ہندو مذہب اور دو قومی نظریہ

ہندو مذہب کا بانی کوئی ایک شخص نہیں ، ہندو ازم میں ہمیں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملتا جس کو ہندو ازم کا بانی یا مرکز کہا جا سکے یا جس کو ہندووں کے مذہبی نظام میں مرکزیت حاصل ہو ، اس طرح ہندووں کی مذہبی کتابوں کو بھی کسی ایک شخص کی جانب منسوب نہیں کیا جا سکتا ، ہندو مذہب کے ابتدائی مدارج پہ لاتعداد شخصیات کا ٹھپہ لگا ہوا ہے چونکہ ہندووں کے مذہبی نظام کی تشکیل میں لاتعداد اشخاص کا حصہ ہے اس لئے اس میں کوئی ایک عقیدہ نہیں ، مذہبی قوانین و رسوم و شعائر کی عدم یکسانیت ، عقائد کی بو للعجبی ،طریقِ عبادت کے اختلاف اور معبودوں کی کثرت کے باعـث یہ مذہب ایک گنجان جنگل کی مانند ہے جس میں ہزارون راستے ہیں لیکن کو ئی راستہ صاف اور سیدھا نہیں ۔ برصغیر کے حوالے سے یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ سکندر اعظم کے یونانی جانشینوں کے عہد میں بہت سے ایرانی ایشیاء میں آکر بس گئے تھے جو سورج کی پوجا کرتے تھے اور برہمنوں نے انہیں اپنے نظام میں شامل کر لیا ،انہی کے اثر سے ہندوستان میں سورج اور آگ کی پوجا کا آغاز ہوا۔

ہندو مذہب کی بے یقینی صورتِ حال کا صحیح منظر پنڈت جواہر لال نہرو(1889-196) کی رائے سے عیاں ہوتا ہے

وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں :۔
’’ہندو مت کے دائرے میں بے حد مختلف اور بعض اوقات متضاد خیالات و رسوم داخل ہیں ،اسی لئے اکثر کہاجاتا ہے کہ ہندو مت پر صحیح معنوں میں لفظ مذہب کا اطلاق نہیں ہوتا‘‘

پنڈت نہرو اپنی ایک اور کتاب "Discovery of India" میں ہندو ازم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :۔
’’ہندوازم بحیثیت ایک عقیدے کے بالکل مبہم ، غیر متعین اور بہت گوشوں والا واقع ہوا ہے جس میں ہر شخص کو اس کے مطلب کے مطابق بات مل جاتی ہے ، اس کی جامع اور مکمل تعریف کرنا ممکن نہیں ، حتمی طور پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا یہ کوئی مذہب ہے بھی یا نہیں ، یہ اپنی موجودہ شکل و صورت میں بہت سے عقائد و رسوم کا مجموعہ ہے‘‘ *

ہندوں کی کوئی تاریخ کہیں بھی محفوظ نہیں اور جس قوم کی تاریخ محفوظ نہیں رہتی اس کا قومی تشخص بھی باقی نہیں رہتا، مورخین کی تحقیق کے مطابق 1200ء سے پہلے ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں ایسی کوئی قابل ذکر کتاب نہیں ملتی جس کو تاریخ کی کتاب کہا جا سکے یاکوئی ایسی کتاب جس سے اس ملک کے تاریخی حالات معلو م ہو سکیں ۔ہندو دھرم کی تمام عمارت انسانی تفریق ، چھوت چھات اور توہمات پر کھڑی ہے ،جس کا بنیادی پتھر ذات پات کا ناقابلِ تقسیم اور باقابلِ تنسیخ نظام ہے جبکہ عقائد اس میں قانونی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ہندومذہب کے مطابق یہ قوم چار ذاتوں پر مشتمل ہے
1: برہمن: جو برہما کے سر سے پیدا ہوا ، سر چونکہ جسمکا سب سے افضل اور بہتر حصہ ہوتا ہے ، اس لئے یہ قوم پیدائشی طور پر سب انسانوں سے افضل اور برتر سمجھی جاتی ہے۔
2: کھشتری: جو برہما کے بازووں سے پیدا ہوا
3: ویش: جو برہماکے پیٹ سے پیدا ہوا
4:شودر: جو برہما کے پاوں سے پیدا ہوا۔

ہندو مذہب میں چھوت چھات کا کس قدر عمل دخل ہے آپ اس بات کا اندازہ اس سے ہی لگا لیں کہ وہ اپنی قوم کے چوتھے درجے کے ہندو یعنی شودر سے کیا سلوک کرتے ہیں ؟اور اب آئیے البیرونی کی معروف کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں جس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں جن کو بالآخر دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ الگ وطن کی کی ضرورت شدت کا شدت سے احساس ہوا۔البیرونی(973-1048):
البیرونی جو 1020کے لگ بھگ ہندوستان آئے ، اپنی کتاب ’’ کتاب الہند ‘‘ میں ہندووں کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک اور برتاوپر لکھتے ہیں :۔
’’مسلمانوں کو یہ لوگ ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں اس وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا، جلنا، شادی بیاہ کرنا، مل کر بیٹھناقریب رہنا، اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے،اگر کسی مجبوری کے تحت مسلمانوں کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑ جائے تو اپنے ہاتھ پر رومال لپیٹ کر مصافھہ کرتے ہیں ، صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف ہندووں کے دل میں جو نفرت کا لاوا پک رہا تھا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا کہ ہندو ، مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے ، ذلیل و خوار کرنے، اپنے سے نفرت کی وجہ سے دور رکھنے اور قتل وغارت سے نیست و نابود کرنے کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام کی بنیاد، خدا کے صحیح تصور اور اس کی توحید پر ہے، ظاہر ہے کہ جو مذہب انسانی دماغ کی تخلیق ہو یا جن الہامی مذہاب میں انسانوں نے ذاتی مفاد کی خاطر تحریف کر دی ہو ،ان میں خدا کا تصور ذہن انسانی کاتراشیدہ ہوگا اور چونکہ ذہن انسانی محسوسات سے آگے نہیں بڑھ سکتا ، اس لئے انکا تخلیق کردہ خدا بھی اسی قالب میں ڈھلا ہواہوگا۔ ہندومذہب میں سانپوں کی پوجا، بانجھ گائے کے بالوں اور کھروں کو سجدہ، گھوڑوں اور گھوڑوں کے مالکوں کو سجدہ ، نائی کے استرے اور سردی سے چڑھنے والے بخار کو سجدہ کرنے کی تلقین موجود ہے جبکہ دوسری طرف اسلام ایک آفاقی دین ہے، جو ایک الہ کو ماننے اور اسی کے سامنے جھکنے اور اسی سے مناجا ت کرنے کی تلقین کرتا ہے ، یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کوایک الگ وطن بنانے کی مہمیز اور تحریک دی ، اور بالآخر پاکستان ایک الگ وطن کی شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے ،اور آج جبکہ ہمسائے ملک کی طرف سے پاکستان میں ہر طرف افراتفری اور بد امنی کا دور دورا کر دیا گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کو لا الہ الا اﷲ کا ملک بنا دیا جائے اور قیام پاکستان کے جذبے اور ولولے دوبارہ تازہ کر دئے جائیں ۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.