نواز شریف کے لیے ایک اہم سبق

پاکستانی سیاست میں دوست ٗدشمن بن سکتا ہے اور دشمن دوست کاروپ اختیار کرسکتا ہے ۔یوں تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے سیاست دانوں کے کردار کو پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں بخوبی دیکھاجاسکتا ہے لیکن چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں عمران خان کی قلابازیوں اور آصف علی زرداری کی شاطرانہ چالوں کو پاکستان کی موجودہ نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ وہ عمران خان جو آصف علی زرداری کو سب سے بڑا چور قرار دیتے چلے آرہے تھے ٗ یکدم ان کے ہمنوا ہو گئے ۔ اس واقعے کے چند دن پہلے ہی عمران خان کا یہ بیان اخبارات کی زینت بنا کہ زرداری سے ہاتھ ملانے کا مقصد اپنی تمام جدوجہد کو صفر کرنا ہے ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ دونوں بدترین دشمن ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی طرح ہاتھ باندھ کے ٗکھڑے ہوگئے ۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں اپنی شکست پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ غیبی ہاتھ نے دونوں کو یک جان یک قالب ہونے پر مجبور کیا ۔ویسے بھی نواز شریف بالادست قوتوں کے غیبی ہاتھ کا مظاہرہ 1990ء میں اس وقت دیکھ چکے ہیں جب انہیں وزیر اعلی پنجاب سے اٹھاکر وزیر اعظم پاکستان کے منصب پربٹھادیا گیا ۔آئی جے آئی کیسے بنی یہ کہانی آج بھی سنی اور سنائی جاتی ہے ۔ عمران خان کو یقین ہے کہ اگر بالادست طاقتیں بے نظیر جیسی مقبول ترین سیاسی لیڈر کے سامنے نواز شریف جیسے کمزور رہنما کو سہارا دے کر کھڑا کرسکتی ہیں توعمران خان کو بھی وہی قوتیں اپنے صوبے میں کچھ نہ کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان بنا سکتی ہیں ۔ اس سے قطع نظر کہ چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو غیر متوقع شکست کا سامناکرنا پڑا لیکن اس شکست میں نواز شریف کی اپنی کوتاہیوں کا بھی عمل دخل شامل ہے ۔ مجھے عمران خان کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ نواز شریف موجودہ جمہوری دور میں بھی بادشاہوں جیسا مزاج رکھتے ہیں ۔عدالت عظمی کی جانب سے جب سے انہیں نااہل قرار دیاگیا ٗ وہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مسلسل اور بھرپور جلسے کر کے عوام الناس کواپنے دکھ بھری داستان سنا کر عدلیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کررہے ہیں ان کا یہ عمل ریاستی اداروں اور قومی یکجہتی کے لیے سخت نقصان دہ ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے سندھ اور بلوچستان کو دانستہ نظر انداز کررکھا ہے ۔ یہ پیپلز پارٹی سے مفاہمت کا نتیجہ ہے یا کچھ اور۔ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت کو خفیہ ہاتھوں نے یکسرختم کردیا بلکہ مسلم لیگ ن کے ممبر صوبائی اسمبلی کو بھی پارٹی سے بغاوت پر مجبور کردیا۔ نواز شریف اگر چاہتے تو وہاں خود جاکر معاملات کو سنبھال سکتے تھے ۔ شاید ان کے پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے کہ وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے بھی وہاں نہیں جاسکے اور لاہور ہی میں بیٹھ کر خیالی پلاؤ پکاتے اور کھاتے رہے ۔ اس کا تو یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کے نزدیک بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں ۔ جبکہ گوادر پروجیکٹ اور سی پیک منصوبے کی تکمیل کے لیے بلوچستان کے عوام کا احساس کمتری ختم کرنا اور انکے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا بے حد ضرور ی ہے۔ عمران اور آصف علی زرداری نے بالادست قوت کے اشارے پر جس طرح چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں اپنا امیدوار چھوڑ کر بلوچستان کے متفقہ امیدوار کو ووٹ دیایہ بالادست قوتوں سے سمجھوتے کی ہی ایک شکل ہے ۔