ رہی ہے جبکہ دوسری جانب پی پی پی اسے اپنی فتح قرار
دے کر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں۔ حالانکہ صادق سنجرانی کا تعلق ان دونوں
میں کسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے ۔ پی پی پی کے جیالے اک زرداری سب پہ بھاری
کی پھبتی کس رہے ہیں اور فتح کا سہرا آصف علی زرداری کے سر باندھ رہے ہیں
جبکہ پی ٹی آئی عمران خان کی چال کو لاجواب قرار دے کر دل کو بہلا رہے ہیں
۔بہر حال یہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ پہلی دفعہ کسی چھوٹے صوبے کا بندہ
چیرمین سینیٹ منتخب ہو گیا ہے جس سے قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔یہ ملکی
تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں اپنا چیرمین لانے
میں ناکام ہو گئی ہیں ۔جمہوریت میں حق بڑی جماعتوں کا بنتا ہے لیکن موجودہ
سیاسی منظر نامے میں ایسا ممکن نہیں تھا ۔ بلوچستان اسمبلی میں اتھل پتھل
سے جس نئی سمت کا آغاز ہوا تھا اسے بڑی کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچایا
گیا ہے۔اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے اور جو اس بات کا ادراک کر لے گا فتح اسی
کا مقدرہو گی۔اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی سے کبھی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں
آیا۔اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور انھیں جھٹک دینا کسی کیلئے ممکن
نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو اپنائے ہوئے ہیں
جس کی وجہ سے انھیں سینیٹ انتخابات میں شکست سے ہمکنارہونا پڑا ۔ان کیلئے
یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کی بھر پور حمائت کے باوجود اپنا
امیدوار نہیں جتوا سکے ۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت بھی ان کی جیت میں کوئی
کردار ادا نہیں کر سکی حالانکہ ماضی میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ وفاق کے
دباؤ اور اثرو رسوخ سے ہاری ہوئی بازی بھی جیت لی جاتی تھی لیکن اس دفعہ سب
کچھ الٹا ہو گیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ وفاق کے بالمقابل کھڑی تھی اور مسلم لیگ
(ن) کے امیدوار کی جیت کو ذاتی شکست تصور کر رہی تھی۔اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ
(ن) کے عزائم سے بخوبی آگا ہ ہے لہذا اس کی حتی الامکان کوشش تھی کہ مسلم
لیگ (ن) کا امیدوار سینیٹ کا چیرمن منتخب نہ ہو ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر
دو انتہاؤں پر کھڑی دو جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی کو بلوچستان کے آزاد
ممبران کا کندھا دیا گیا تا کہ مک مکاؤ اور سازش کا کوئی الزام نہ لگ سکے ۔
آصف علی زرداری کو سب سے بڑی بیماری کہنے والے عمران خان کیلئے سینیٹ
چیرمین کے عہدہ کیلئے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دینا ممکن نہیں تھا اس
لئے آزاد ممبر صادق سنجرانی کا انتخاب کیا گیا ۔بلو چستان کے آزاد ممبران
کے نام اپنی حمائت کا اعلان کر کے عمران خان نے سیاست کو نئی جہت دی جو کہ
انتہائی خطرناک ہے۔ عمران خان کے تیرہ ووٹوں کی حمائت نے آزاد ارکان کے دل
میں امید کی کرن روش کر د اور انھیں خواب دکھایا کہ وہ اپنا چیرمین منتخب
کروا سکتے ہیں۔ پی پی پی نے بہت آئین شائیں بائیں کی کہ کسی طرح سے ان کے
نامزد امیدوار کی جیت کی راہ نکل آئے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔بلاول بھٹو
