فاروق حارث العباسی
ایسا کون اہل علم و دانش یا اہل الرائے و نظر ہے جو سکندر اعظم کے نام و
مقام یا اس کے فنی و عسکری کارناموں سے شناسائی وآگاہی نہیں رکھتا مگر 365
قبل مسیح میں فلپ دوئم کے گھر جنم لینے والا یہ بچہ زمانہ قدیم کی عظیم
ترین فتوحات کا سلسلہ شروع کرے گا، یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ اپنے اصل موقف کی
طرف آنے سے قبل چاہوں گا کہ اس 22سالہ عظیم فاتح پر چند سطور لکھوں تاکہ
مضمون کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکے۔ سکندر ِ اعظم نے صرف 21سال کی عمر
میں یونان کے اندر پھیلی ہوئی بد ترین بغاوت کو کچل ڈالا اور پھر 334قبل
مسیح میں زمانہ قدیم کی عظیم ترین فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ 334ق م کی جنگ
گرینی کس میں فاتح کہلایا، اگلے ہی سال 333ق م میں جنگ اسوس میں فتح حاصل
کی، دو سال بعد 331ق م میں گاگے میلا یا ارسلا میں فتح حاصل کر کے ایک فاتح
کی حیثیت سے ایشیائے کوچک پر قابض ہوا۔ اسی سال مصر کو باآسانی فتح کر لیا
اور ایرانی بادشاہ دارا سوئم کو شکستِ فاش دے کر ایران بھی فتح کر لیا پھر
باختر سے ہوتا ہوا سیدھا ہندوستان تک پہنچا جہاں 326ق م میں راجا پورس کو
عبرتناک شکست دی اور پورے ہندوستان کا قابض ہوا۔ اب سکندر اعظم کی فوج
12سال تک مسلسل لڑتے لڑتے چونکہ تھک چکی تھی لہذٰا دریائے بیاس پر اس کی
سپاہ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ سکندر اعظم نے نیارکس کی کمانڈ
میں ایک بحری بیڑہ سمندر کے راستے مقدونیہ واپس بھیجا۔ باقی فوج کے دو حصے
کیے ، ایک حصہ جس کے ساتھ ہاتھی اور سامانِ غنیمت تھا، الگ بھیجا۔ دوسرا
حصہ اپنی زیرِ قیادت رکھا اور مکران و جنوبی ایران میں سے گزرتا ہوا اسوس
پہنچا جہاں باختری شہزادی روشنک (جسے غلط روایت دے کر رخسانہ کہا گیا)اس سے
شادی کر لی اور ایرانی اوضاع واطوار اپنائے۔ وہیں پر اچانک میعادی بخار
یعنی ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوا اور 323قبل مسیح میں صرف 33برس کی عمر میں
پہنچ کر بخت نصر کے محل میں وفات پائی۔جس وقت سکندر اعظم کی فوج نے دریائے
بیاس سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور سکندر اعظم کو اپنی فوج مختلف حصوں
میں تقسیم کرنا پڑی اس وقت سکندر اعظم کا استاد بھی اس کے ہمراہ تھا۔ سکندر
اعظم اپنی فوج کے ہمراہ اپنے گھوڑے پر آگے آگے چل رہا تھا اور اس کا استاد
بھی اپنے گھوڑے پر سکندر اعظم کے ساتھ ساتھ۔ اب ایک مقام پر آ کردریا کو
عبور کرنا تھا۔ دریا کی طغیانی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی اس میں اترتا تو
دریا کی خوفناک لہریں اسے نگل جاتیں۔ سکندر اعظم اور اسکا استاد دریا کے
کنارے اس کے خوفناک بہاؤ اور قاتل لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ دریا عبور کرنا
بھی لازم تھا لہذٰا سکندراعظم کے استاد نے کہا کہ پہلے میں دریا میں اترتا
ہوں، اگر میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں اس لئے کہ دنیا کو سکندر اعظم کی
ضرورت ہے۔ سکندر اعظم نے استاد کی طرف دیکھا اور مسکرایا پھر نفی میں سر
ہلاتے ہوئے اس نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور دریا میں کود گیا۔ ’’نہیں!