نواز شریف اپنی اس شکست کو کوئی بھی معنی پہنا سکتے ہیں لیکن ایک بلوچی کا چیئر مین سینٹ کی کرسی پر موجود ہونا پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے ۔یہ سب باتیں نواز شریف کو ٹھنڈے دل سے سوچنی چاہیئں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے اپنی حمایت کا یقین دلا کر 2018ء کے الیکشن میں اپنی پوزیشن کو بلوچستان میں مستحکم کرلیا ہے ۔یہی حکمت عملی پیپلز پارٹی نے بھی اختیار کی اور وزیر اعلی بلوچستان سمیت تمام اراکین اسمبلی کو کراچی بلاکرضیافت دی اور قریبی روابط بھی استوار کیے لیکن مسلم لیگ ن کے کسی بھی رہنما نے وزیر اعلی بلوچستان کو مبارک باد دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ زرداری کو عام طور پر سیاست کا گرو تصور کیاجاتاہے اور یہ تصور غلط بھی نہیں ہے وہ نہ صرف موجود ہ حالات کو مدنظر رکھتے ہیں بلکہ مستقبل میں ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیئے وہ تمام اقدامات بروقت اٹھاتے بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں مقبولیت نہ ہونے کے باوجود وہ اپنی شاطرانہ چالوں سے اب تک اپنی پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ عمران خان جیسے جانی دشمن کے دل میں بھی نرم گوشہ پیدا کرچکے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قومی الیکشن میں تحریک انصاف ٗ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی اکٹھے میدان میں اتریں اگر ایسا ہوگیا تو مسلم لیگ ن کی کامیابی مشکوک ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ جس غیبی ہاتھ نے چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں اراکین پارلیمنٹ کو ضمیر کے برعکس ووٹ دینے پر مجبور کیا وہ الیکشن کے نتائج کو بھی اپنی مرضی سے تبدیل کرسکتے ہیں ۔ نواز شریف کے لیے صائب مشورہ یہی ہے کہ وہ بالادست قوت سے مقابلہ کرنے کی بجائے1990ء کی طرح ان کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کریں اور عدالت عظمی کے خلاف زہر اگلنے کی بجائے اپنے سیاسی حریفوں سے مقابلہ کریں ۔وگرنہ عوامی مقبولیت کے خواب ٗ تنکوں کی طرح بکھرسکتے ہیں ۔ایک اور بات جو اس وقت ہر سطح پر سنی اور سنائی جاتی ہے کہ ممتاز قادری جسے مذہبی حلقوں میں عاشق رسول اور شہید قرار دیا جاتاہے اس کو پھانسی بھی نواز شریف کے دور حکومت میں دی گئی جبکہ ختم نبوت کی شقوں میں تبدیلی کا کارنامہ بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران ہی انجام پایا جس کی وجہ سے بطور خاص مذہبی حلقوں میں نواز شریف کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے جس کااظہار جامعہ نعمیہ میں دیکھاجاسکتا ہے ۔یاد رہے کہ اس سے پیشتر مذہبی حلقوں کے زیادہ تر ووٹ مسلم لیگ ن کو ہی ملتے چلے آئے ہیں ۔ اگر مسلم لیگ ن کو آنے والے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو بالادست قوتوں کے ساتھ صلح کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں کی ناراضگی بھی ختم کرنا ہوگی ۔اب شہباز شریف مسلم لیگ ن کی منصب صدارت پر فائز ہوچکے ہیں ۔ نواز شریف کو چاہیئے کہ وہ اپنی جنگ ختم کرکے ٗ شہباز شریف کو پارٹی کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کا اختیار دیں اور خود اپنے جانثار پرانے مسلم لیگیوں کو ( چوہدری نثار احمد ٗ جاوید ہاشمی ٗ ذوالفقار کھوسہ اور غوث علی شاہ) منانے کی جستجو کریں اور سندھ اور بلوچستان کے ہر ضلع میں جلسہ عام کرکے وہاں کی عوام کو اپنے بہترین منصوبوں سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالیں ۔ وگرنہ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے دوران دیا جانے والا سبق نواز شریف کو ہمیشہ یاد رہے گا ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.