دشمنانِ اسلام گذشتہ تین دہائیوں کے درمیان مشرق وسطیٰ
میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے انہیں ہی عالمی سطح پر دہشت گرد وں کی
حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلام جس تیزی سے دنیا کے مختلف
ممالک میں پھیل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی نیندیں حرام ہوچکی
ہیں۔ شام، یمن کے حالات تو انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرگئے ہیں ۔ عالمی
سطح پر دشمنانِ اسلام نے جس سازش کے تحت مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر
پیش کیا اس میں انہیں گذشتہ چند برسوں کے دوران کامیابی بھی ملنے لگی
ہے۔امریکہ، اٹلی، ڈنمارک ، روس، فرانس ، برطانیہ، جرمن وغیرہ میں مسلمانوں
پر حملے کئے جارہے ہیں یہی نہیں بلکہ مساجد کو بھی شدید نقصان پہنچایا
جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں جرمن کے دارالحکومت برلن میں ایک مسجد پر آتش گیر
مادہ پھینکتے ہوئے آگ لگادی گئی جس سے مسجد کا اندرونی حصہمکمل خاکستر
ہوگیا ، اس سے قبل حالیہ دو دنوں کے دوران جرمن میں مزید دو مقامات پر دو
مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے یہاں پر بھی آتش گیر مادے پھینکے گئے۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق جرمن حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا
گیا ہے کہ گذشتہ برس اس یوروپی ملک میں مسلم مردوں و خواتین کے علاوہ مساجد
پر تقریباً ایک ہزار حملے کئے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے
تجاوز کرگئی ہے۔ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن اس
مسجد پر کئے گئے حملہ میں تین کم عمر لڑکوں کے ملوث ہونے کے امکانات ہے اگر
واقعی کم عمر لڑکے ا س طرح کے حملے کررہے ہیں تو مستقبل میں جرمن کے حالات
سنگین صورتحال اختیار کرجائیں گے ۔ دیگر ممالک کی طرح جرمن میں بھی دھمکی
آمیز خطوط ، اسکارف پہننے والی مسلم خواتین یا پھر عوامی مقامات پر مسلمان
مردوں کے خلاف نفرت انگیز جملے کسے جاتے ہیں۔ جرمن کی سیاسی جماعت دی لنکے
سے وابستہ ایک سیاستداں خاتون اولایلپکے کے مطابق اب اسلام دشمن گلیوں سے
نکل کر پارلیمنٹ تک پہنچ چکے ہیں یہ پارلیمانی اسٹیج کا استعمال کرتے ہوئے
جرمنی میں مسلمانوں کی زندگی کے خلاف سماجی ماحول کو زہریلا بنارہے ہیں۔
اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کے درمیان خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ’’3؍ اپریل مسلمانوں کیلئے سزا کا دن ہوگا
‘‘برطانیہ میں اس قسم کے پراسرار خطوط جن میں مسلمانوں کو دھمکی دی گئی ہے
اس سے مسلمانوں میں سنسنی پھیل گئی ہے اس طرح کا ایک خط براڈ فورٹ کے
کونسلر ریاض احمد کو بھی ملا ہے اسی طرح لندن کے کئی خاندانوں کو یہ خطوط
ملے ہیں۔ اس قسم کے خطوط ملنے کے بعد لندن پولیس نے برطانوی شہریوں کو
وارننگ دی ہے کہ وہ چوکس رہیں۔ برطانوی انسداد دہشت گردی عہدیداروں نے ان
خطوط کے روانہ کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اب دیکھنا ہیکہ
برطانیہ حکومت مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کس قسم کے اقدامات کرتی ہے اوردہشت
گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کتنی جلد انکاسراغ لگا پاتی ہے۔ایک
بات یہاں غور کرنے کی ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت
انگیز کارروائی ہورہی ہے ان دہشت گردانہ کارروائی کرنے والوں کو بھی دہشت
گرد بتاکر عالمی سطح پر انہیں انکے مذہب کے ساتھ منظرعام پر لائیں۔
عالمی طاقتیں شام و روس کے آگے بے بس یا۰۰۰
شام کے شہر غوطہ کے مشرقی حصہ میں شامی فوج اور اپوزیشن کے درمیان جنگ شدت
اختیار کرتی جارہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک 11سو سے زائدافراد جاں
بحق ہوچکے ہیں جن میں کم و بیش 250بچے شامل ہیں۔گذشتہ تین ہفتوں سے جاری
مشرقی غوطہ میں اب تک لگ بھگ چار ہزار افراد زخمی ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل اینٹونیو گیٹرریس نے کہا ہیکہ جنگ بندی کی قرار داد پاس ہونے