پہلے میں دریا میں اترتا ہوں ، اگر میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں اس لئے
کہ سکندر استاد پیدا نہیں کر سکتا مگر استاد میرے جیسے ہزاروں سکندر پیدا
کر سکتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور بھارت مل کر استاد یعنی
حافظ محمد سعید کا خاتمہ چاہتے ہیں جسکی مجاہدانہ، غیرت مندانہ، قومی و ملی
اور اسلامی تعلیم نے دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں
سکندر اعظم میدان عمل میں لا کھڑے کیے۔ استاد گرامی حافظ محمد سعید کا نام
نامی اسلام اور ملک و ملت کی بدترین دشمن اس ٹرائیکا (امریکا، اسرائیل اور
بھارت)کے لئے باقاعدہ خوف کی علامت بن چکاہے۔ استاد محترم کے سر کی قیمت
چاہے لاکھوں میں ہو یاکروڑوں میں ، اس بات کی تصدیق ہے کہ دشمنانِ اسلان نے
حافظ سعید کو مجاہد اسلام تسلیم کر لیااس لئے کہ سروں کی قیمت ہمیشہ اس کی
لگتی ہے جو سر کٹ تو سکتے ہیں مگر کسی باطل قوت کے آگے جھک نہیں سکتے۔دوسری
اہم بات کہ فاتح عالم سکندر اعظم کی فوج صرف بارہ سالوں میں دشمن کے ساتھ
لڑتے لڑتے تھک گئی اور مزید آگے بڑھنے سے انکار کر دیا مگر آفرین ہے استاد
محترم کی اس اسلامی فوج پر جو بغیر وسائل کے مسلسل 25سالوں سے وسائل سے
مالامال روایتی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہے مگر تھکنے کا نام نہیں لیتی انکار
تو بہت دور کی بات۔ مقدونیہ کا ایک سکندر اعظم تھا جس نے اپنے استاد کے
تحفظ کے لئے خود کو قاتل لہروں کے حوالے کر دیا مگر یہاں تو لاکھوں سکندر
اعظم ہیں وہ اپنے استاد کو دشمن لہروں کے حوالے کیسے ہونے دیں گے؟ دشمن جان
لے کہ یہ مجایدین اسلام لاکھوں حافظ محمد سعید ہیں جو تمہاری چِتا تک
تمہارا پیچھا کریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کو ئی اﷲ کی راہ میں خلوص نیت
اور جذبے کا ساتھ نکل کھڑا ہو تو اﷲ اس کے لئے راہیں ہموار اور دروازے
کھولتا چلا جاتا ہے۔عالم اسلام آج جس عالم ہے اس سے ایک بات نہایت واضح ہو
کر سامنے آتی ہے کہ ملت اسلامیہ نے رہنما اصولوں سے چشم پوشی اختیار کرلی۔
نہ کوئی رہنما رہا اور نہ کوئی اصول یہی وجہ ہے کہ پورا عالم اسلام قدم قدم
پر بکھرا پڑا دکھائی دیتا ہے۔ محمد بن قاسمؒ سے لے کر سلطان صلاح الدین
ایوبیؒ تک رہنما بھی تھے اور اصول بھی جن کے باعث اسلام کا پرچم سربلند
رہا۔خلفائے راشدین ؓکے بعد اﷲ تعالیٰ نے بڑی بڑی جلیل القدر ہستیاں پیدا
کیں جنہوں نے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کی، قوموں کو عروج
بخشا، اسلام کا نام روشن کیا، حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کیا،
انسان کو انسان ہونے کا درجہ دیا، انسانیت کو اسکی معراج بخشی، ان عظیم تر
لوگوں نے اپنی تمام تر زندگی اسلام کی سر بلندی کی خاطر میدانِ جہاد میں
گزار دی۔ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اﷲ اوراس کے رسول کے احکامات کے ساتھ
وفا کی، یہ وہ بلند تر ہستیاں ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے دنیا پر بھی سر
خروکیا اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔ مستقبل قریب میں سلطان صلاح الدین
ایوبیؒ اس کی زندہ مثال ہیں جنہوں نے فلسطین ، مصر ، شام ، لبنان اور اردن
پر اپنی وسیع حکومت قائم کی ، بیت المقدس فتح کیا اور ان کی وفات کے بعد جب
ان کی ذاتی جائیداد کا حساب کتاب کیا گیا تو ان کی ذاتی ملکیت میں ایک
گھوڑا، ایک تلوار، ایک زرہ، ایک دینار اور 36درہم کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔
سلطان شدید خواہش رکھنے باوجود ذاتی سرمایہ نہ ہونے کے باعث حج پر نہ جا
سکے۔ (تاریخ ابنِ خلدون)اور مستقبل قریب تر میں مغل شہنشاہ اورنگزیب
