خاندان جموں کے چشم و چراغ وزیر بمبور کی موت کے بعد
ایک مرتبہ پھر خاندان گودھر کے سانق حکمران راجہ گلگندر کی اولاد سے پرتاب
شل نامی شخص نے زعما اور عمائدین کی رضامندی سے مسند حکومت سنبھالا۔ راجہ
پرتاب شل نے عدل و انصاف سے حکومت کی اور اپنے نام سے کوہ اُلر کے وسط میں
پرتاب نگر ایک شہر آباد کیا۔ مچھ بھون کے مقام پر پرتاب شور کی بنیاد ڈالی۔
یہ ود و قامت اور شکل و صورت میں لاثانی تھا اور 36سال عدل وانصاف سے حکومت
کرنے کے بعد 1534ق م کو اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ راجہ پرتاب شل کے بعد اس
کا بیٹا سنگرام چند تخت نشین ہوا۔ عدل و انصاف سے حکومت کرنے کے بعد سنگرام
پور کی بنیاد ڈالی۔ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد 1532ق م کو خالق حقیقی سے جا
ملا۔پرگنہ لار میں کوہ ترگنگ کے دامن میں شہر لاک نگر تعمیر کروایا۔ اس شہر
کے لیے لاری نہر تعمیر کروائی۔ 31سال تک عدل و انصاف سے حکومت کر کے راجہ
الارک 1501ق م کو طبعی موت مرا۔ راجہ الارک چند کی وفات کے بعد اس کا بیٹا
بیرم چند گدی نشین ہوا۔ عبادت گزار اور فقیر منش آدمی تھا۔سخاوت میں اپنی
مثال آپ کا مصداق تھا۔ 45سال کی شاندار حکومت کرنے کے بعد 1456ق م کو اس
جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
راجہ بیرم چند کی وفات کے بعد اس کا بیٹا بیکھن تخت نشین ہوا۔ سست اور کاہل
حکمران تھا لیکن اس کی بیگم چکرارانی بہت معاملہ فہم تھی۔ چکرارانی امور
مملکت چلاتی تھی۔ 17سال تک دانشمندی سے حکومت کرنے کے بعد خاوند کی وفات کے
بعد 1439ق م کو حکومت چھوڑ کر فقیرانہ لباس اپناتے ہوئے رشی کی خدمت میں
مامور ہو گئی۔ راجہ بیرم چند کی وفات کے بعد چکرارانی کے مشورہ سے اس کا
بھائی بھگونت حکمران بنا۔ 14 سال عدل و انصاف سے حکومت کرنے کے بعد راجہ
بھگونت 1425ق م کو لاولد مرا۔
راجہ بھگونت کی موت کے بعد اسی خاندان سے اشوک نامی کو باہمی رضامندی کو
باہمی رضامندی سے حکمران بنایا گیا۔ راجہ اشوک بہادر اور دلیر شخص تھا۔
سلطنت کشمیر میں اس حد تک وسعت لائی کہ ہندوستان بھر میں اس کا ڈھنکا بجنے
لگا۔ یہاں تک کہ شاہ چین بھی اس کا مطیع ہو گیا۔ چین کے ساتھ ساتھ برما،
کابل، قندھارا اور ترکستان میں بھی اس کی حکومت کے آثار موجود رہے ہیں۔
راجہ اشوک کے دور میں سلطنت کی وسعت کی وجہ سے اس نے بشپ پور کے مقام پر
’’پاٹلی پتر‘‘ شہر تعمیر کرتے ہوئے دارلصدر تشکیل دیا۔آجکل یہ شہر پٹنہ کے
نام سے مشہور ہے۔ موسم بہار میں قندھار گرما میں کابل اور کشمیر کو اپنا
مسکن رکھتا تھا۔ زیادہ عرصہ ہندوستان میں بسر کرتا تھا اس وجہ سے راجہ اشوک
والئی کشمیر اور راجہ اشوک والئی مگدھ دیس کے حالات کو آپس میں بعض اوقات
ملا دیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ والئی مگدھ دیس اور والئی کشمیر دو الگ الگ
راجے تھے۔ راجہ اشوک والئی کشمیر ابتداء میں ہندو مت کا پیروکار تھا لیکن
بعد میں اتفاقاً بدھ مت قبول کر ڈالا۔ کشمیر میں بدھ مت کا عروج اسی کے
زمانے میں ملا۔ بدھ مت کی اشاعت کے لیے دنیا بھر سے علماء کو بلایا۔