کے باوجود نہ تو جنگ بندی کی گئی ہے اور نہ ہی شدید زخمی مریضوں کو محفوظ
مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے دباؤ کے
باوجود شامی حکومت جنگ بندی کی قرارداد کو نظر انداز کرکے روسی فضائی حملوں
کے تعاون سے باغیوں کو ختم کرنے کے نام پر بے قصور عام شہریوں کو نشانہ
بنارہی ہے۔ شامی فوج کا دعویٰ ہیکہ اس نے مزید دو ٹاؤنز سے باغیوں کا قبضہ
چھڑا لیا ہے۔بے قصور لوگ اپنے معصوم بچوں اور خواتین سمیت جان بچانے کے لئے
تہہ خانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی
فورسز نے روسی فضائی حملوں کی مدد سے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے ۔سیرین
آبزرویٹری برائے حقوق انسانی کا کہنا ہے کہ شامی فورسز نے غوطہ کے سب سے
بڑے شہر دوما کے راستے منقطع کر دیے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق فورسز نے مؤثر
پیش قدمی کرتے ہوئے خطے کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جبکہ میدیرا کے
علاقے پر قبضہ حاصل کرلیا گیاہے۔بشارالاسد کی ظالمانہ کارروائیوں میں شام
کی جنگ میں اب ہزاروں بچے جاں بحق ، لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں اور لاکھوں
بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہوچکی ہے۔ شامی مظلوم دنیا کے کئی ممالک میں پناہ
کے متلاشی ہیں ۔ بشارالاسد کی ظالمانہ کاررائیوں کو تقویت دینے کے لئے
ایران اور روس کا کردار اہم بتایا جارہا ہے تو دوسری جانب عالمی طاقتیں صرف
بیان بازی کی حد تک بشارالاسد کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ اگر واقعی اقوام
متحدہ طاقتور ترین ادارہ ہے اور عالمی طاقتیں واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہیں
تو انہیں چاہئیے تھا کہ وہ شام کے جابر اور ظالم صدر بشارالاسد کے خلاف
فوراً کارروائی کرتے ہوئے اسے معزول کردیتے۔ جیسا کہ افغانستان ، عراق،
لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ بشارالاسد کو اتنی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے ایسے
کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جارہی
ہے۔ جب اگسٹ 1090ء میں صدام حسین ، پڑوسی ملک کویت میں اپنی فوج اتار دیئے
تو امریکہ اور دیگر چالیس کے قریب اتحادی ممالک نے عراق کو تہس نہس
کردیا۔دوسری مرتبہ پھر کیمکل گیس کی موجودگی کا الزام عائدکرکے 2003میں
عراق پر خطرناک فضائی حملے کرکے ہزاروں عراقی بے قصور عوام کو ہلاک کیا گیا
اور کروڑہا ڈالرس کی املاک کو تباہ و برباد کردیا گیا ۔ دشمنانِ اسلام نے
عراق کی عظیم تاریخ کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ قدیم لائبریری اور بازار
پر حملہ کرکے برسوں کے تاریخی شواہد کو مٹادیا گیا۔ خطے میں صدام حسین کی
بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان مسلم حکمرانوں نے مل بیٹھ کر متحدہ طور پر اپنے
مسائل حل کرنے کے بجائے دشمنانِ اسلام کی مدد حاصل کئے جس کا خمیازہ آج
25برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مسلمان بھگت رہے ہیں۔ 9/11ورلڈ ٹریڈ
سنٹر پر حملہ بھی دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا نتیجہ تھا جس کی تفصیل ذرائع
ابلاغ نے واضح انداز میں پیش کی لیکن بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ تمام
مذاہب کے ماننے والے اسلام کی وحدانیت، حق و صداقت ، امن و آمان کو پسند
نہیں کرتے اور اسلام کے ماننے والوں کو کسی نہ کسی طرح ختم کرنے کی کوشش جس
طرح آغاز اسلام سے کرتے رہے ہیں آج بھی اسے دہرایا جارہا ہے ۔ اسی کی ایک
کڑی آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ سنی ممالک کے مسلم حکمرانوں کو دشمنانِ اسلام چند
گھنٹوں، دنوں، ہفتوں کے اندر ختم کردیئے لیکن شام میں اتنے برس گزرنے کے
باوجود بشارالاسد کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہورہی ہے سوائے بیان بازی