عالمگیرؒ کی مثال بھی دی جاسکتی ہے جنہوں نے پچاس سال پورے ہندستان پر طویل
ترین حکمرانی کی۔ ایک انگریز مورخ لکھتا ہے کہ ’’میں نے خود اورنگزیب
عالمگیر کے خزانوں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے خزانوں کا یہ عالم تھا کہ اگر چھ
مہینوں تک دن رات مسلسل لکڑی تولنے والے بڑے تکڑوں پر تولا جاتا تو اس کے
خزانے ختم نہ ہوتے مگر وہ ٹوپیاں سی کر ، مزدوری کر کے اور قرآن کے سپارے
لکھ کر اپنی گذر اوقات کرتا‘‘۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد اس کی کل
جائیداد چھ آنے تھی جو اس کی ذاتی صندوقچی سے ملے۔ ان چھ آنوں کے ساتھ ایک
پرچی بھی ملی جس پر لکھا تھا کہ ’’میری یہ کمائی ہوئی دولت کسی غریب مسکین
میں تقسیم کر دینا‘‘ہمارے کچھ بدبخت نام نہاد دانشور اورنگزیب عالمگیرؒ کے
بارے میں طرح طرح کے نازیبا الفاظ اور الزامات عائد کرتے دکھائی دیتے ہیں
مگر وہ اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ وہ خود کس قدر مکروہ اور
قبیح شخصیت کے مالک ہیں۔ایسا ہی کچھ معاملہ حافظ محمد سعید کا بھی ہے۔ کچھ
حاسدین، منافقین، دشمنوں کے ایجنٹ، زر پرست، دین کے باغی اور جہاد کے منکر
ان کے خلاف بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ ایسے مکروہ کردار ہر دور ، ہر زمانے
اور ہر وقت میں موجود رہے جو دین اور ملک و ملت کے دشمنوں کا آلہ کار بنے
مگر تاریخ میں ان کا نام اور کردار نہایت حقارت اور ذلت آمیز الفاظ میں
تحریر کیا گیا۔ تاریخ آج بھی لکھی جا رہی ہے، کردار آج بھی نمایاں ہیں۔
ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تاریخ دان تاریخ لکھنا چھوڑ دیں اور یہ بھی ممکن
نہیں کہ غدار اور باغی اپنا آپ چھپا سکیں اور یہ بھی ناممکنات میں سے ہے کہ
اﷲ کی راہ میں لڑنے والے کمزور پڑ جائیں اس لئے کہ ان کی قوت براہ راست اﷲ
کی قوت ہے جو کمزور ہو ہی نہیں سکتے لہذٰا تمام اندرونی و بیرونی دشمن
قوتیں سن لیں کہ حافظ محمد سعید اور ان کے جانثار اﷲ کی قوت ہیں جو اﷲ کی
رضا کے لئے میدان کارزار میں ہیں۔ یہ سکندر اعظم کی فوج نہیں جو آگے بڑھنے
سے انکار کر دے اور حافظ سعیدسکندر اعظم کے استاد نہیں جو استاد ہونے کے
باوجود اپنے عظیم شاگرد کی فوج کو دشمن کے مقابلے میں آنے پر قائل یا رضا
مند نہ کر سکے بلکہ حافظ محمد سعید سکندر اعظم کے استاد کے بھی استاد ہیں
لہذٰا اس مجاہد اعظم کی فوج دشمن کے مقابلے میں بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور
بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘کے مصداق
حافظ محمد سعید کے ہاتھ میں کوئی تیر تلوار نہیں مگر بھارت کی ٹانگیں پھر
بھی کانپ رہی ہیں، دل اچھل کر حلق تک پہنچے ہوئے ہیں، جگر پاش پاش ہونے کو
ہیں، آنکھیں ابل کر باہر نکلنے والی ہیں، دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب ہیں ،
فہم و ادراک دفن ہوچکے اور یہی وہ اﷲ کی قوت ہے جس کا مندرجہ بالا سطور میں
تذکرہ کیا گیا۔ ٹرائیکا کے ان ایجنٹوں نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے
حافظ سعید کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کیں ، نظر بندیاں کیں، تنظیمی و
مالی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گویا ہر حربہ استعمال کیا مگر اﷲ
کے اس سپاہی اور مردِ مجاہد کے اندر سے نہ تو جذبہ حریت کم کر سکے او رنہ
ان عظیم مقاصد کے آگے بند باندھ سکے جو صرف اور صرف قرآن و سنت کے عین
مطابق ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب مجاہدینِ اسلام کی قیادت کرنے والی عظیم
ہستیوں میں حافظ محمد سعید کا نام بھی تاریخ کے اوراق پر ’’مجاہد اعظم‘‘ کے
طور پر سنہرے حروف میں لکھا نمایاں دکھائی دے گا۔
|