ترکستان، برما، تبت، چین، نیپال اور کشمیر میں بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔
اور آج بھی لداخ میں اس مذہب کے ماننے والے موجود ہیں۔پرگندکارد پارہ عالی
شان عمارتیں تعمیر کروائی۔ اس شہر میں 6لاکھ مکان اور 96لاکھ نفوس موجود
تھے۔ موضع نگلند میں دو قریہ آباد کئے اور برہمنوں کو دے دئیے۔ بدھ مت قبول
کرنے کے بعد برہمنوں اور ہندو مت کے اصولوں کے سخت خلاف ہو گیا اور منادر
گرادئیے۔ بیج بہارہ کے تمام منادر گرا دئیے۔ دو اور مندر موضع ہوکھ لتری
اور وتر پھل میں بے شمار مندر بنوائے۔ دریائے جہلم (بہت) کے منبع پر ایک
دیتھ وتر تعمیر کروایا۔ رعایا اس راجہ سے جب تنگ ہوئی اور مذہبی لبادہ اوڑھ
کر مندر بوٹی شور میں گوشہ نشین ہو گیا۔ یہ مندر کوہ جدہشٹر کے دامن میں
چشمہ نرائن ناگ پر آباد تھا۔ 51سال جاہ و جلال سے حکومت کرنے کے بعد یہ
راجہ 1374 ق م کو یہ راجہ تارک الدنیا ہوتے ہوئے تخت چھوڑ گیا۔
راجہ اشوک کے تارک الدنیا ہونے کے بعد اس کا بیٹا راجہ جلوک تخت نشین ہوا
یہ بڑا رحم دل راجہ تھا سرکشوں اور باغیوں کو راہ راست پر لایا۔ مختلف
محکمہ جات تعمیر کروائے ان محکمہ جات میں مجلس شوریٰ ، مجلس
دیوانی(بندوبست)، مجلس مالیات، مجلس دفاع، محکمہ خیرات، محکمہ عدل و انصاف
و انتظامیہ شامل ہیں۔پنڈت اودبٹ ست متاثر ہو کر بدھ مت چھوڑ کر ہندومت
دوبارہ قبول کر لیا۔ مندر بیچ شور اور نندہ کشور کی پرستش مقدم جان کر شیو
مت کو پروان چڑھایا۔ پرگنہ لا میں موضع رباہ لہ تعمیر کروایا۔ علم کیمیا کا
ماہر تھا اور کوئی پیڈ سے سونا بناتا تھا۔ باپ کی فتوحات پر مکمل حاوی ہوتے
ہوئے قنوج، بہار، قندھار اور باختر کو بھی سلطنت کشمیر میں شامل کیا۔ راجہ
ججلوک کی بیگم ’’ایشاں رانی‘‘ بڑی فیاض دیوی تھی۔ یہ بیاسدیو کے شاگرد ست
پوران کی کتھا بھی سنا کرتی تھی۔ 1314ق م کو 60سال حکومت کرنے کے بعد یہ
راجہ دارفانی سے کوچ کر گیا۔
راجہ جلوک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی دامودر حکمران بنا۔ عدل انصاف سے
حکومت کی۔ پرگھنہ اچھ میں موضع تودہ سہتو تعمیر کروایا۔ اس طرح پہاڑی کریوہ
میں عالی شان شہر تعمیر کروا کر اپنا صدر مقام قرار دیا۔ 32 سال حکمرانی
کرنے کے بعد 1282ق م کو تخت اپنے بیٹے کے لیے چھوڑ گیا۔
راجہ دامودر کے بعد اس کا بیٹا نراندر تخت نشین ہوا اسی کے دو ر میں حضرت
سلیمان ؑ بھی کشمیر وارد ہوئے۔ حضرت سلیمان کا تخت کوہ شنکر اچاریہ جیت لاک
پر ٹھہرا۔ راجہ دامودر بھی حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں حاضر ہوااور ساتھ
چلنے کی استدعا کر دی۔ کہا جاتا ہے سند مت نگر کا آدھہ حصہ پانی خشک کروا
کر حضرت سلیمان ؑ کے کامراج کے علاقے کو کھیتی باڑی کے قابل بنوایا اور
آدھا حصہ جھیل وولر کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کے بعد راجہ کی درخواست منظور
کرتے ہوئے حکومت کشمیر پر ترکی شہزادہ کان کے سپرد کرتے ہوئے دامودر کو
ہمراہ لے گئے۔ اس کے بعد کشمیر باغ سلیمان اور کوہ سلمان کہلانے لگا اور
1282ق م میں ہی دو ہفتے کی حکومت کے بعد دامودر کے ساتھ خاندان گودھر کا
بھی خاتمہ ہو گیا۔
|