کے۔ ایک طرف روس اور ایران شام کو مکمل تعاون کررہے ہیں تو دوسری جانب
اپوزیشن کو امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک تعاون کرکے یہ بتانے کی کوشش
کررہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں لیکن اصل میں اندرونی سطح پر یہ سب
کارروائی مسلمانوں کے خاتمہ کے لئے کی جارہی ہے۔ مسلم حکمراں امریکہ،
فرانس، روس، برطانیہ وغیرہ سے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار خرید رہے ہیں ۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق جو رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں اس کے ذریعہ یہ پتہ چلتا ہے
کہ دنیا بھر میں جو ہتھیار فروخت ہورہے ہیں ان میں ہر تیسرا ہتھیار
ہندوستان ، سعودی عرب ، مصر اور عرب امارات خرید رہے ہیں۔ہتھیاروں کی عالمی
مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ہتھیارامریکہ کے بتائے جارہے ہیں
اس طرح امریکہ کی معیشت اسلامی ممالک کی دولت سے مضبوط و مستحکم ہوتی جارہی
ہے ۔ سعودی عرب کی معیشت شام اور یمن کی جنگ کی وجہ سے بُری طرح متاثر
ہوچکی ہے گذشتہ تین برس سے سعودی بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے ۔ اس کا اثر
سعودی عرب میں مقیم کئی ممالک کے تارکین وطنوں پر پڑا ہے ، شاہ سلمان بن
عبدالعزیز کے دورِ حکومت میں ولیعہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی وجہ سے
لاکھوں تارکین وطن روزگار سے محروم ہوگئے ہیں یا کم تنخواہوں میں مجبوری کی
وجہ سے نوکری کررہے ہیں۔جس ملک کی تعمیر و ترقی میں تارکین وطنوں نے اہم
کردار ادا کیا تھا ان ہی ممالک کے تارکین وطنوں کے ساتھ موجودہ سعودی شاہی
حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے آج سعودی عرب
کی بگڑتی معیشت اور مختلف ٹیکسس عائد کئے جانے کی وجہ سے لاکھوں تارکین وطن
اپنے افراد خاندان کووطن واپس بھیج چکے ہیں۔بشارالاسد کی ظالمانہ
کارروائیوں کوروکنے اور یمن میں حوثی بغاوت کو ختم کرنے کیلئے مصالحت پسندی
سے کام لیا جاسکتا تھا ۔ عالمِ اسلام کے حکمراں اپنے اقتدار کو بچانے یا
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے جس طرح شام اور یمن کے میدان جنگ میں کود
پڑے ہیں اس سے لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم مستقبل میں اور
کتنے مسلمان ان حکمرانوں کی نادانی، اقتدار کی ہوس کا شکار ہوجائیں گے۔ نام
نہاد دہشت گرد تنظیموں کا وجود کیوں کر ہوا اس کی ایک الگ تاریخ ہے۔ ایک
طرف واقعی ان مظلوم مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں نے آواز اٹھائی
اور ان تنظیموں میں شریک ہونے لگے تو دوسری جانب یہ نام نہاد جہادی تنظیمیں
ان مسلمانوں کے ذریعہ مسلمانوں کو ہی بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دیگر
حملوں کے ذریعہ نشانہ بنانے لگے۔ آج مشرقِ وسطیٰ میں جس طرح مسلمانوں کا
قتل عام ہورہا ہے اس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے لیکن کیا مسلم حکمراں
سنجیدگی سے مل بیٹھ کر اس خونی کھیل کو ختم کرپائیں گے ۔ایسا محسوس ہوتا
ہیکہ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ دشمنانِ اسلام کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔
کیونکہ کروڑہا ڈالرس کے فوجی سازو سامان خریدے گئے ہیں اور انکے ساتھ فوجی
مشقیں بھی ہوتی رہی ہیں اب اگر ان ہی کے خلاف آواز اٹھائی گئی تو پھر انکا
بھی وہی حشر ہوگا جو ماضی میں دوسرے مسلم حکمرانوں کا ہوچکا ہے۔ ان دنوں
عالمی سطح پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غیر اسلامی ممالک میں
عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر ان بے قصور مسلمانوں پر حملے
کئے جارہے ہیں جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے خلاف ایسی کارروئی
کی جائے گی۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک
بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ڈنمارک، میانمار، سری لنکا وغیرہ میں