زرداری بھی پی پی پی کا امیدوار لانے کیلئے بہت بے چین تھے لیکن ان کی بے
چینی بھی عمران خان کی حکمتِ عملی کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔پی پی پی یا تو
مسلم لیگ (ن) کے امیدوارکو جیتنے دیتی یا پھر بلوچستان کے آزاد گروپ کے
امیدوار کو قبول کر لیتی۔اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا لیکن ڈپٹی چیرمین
کیلئے اپنے امیدوار کی شرط لگا دی جسے عمران خان نے بخوشی قبول کر لیا
اوریوں صادق سنجرانی اپوزیشن کے متفقہ امیدوارنامزد ہو گے۔حکومتی اتحاد کے
پاس مطلوبہ ووٹ موجود تھے لیکن چند ووٹوں کی اتھل پتھل نے ساری بازی پلٹ دی۔
اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کارڈز کیسے کھیلے اور مطلوبہ تعداد کو کیسے یقینی بنایا
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔قومی اسمبلی میں نا اہلی بل کے موقعہ پر
ووٹوں کا فرق بہت زیادہ تھا لہذا وہاں پر وفاداریاں بدلنا ممکن نہیں
تھا۔سینیٹ میں سوال پانچ چھ بندوں کا تھا لہذا انتہائی چابکدستی سے اہتمام
کر لیا گیا جس سے حکومتی اتحادکی فتح شکست میں بدل گئی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ
جیتے والی دونوں بڑی جماعتیں( پی پی پی اور پی ٹی آئی) اب بھی ایک دوسری کی
شکل دیکھنے کی روادار نہیں ہیں اسی لئے جیت کا علیحدہ علیحدہ جشنِ فتح منا
رہی ہیں لیکن دونوں کا دعوی بہر حال یہی ہے کہ وہی فاتح ہیں۔ عمران خان نے
اس انتخاب میں اپنی پوزیشن کو کئی بار تبدیل کیا۔وہ مسلم لیگ (ن ) کو مات
دینے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے لیکن انھیں کوئی راستہ نہیں
مل رہا تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) عددی لحاظ سے کافی مضبوط تھی جبکہ اس کے
اتحادی بھی اس کے ساتھ کھڑے تھے ۔عمران خان چاہتے تھے کہ سانپ بھی مر جائے
اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ صادق سنجرانی کی نامزدگی نے ان کا کام آسان کر
دیا۔صادق سنجرانی در حقیقت پی ٹی آئی کے نامزد کردہ امیدوار تھے جس کی
توثیق پی پی پی نے کی کیونکہ پی پی پی کے پاس بھی کوئی متبادل راستہ نہیں
بچا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ عوام اس سارے کھیل کو کس نظر سے
دیکھیں گے ؟کیاعمران خان عوام کویہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ
جس جماعت کو وہ کرپشن کی ماں کہتے نہیں تھکتے تھے ۱۲ مارچ کو اسی کے نامزد
کردہ امیدوار کو ووٹ دے کر انھوں نے کرپشن کی توثیق کر دی ہے؟کیا پی پی پی
کے خلاف ان کا بیانیہ کمزور ہوا ہے اور ان کے نعرے میں اب پہلے جیسی قوت
باقی نہیں رہی ؟ کیا عوام آئیندہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیں گے؟کیا ان
کے حالیہ موقف سے کرپشن فری معاشرے کے قیام کی عوامی توقعات کو نقصان پہنچا
ہے ؟ کیا پی پی پی سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے عمران خان کی شخصیت دہرا معیار
اپنانے کی وجہ سے مجروح ہو ئی ہے؟کیا ان کی نئے فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ
وہ ذاتی جیت کی خاطر اپنے موقف سے ہٹ سکتے ہیں؟ کیا پی پی پی سے ان کی نئی
قربتیں مستقبل کے انتخابی الائنس کی بنیاد بن سکتی ہیں ؟ کیا یہ جیت اتنی
اہم تھی کہ اس کی خاطر عمران خان نے اپنی طویل جدو جہدکو پسِ پشت ڈالنے سے
بھی دریغ نہیں کیا ؟کیا سینیٹ کی فتح ضروری تھی یا اصول زیادہ اہم تھے؟
|