مسلمانوں پر حملے کرکے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ عالم اسلام کے حالات کی وجہ
سے ان پر حملے کئے جارہے ہیں اسطرح عالم اسلام کے مسلمانوں کو دہشت گرد
بتاکر ان ممالک میں مقیم مسلمانوں کے دلوں میں نفرت بھری جارہی ہے ۔ کاش
مسلمان دشمنانِ اسلام کی اس سازش کو سمجھ کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا
کرتے۰۰۰
امرا ض میں مبتلا تارکینِ وطن کا داخلہ کویت میں بند
مرض کا دینا اور اسے ختم کرنا اﷲ رب العزت کی قدرت میں ہے ۔ ایک اسلامی ملک
میں کسی مرض میں مبتلا دوسرے ممالک کے شخص کو داخلہ ممنوع قرار دینا یہ اس
کے گھمنڈ اور تکبر کے سوا کچھ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو ایسے گھمنڈی اور متکبر
اشخاص ناپسند ہے ۔ ان دنوں خلیجی ریاست کویت نے سرطان ، ذیابیطس ، بلند
فشار خون(BP) اور دوسرے خطرناک غیر وبائی امراض کا شکار تارکین ِ وطن کو
اقامتی اجازت نامے جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اس
نئے قانون کا مقصد تارکین وطن کی صحت پر اٹھنے والے بھاری اخراجات پر قابو
پانابتایا جارہا ہے۔کویت کی وزارت صحت نے اس ضمن میں 22 امراض کی ایک فہرست
جاری کی ہے ۔ان میں سے کسی ایک مرض میں مبتلا کسی تارکِ وطن کو کویت کا
مستقل اقا مہ جاری نہیں کیا جائے گا ۔محکمہ صحت کی اسسٹنٹ انڈر سیکریٹری
ماجد ہ القطانی نے بتایا کہ یہ قانون خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) کے
2001ء کے ایک فیصلے کے مطابق جاری کیا گیا ہے اور اس کے تحت اس امر کو بھی
یقینی بنانا ہے کہ ملک میں آنے والے تارکین ِوطن بالکل صحت مند ہوں اور وہ
کسی مہلک مرض میں مبتلا نہ ہوں ۔
امریکہ اور سعودی عرب کی مسلح افواج کی مشترکہ مشقیں
سعودی عرب اور امریکہ کی مسلح افواج کی مشترکہ فوجی مشقیں ’فرینڈ شپ 2018‘
مملکت کے شمالی علاقے میں شروع ہوگئیں۔ ان مشقوں میں شاہی گارڈز کی بری فوج
کے دستے حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ’فرینڈ شپ مشقوں
کی یہ چوتھی مشقیں ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق دونوں دوست ملکوں کی افواج
پر مشتمل یہ مشقیں کئی ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ ان مشقوں کے دوران ایک دوسرے
کی عسکری قابلیت سے استفادہ کرنا، مشترکہ تعاون کا فروغ، پلاننگ، ڈویلپمنٹ،
کمانڈ وفیلڈ کنٹرول اور دیگر روایتی اور غیر روایتی جنگی تجربات کیے جائیں
گے۔سعودی عرب کی شمالی ریجن کے کمانڈر میجر جنرل صالح بن احمد الزھرانی نے
بتایا کہ فرینڈشپ مشقیں امریکا اور سعودی عرب کی بری فوج کی سب سے اہم
مشقیں ہیں جو سالانہ بنیادوں پر منظم انداز میں ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا
کہ ان مشقوں کا مقصد دونوں ملکوں کی افواج کو ایک دوسرے کے جنگی اسالیب سے
آگاہ کرنا، روایتی اور غیر روایتی جنگ کی تیاری میں ایک دوسرے کی مدد کرنا
اور فوج کی دفاعی استعداد اور جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔بریگیڈیئر
جنرل حمدان حمود الشمری نے کہا کہ ’فرینڈشپ 2018‘ سابقہ مشقوں کا تسلسل
ہیں۔ جب کہ بریگیڈیئرجنرل فارس بن نایف المطیری کا کہنا تھا کہ فرینڈشپ
مشقیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جو دونوں ملکوں کی پیشہ وارانہ جنگی
صلاحیت کو جانچنے کا بہترین موقع ہیں۔دوسری جانب امریکی فوجی عہدیدار
کریسٹوفر ہول کاکہنا ہے کہ فرینڈشپ مشقیں سعودی عرب اور امریکی افواج کی
دوستی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ ان مشقوں سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی شعبے
میں تعاون اور دو طرفہ اعتماد کو مزید فروغ ملے گا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر
ہے کہ اس طرح امریکہ ، سعودی عرب کی فوجی طاقت کو با آسانی دیکھ سکتا ہے
اور مستقبل میں جب کبھی سعودی عرب امریکہ کے سامنے سر اٹھانے کی کوشش کریگا
تو اسے یہی مشترکہ مشقیں کرنے والے فوجی باآسانی شکست سے دوچار کرسکتے ہیں
کاش سعودی عرب امریکہ کی اس پالیسی کو سمجھ پاتا۰۰۰ |